یہ سب پلک جھپکنے کے دوران ہوتا ہے۔ الیکٹرک بائیک کی آواز آتی ہے۔۔۔ ایک ہاتھ بہت تیزی سے آپ تک پہنچتا ہے اور سیکنڈوں میں آپ کی پوری ڈیجیٹل زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ صدمے اور غیر یقینی کا یہ منظر برطانیہ کی سڑکوں پر دن میں سینکڑوں بار دہرایا جاتا ہے۔
فینیلا رولنگ کا نیا آئی فون 16 اگست کو کیمبرج میں شاپنگ ٹرپ کے دوران چوری ہو گیا تھا۔یہ سب پلک جھپکنے کے دوران ہوتا ہے۔ الیکٹرک بائیک کی آواز آتی ہے۔۔۔ ایک ہاتھ بہت تیزی سے آپ تک پہنچتا ہے اور سیکنڈوں میں آپ کی پوری ڈیجیٹل زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ صدمے اور غیر یقینی کا یہ منظر برطانیہ کی سڑکوں پر دن میں سینکڑوں بار دہرایا جاتا ہے۔
فون کی چوری کا اثر اکثر مالی نقصان سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔
فینیلا رولنگ کا نیا آئی فون 16 گذشتہ اگست میں کیمبرج میں ایک شاپنگ ٹرپ کے دوران چوری ہو گیا تھا۔
اس فون میں ان کی والدہ کی سینکڑوں تصاویر اور یادیں تھیں۔ ان کی والدہ کو پھیپھڑوں کا لا علاج کینسر ہے۔
وہ سب تصاویر ہمیشہ کے لیے ضائع ہو گئیں کیونکہ ان کا بیک اپ نہیں تھا اور فینیلا کا آئی کلاؤڈ اکاؤنٹ فعال نہیں ہوا تھا۔
فینیلا نے روتے ہوئے بتایا ’یہ وہ یادیں ہیں جو میں کبھی واپس نہیں لا سکتی۔‘
فائنڈ مائی ایپ کا استعمال کرتے ہوئے فینیلا اپنے چوری شدہ فون کو ٹریک کرنے میں کامیاب رہیں اور انھیں پتا چلا کہ ان کا فون لندن جانے والی ٹرین میں کسی کے پاس تھا۔
ایک ہفتے بعد یہ دبئی اور پھر چین پہنچ گیا۔ اس کے بعد فینیلا کو دھوکہ دہی والے پیغامات موصول ہونے لگے جن میں ان سے اپنے اکاؤنٹ کی تفصیلات ظاہر کرنے یا ان کے فون کا ڈیٹا مٹانے کے لیے کہا گیا تھا۔
انھوں نے مزید کہا ’میں نہیں جانتی کہ میری ماں کے ساتھ میرا کتنا وقت بچا ہے۔ میں کچھ اور نہیں کھونا چاہتی۔‘
لائسنس یافتہ ٹیکسی ڈرائیوروں کی ایسوسی ایشن کے چیئرمین پال برینن کا کہنا ہے کہ لندن میں فون کی چوری میں ’ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔‘فینیلا جیسی کہانیاں عام ہوتی جا رہی ہیں کیونکہ منظم جرائم کے گروہ ایسے فون چوری کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں جس کو وہ تقریباً 400 پاؤنڈتک میں فروخت کر سکیں۔
ایسے ہی ایک چور سونی سٹرنگر کو ایک گھنٹے میں 24 فون چوری کرنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا اور انھیں گذشتہ سال اگست میں دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
لائسنس یافتہ ٹیکسی ڈرائیوروں کی ایسوسی ایشن کے چیئرمین پال برینن کا کہنا ہے کہ ’لندن چوروں کے لیے ایک پسندیدہ مقام بن گیا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’کسی کو یقین نہیں آتا کہ ان کے ساتھ یہ (چوری) ہو سکتا ہے جب تک کہ واقعی ایسا ہو نہ جائے، اور یہی مسئلہ ہے۔ لوٹ مار کے امکانات بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔‘
پال برینن کا کہنا ہے کہ ’وہ (چور) ہمیشہ الیکٹرک بائیک استعمال کرتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے وہ جلدی بچ کر نکل سکتے ہیں اور وہ عام طور پر ماسک اور سر ڈھانپنے والا سیاہ لباس پہنتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’ہمارے پاس دنیا بھر سے باقاعدگی سے گاہک آتے تھے لیکن اب وہ اپنے دورے منسوخ کرنے کے لیے کال کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ لندن نہیں آئیں گے کیونکہ یہ اب محفوظ نہیں رہا ہے۔‘
میٹروپولیٹن پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں 117,211 فون چوری ہوئے، جو 2019 کے مقابلے میں 25 فیصد زیادہ ہے۔ 2019 میں ایسے 91،481 کیسز ریکارڈ کیے گئے تھے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ لندن کی سڑکوں پر چور عام طور پر الیکٹرک سکوٹر استعمال کرتے ہیں جو 60 میل (97 کلومیٹر) فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچ سکتے ہیں۔
چوری کرنے والے گروہوں میں ان بائیکس کے پھیلاؤ کی وجہ سے میٹروپولیٹن پولیس نے ان کا سراغ لگانے کے لیے زیادہ پاور والی بائیک کے ایک خصوصی بیڑے کا سہارا لیا ہے۔
میٹروپولیٹن پولیس کے ریان پیری نے کہا کہ ’وہ (چور) اس بات سے نفرت کرتے ہیں کہ ہمارے پاس یہ بائیکس آ گئی ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’وہ ہمیں سڑکوں پر اس کا استعمال کرتے ہوئے دیکھ کر نفرت کرتے ہیں مگر ہمارے نقطہ نظر اور عوام کے نقطہ نظر سے یہ بہت اچھا قدم ہے۔‘
انھوں نے کہا ’ان سے اگر ہم جرائم کو روک سکیں تو یہ بہترین ہیں۔ اور اگر چور باہر کھلے میں آ کر اپنی کارروائیاں جاری رکھنا چاہتے ہیں تو ہم ان کا پیچھا کرنے اور انھیں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے موجود ہوں گے۔‘
میٹروپولیٹن پولیس نے کہا کہ لندن کی سڑکوں پر چور اکثر ہلکے وزن والے الیکٹرک سکوٹر استعمال کرتے ہیں جو 60 میل فی گھنٹہ (97 کلومیٹر فی گھنٹہ) کی رفتار تک پہنچ سکتے ہیں۔فون چوروں کے خلاف جنگ صرف زمین تک محدود نہیں ہے۔ نیشنل پولیس ایئر سروس کے ٹیکٹیکل فیلڈ آفیسر اینڈریو لا لیس نے کہا کہ ’ہم ایک چور کا ڈراؤنا خواب ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا ’ایک بار جب ہم فضا سے ان کے سر پر پہنچ جاتے ہیں تو ان کے فرار ہونے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔‘
’ہم بہت کچھ دیکھ سکتے ہیں اور ہم مشتبہ افراد کو تلاش کرنے اور ٹریک کرنے کے لیے کیمروں اور آلات کا استعمال کرتے ہیں۔‘
پولیس ہیلی کاپٹروں پر لگے کیمرے مشتبہ افراد کے چہروں کو پکڑنے کے لیے زوم ان کر سکتے ہیں۔ایپنگ فاریسٹ سروس کے لندن میں مقیم مینیجر گلین واکر نے بی بی سی کو دکھایا کہ کس طرح ہیلی کاپٹر میں لگے کیمرے مشتبہ افراد کے چہروں کو زوم ان کر سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’کسی علاقے میں اکیلے ہیلی کاپٹر کی موجودگی چوروں کے لیے ایک حقیقی رکاوٹ بن سکتی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم ایک بڑا اور شور پیدا کرنے والا ہیلی استعمال کرتے ہیں اور اگر ہم ویسٹ منسٹر میں ڈکیتیوں کے ایک سلسلے کے بعد 1000 فٹ (300 میٹر) کی بلندی پر اڑ رہے ہیں تو مشتبہ شخص عام طور پر ہیلی کاپٹر کو سن یا دیکھے گا اور فوراً چھپ جائے گا۔‘
پولیس آفیسر گلین واکریہ صرف پولیس ہی نہیں ہے جو لندن میں فون چوروں سے نمٹ رہی ہے۔
ڈیاگو گالڈینو اپنے آپ کو ’پک پاکٹ ہنٹر‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
گالڈینو دن میں ڈیلیوری ڈرائیور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ انھوں نے ڈکیتیوں کی فلم بندی شروع کر دی ان ویڈیوز کو آن لائن پوسٹ کیا۔
ان کا اکاؤنٹ ’پک پاکٹ لندن‘ صرف چند مہینوں میں لاکھوں ویوز حاصل کر چکا ہے۔
گالڈینو نے کہا کہ جب انھوں نے چوروں کو چوری کرتے ہوئے دیکھا تو ان کی چھٹی حس نے انھیں کہا کہ عوام کو خبردار کرنا چاہیے۔
انھوں نے مزید کہا ’مجھے احساس ہے کہ شہر میں جرائم دن بہ دن بڑھتے جا رہے ہیں۔‘
ڈیاگو گالڈینو اپنے آپ کو 'پک پاکٹ ہنٹر' کے طور پر بیان کرتے ہیں۔گالڈینو نے بتایا کہ ’چور اپنے چہروں کو ڈھانپے ہوتے ہیں اور ان کے گروہ میں ہمیشہ دو یا زیادہ افراد ہوتے ہیں۔ وہ شاذ و نادر ہی اکیلے کام کرتے ہیں اور اکثر گروہوں میں ہوتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ جب کوئی ڈکیتی ہوتی ہے تو آپ کو آپ کی چوری شدہ چیز نہیں ملتی کیونکہ وہ اسے کسی اور کے حوالے کر دیتے ہیں۔
’اس لیے میں اس کے چھن جانے سے پہلے ہمیشہ چیخنے کی کوشش کرتا ہوں۔‘
یہ بات کافی عرصے سے مشہور ہے کہ لندن میں جیب کتروں کا ایک موبائل گروہ سرگرم ہے جو بڑے دارالحکومتوں کے درمیان گھومتا رہتا ہے اور جب حکام ان کے چہروں کو پہچاننے لگتے ہیں تو وہاں سے چلے جاتے ہیں۔
برٹش ٹرانسپورٹ پولیس نے بھی روزانہ لندن جانے والے فون چوروں کی تعداد میں اضافہ دیکھا ہے۔
فنسبری پارک سٹیشن پر بی بی سی کی ٹیم گشت کے دوران پولیس کے ساتھ شامل ہوئی۔ وہاں ایک ٹرانسپورٹ پولیس افسر نے ان کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا اور کہا ’یہ جو بلیک بیس بال کیپ والا آدمی ہے، ہم اسے جانتے ہیں اور یہ پورٹسماؤتھ میں رہتا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’وہ فون چوری کرنے کے لیے ہر روز پورٹسماؤتھ سے لندن جاتا ہے۔ یہ اس کی کل وقتی ملازمت ہے۔‘
کچھ دیر دور سے تعاقب کرنے کے بعد وہ شخص چوری کی کوشش کیے بغیر سٹیشن سے چلا گیا۔ اور پھر افسران کو علاقے میں ایک اور مشتبہ شخص کی اطلاع ملی۔
برٹش ٹرانسپورٹ پولیس کے اہلکار اکثر ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کا خفیہ گشت کرتے ہیں۔ خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں چوری کی شرح زیادہ ہوتی ہے جیسے کہ فنسبری پارک۔
ایک افسر نے کہا ’بہت زیادہ پیسہ کمانے کے لیے چور یہ کام بڑے پیمانے پر کرتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ بہت سے چور بیرون ملک سے برطانیہ آتے ہیں، چند ہفتے یہاں گزارتے ہیں اور پھر کسی اور جگہ چلے جاتے ہیں۔
لیکن علاقے میں کچھ فون چور مقامی بھی ہیں۔
افسر نے وضاحت کی ’گذشتہ دو سالوں میں ہم نے اس علاقے سے نوجوانوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا ہے جو چوروں کے وسیع نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ اس میں شاید 600 سے زیادہ لوگ شامل ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ہمارے پاس یقینی طور پر اس گینگ سے تعلق رکھنے والے کم از کم 600 افراد کی تصاویر ہیں۔