برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے کمانڈر سر ہنری فن نے اس شادی کی تقریب میں بطورِ مہمانِ خصوصی شرکت کی۔ شادی کی تقریبات ایک ماہ تک جاری رہیں اور پیسہ پانی کے طرح بہائے گئے۔
رنجیت سنگھ کے دربار کی ایک پینٹنگ’گھوڑے کی پشت پر سوار مہارجہ رنجیت سنگھ جب شیش محل سے نکلے تو قلعے پہنچنے تک راستے بھر وہ سونے کی اشرفیاں لٹاتے رہے۔ وہ کنور نونہال سنگھ کی شادی کی تقریبات سے بہت خوش تھے۔‘
’جب نونہال کی والدہ پردے سے نکل کر سامنے آئیں تو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے کہا کہ آج بہت ہی اہم دن ہے۔ میرے آباو اجداد کو ایسے دن دیکھنے کا موقع نہیں مل سکا لیکن آج مجھے یہ دن دیکھنا نصیب ہوا اور اس پر انھوں نے گرو نانک کا شکریہ ادا کیا۔‘
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے والد اور دادا اُس وقت انتقال کر گئے تھے جب وہ بہت کم عمر تھے۔
شادی کی تقریبات کے موقع پر جشن اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کے الفاظ مشہور تاریخ دان سوہن لعل سوری کی کتاب ’عمدۃ التواریخ‘ میں درج ہیں۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ کے پوتے نونہال سنگھ کی شادی مارچ 1837 میں ہوئی اور اب تک اس شادی کا شمار سکھ سلطنت کی سب سے بڑی شاہی تقریبات میں ہوتا ہے۔
شادی کے دو سال بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ کی موت ہو گئی اور اُن کی وفات کے بعد ریاستِ لاہور کا کوئی بھی پیش رو ویسی طاقت اور اقتدار برقرار نہیں رکھ سکا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ سلطنت بھی برطانیہ کےکنٹرول میں آنے لگی۔
نونہال سنگھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے پوتے تھےپریا اٹول آکسفورڈ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ یہ شادی اُس وقت پنجاب کی سب سے شاندار شادی تھی لیکن اُن کا کہنا ہے کہشادی کے بارے میں سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی کہانیوں کے شواہد موجود نہیں ہیں۔
پریا اٹول نے سکھ سلطنت پر کتاب ’رائل اینڈ ریبلز‘ تحریر کی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ نونہال سنگھ کی شادی ننکی کور سے ہوئی جو شام سنگھ اٹاری والاکی بیٹی تھیں۔ شادی کی شاندار تقریباتمہاراجہ رنجیت سنگھ کے خاندان کی خوشحالی اور سلطنت کی طاقت کو ظاہر کرنے کا موقع تھی۔
شام سنگھ اٹاری والا سکھ ریاست کے اہم کمانڈر تھے۔
مصنفہ پریا نے اپنی کتب میں لکھا کہ اس شادی کی سیاسی اور مذہبی اہمیت بھی تھی اور یہ رنجیت سنگھ کے خاندان کے عروج اور شان و شوکت کو ظاہر کرتی تھی۔
پریا کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ کھڑک سنگھ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے سرکاری طور پر جانیشن تھےلیکن مہاراجہ نونہال سنگھ کو اُن کی جنگی صلاحتیوں اور گھڑ سواری میں مہارت پر وہ بہت مانتے تھے۔‘
’مہاراجہ رنجیت سنگھ نونہال سنگھ کو اپنے بڑے بیٹے کھڑک سنگھ سے زیادہ پیار کرتے تھے۔‘
نونہال سنگھ چھ نومبر سنہ 1840 کو اپنی شادی کے تین سال بعد فوت کر گئے۔
ایک ماہ تک جاری رہنے والی تقریبات
نونہال سنگھ کی شادی کی تقریبات سکھ سلطنت کی سب سے بڑی تقریب میں ہوتا ہےپریا کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے کمانڈر سر ہنری فن نے اس شادی کی تقریب میں بطورِ مہمانِ خصوصی شرکت کی۔
شادی میں دریائے ستلج کے اُس پار سے بھی تعلق رکھنے والے رہنماؤں اور بادشاہوں نے شرکت کی۔
’نونہال سنگھ کی شادی کی تقریبات ایک ماہ تک جاری رہیں اور پیسہ پانی کے طرح بہائے گئے۔ اس شادی سے پہلے کھڑک سنگھ کی شادی ہوئی تھی اور وہ بھی کافی شاندار رہی تھی لیکن ان دونوں شادیوں کے بعد دولت کم ہو گئی۔‘
جب مہاراجہ رنجیت سنگھ اٹاری پہنچے تو انھوں نے سونے کے سکے اور پیسے نچھاور کیے۔ یہ وہ روایت ہے جو مہاراجہ اہم موقع پر کیا کرتے تھے۔ اس موقع پر وہاں موجود مہمان بشمول انگریز حکام بہت حیران ہوئے۔
اس شادی میں ہزاروں افراد نے شرکت کی تھی۔ دعوت کے اہتمام کے لیے باورچییوں، حلوائیوں اور دیگر کاریگروں کو کئی مہینے پہلے مدعو کیا گیا تھا تاکہ وہ تقریب کا اہتمام کر سکیں۔
10 فروری کوشادی کی تیاریوں کے لیے کھڑک سنگھ اور نونہال سنگھ دونوں کو امرتسر بھیج دیا گیا۔ رنجیت سنگھ نے اپنے وزیر بھائی رام اٹاری کو بھی شادی کی تقریب میںتفریحی انتظامات میں معاونت کے لیے اٹاری بھیجا تھا۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ نے تحائف، زیورات جیسی چیزوں پر خصوصی توجہ دی۔ رنجیت سنگھ اور ان کی اہلیہ مائی ناگئی دونوں نے ہی شادی کی تقریبات میں اہم کردار ادا کیا۔
پریا لکھتی ہیں کہ کتاب ’عمدۃ التواریخ‘ میں شادی کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ سب پہلے مہاراجہ کو پڑھا گیا تھا اور اس لیے اسے سرکاری ریکارڈ سمجھا جاتا ہے۔
10 مارچ کو مہاراجہ رنجیت سنگھ اٹاری گئے۔ وہاں سے وہ دلہے اور دلہن کے ساتھ امرتسر کی طرف روانہ ہوئے۔ کتاب ’عمدۃا لتواریخ‘ کے مطابق راستے میں پیسے برسائے گئے۔
اس کے بعد مہاراجہ لاہور واپس آئے اور شالامار باغ میں سر ہنری فن سے ملاقات کی۔ کتاب ’رائلز اینڈ ریبلز‘ کے مطابق شالیمار باغ کو مغل بادشاہ شاہ جہاں نے تعمیر کروایا تھا۔ لیکن رنجیت سنگھ نے اسے ’شالا باغ‘ کہا۔
عمدۃ التواریخ کے مطابق’نونہال سنگھ کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ فاتح فوجیوں کو ساز و سامان، زیورات اور دیگر شاندار اشیاء کو خوبصورتی سے سجائیں اور اپنے جلوس کو لارڈ صاحب (برطانوی نمائندہ) کے سامنے پیش کریں۔ انھیں حکم دیا گیا کہ وہ اسے اس طرح پیش کریں کہ اسے دیکھنے اور سننے والوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں۔‘
شادی اور جمرود کی لڑائی
مصنف ہری رام گپتا نے اپنی کتاب ’ہسٹری آف سکس‘ میں شادی کی تقریب کے پس منظر کا ذکر کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ برطانوی نمائندوں کو اپنی طاقت، دولت اور فوجی طاقت دکھانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے پشاور سمیت کئی مقامات سے فوجی دستے بھی بلا لیے تھے۔
مہاراجہ نے ہری سنگھ نلوا سے کہا تھا کہ وہ جمرود کے علاقے میں درہ خیبرکے قریب ایک قلعہ تعمیر کریں۔ افغان حکمران دوست محمد خان اس قلعے کو اپنی حکومت کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔
10 مارچ کو ہری سنگھ نے مہاراجہ کو خط لکھا اور اُن سے مدد بھیجنے کی درخواست کی جس پر انھیں جواب دیا گیا کہ ’برطانوی نمائندؤں کی واپسی کے بعد فوج بھیجی جائے گی۔‘
اس کے بعد 21 اپریل کو ایک اور خط آیا۔ جس پر مہاراجہ رنجیت سنگھ نے نونہال سنگھ اور دیگر افراد کو فوری طور پر پشاور جانے کا حکم دیا۔
30 اپریل سے یکم مئی تک ہونی والی لڑائی میں کمانڈر ہری سنگھ نلوا مارے گئے۔
نونہال سنگھ کی وفات
رنجیت سنگھ کے دربار کی تصویر کشیمہاراجہ رنجیت سنگھ کی موت کے وقت نونہال سنگھ پشاور کے قلعے کی تحفظ پر مامور تھے اور وہ 1840 میں لاہور واپس آئے۔
پریا اٹول کا کہنا ہے کہ کھڑک سنگھ کی پراسرار حالات میں موت کے بعد نونہال سنگھ کی موت بھی اُسی روز ہو گئی جب اُن کے والد کی آخری رسومات ادا کی جا رہی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ نونہال سنگھ پر دروازہ آن گرا تھا لیکن تاحال اُن کی موت کی وجہ واضح نہیں ہے۔
پریا نے لکھا ہے کہ برطانیہ کے پنشن ریکارڈ کے تحت نونہال سنگھ کی چار شادیاں ہوئیں لیکن ان کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
پریا نے لکھا کہ مہارجہ رنجیت سنگھ کے ایک دوسرے بیٹے کے لاہور پر حملے کے دوران نونہال سنگھ کی اہلیہ کا حمل ضائع ہو گیا تھا۔
اس واقعے سے پانچ سال قبل نونہال سنگھ کی شادی کے موقع پر خاندان کی شان و شوکت کاجشن منایا جا رہا تھا لیکن شادی کے دو سال بعد مہاراجہ ربجیت سنگھکی وفات ہو گئی اور پھر دربارِ لاہور کے جانشین کھڑک سنگھ، شیر سنگھ اور نونہال سنگھ بھی یکے بعد دیگرے وفات پا گئے۔