ایک وقت وہ بھی آیا جب جلال الدین کا تعاقب کرتے ہوئے چنگیز خان ہندوستان کی سرحد پر پہنچ گیا۔ چنگیز خان اور جلال الدین کی افواج کے درمیان آخری معرکہ دریائے سندھ کے کنارے پر ہوا۔
تقریباً 800 سال پہلے، ایک منگول خانہ بدوش نے بحیرہ اسود سے لے کر بحرالکاہل تک پھیلی ہوئی ایک وسیع سلطنت قائم کی۔ اس کا نام تیموجن تھا جو بعد میں پوری دنیا میں چنگیز خان کے نام سے مشہور ہوا۔
’منگولوں کی خفیہ تاریخ‘ میں بتایا گیا ہے کہ جب وہ پیدا ہوا تو اس کی ہتھیلی میں خون کا ایک لوتھڑا موجود تھا۔ مقامی لوگوں کے نزدیک یہ اس بچے کے عظیم فاتح ہونے کی علامت تھی۔
لیکن چنگیز خان کے لیے ابتدائی زندگی آسان نہ تھی۔ ان کے والد کو دشمنوں نے زہر دے کر موت کے گھاٹ اتار دیا اور یوں وہ بہت چھوٹی عمر میں ہی بے سہارا ہو گئے۔
خان نام کی وجہ سے بہت سے لوگ انھیں مسلمان مانتے ہیں جبکہ خان دراصل ایک لقب ہے۔ وہ منگول تھے اور شمن پرستی پر یقین رکھتے تھے، جس میں آسمان کی پوجا کرنے کی روایت تھی۔
چنگیز خان نے اپنی ابتدائی زندگی غربت میں گزاری لیکن فتوحات کا جو سلسلہ اس نے 50 سال کی عمر میں شروع کیا اس نے اسے دنیا کے عظیم فاتحین میں شامل کر دیا۔
ان کی قیادت میں منگولوں نے پورے چین، وسطی ایشیا، ایران، مشرقی یورپ اور روس کے ایک بڑے حصے پر حکومت کی۔ چنگیز کی فوجیں آسٹریا، فن لینڈ، کروشیا، ہنگری، پولینڈ، ویت نام، برما، جاپان اور یہاں تک کہ انڈونیشیا تک پہنچ گئیں۔
ایف ای کروز اپنی کتاب 'Epoch of Mongols' میں لکھتے ہیں کہ ’چنگیز کی سلطنت 12 ملین مربع میل پر پھیلی ہوئی تھی، یعنی افریقی براعظم کے برابر اور شمالی امریکہ کے براعظم سے بڑا علاقہ۔ اس کے مقابلے میں رومی سلطنت بہت چھوٹی تھی۔‘
اگر دیگر عالمی فاتحین کی کامیابیوں پر نظر دوڑائی جائی تو سکندر اعظم کے پاس ایسی فوج تھی جو اس کے والد فلپ نے بنائی تھی۔ اسی طرح جولیس سیزر کی رومی فوجی برتری کی 300 سالہ پرانی تاریخ تھی۔
نپولین انقلاب فرانس کے بعد ملنے والی عوامی حمایت کی بدولت حکومت کرنے کے قابل ہوا۔
اس کے برعکس چنگیز خان کو اپنی روایات خود ایجاد کرنی پڑیں اور بے شمار سیاسی اور سماجی مسائل سے نبردآزما ہو کر اس نے بڑی مشکل سے اپنے لیے جگہ بنائی۔
سوتیلے بھائی کا قتل
ایک نوجوان کے طور پر، اس نے باز کے ساتھ پرندوں کا شکار کرنے کا فن سیکھنا شروع کیا۔ اس وقت مستقبل کے لیڈر کے لیے یہ ایک ضروری ہنر سمجھا جاتا تھا۔ چنگیز خان نے کبھی پڑھنا یا لکھنا نہیں سیکھا۔
13 سال کی عمر میں اس نے اپنے سوتیلے بھائی کو قتل کر دیا۔
فرینک میک لین اپنی کتاب ’چنگیز خان: دنیا کو فتح کرنے والا انسان‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اتنی چھوٹی عمر میں قتل سے پتہ چلتا ہے کہ چنگیز خان فطری طور پر بے رحم تھا۔ اس نے اپنی جوانی میں ہی مستقبل کے بارے میں سوچنے کی صلاحیت پیدا کر لی تھی۔ وہ اپنے سوتیلے بھائی کو ایک حریف سمجھتا تھا، جو جانشینی کا دعویٰ کرتا تھا۔‘
رفتہ رفتہ چنگیز خان نے خود کو ایک نوجوان سپہ سالار کے طور پر قائم کرنا شروع کر دیا۔ اس نے اپنی تقریباً پوری زندگی خیموں اور لڑائی میں گزاری، اس کے لیے سول انتظامیہ پر توجہ دینے کے لیے بہت کم وقت چھوڑا۔
مشہور ایرانی مؤرخ منہاج السراج جوزجانی نے لکھا ہے کہ ’چنگیز عظیم قابلیت کا مالک تھا، جو اپنی فوج کے لیے کسی دیوتا جیسا تھا۔‘
منہاج السراج کے مطابق جب چنگیز خان خراسان پہنچا تو اس کی عمر 65 سال ہو چکی تھی، ’وہ لمبا اور خوب صورت تھا، اس کے چہرے پر بہت کم بال تھے، جو کہ اس وقت تک سفید ہو چکے تھے۔ اس کی آنکھیں بلی کے جسم جیسی تھیں، اور اس کے جسم میں بے انتہا توانائی تھی۔‘
چنگیز خان کی خامیاں
چنگیز خان کی شخصیت کے بہت سے تاریک پہلو ہو سکتے ہیں لیکن اکثر مورخین کا خیال ہے کہ اس کی سیاسی صلاحیتوں پر کوئی شک نہیں ہے۔
روسی مؤرخ جارج ورناڈسکی نے اپنی کتاب 'Mongols and Russia' میں لکھا ہے کہ ’چنگیز عسکری حکمت عملی کا بے مثال ماہر تھا۔ لوگوں کے ذہنوں اور انسانی نفسیات کو پڑھنے کی اس کی صلاحیت قابل ذکر تھی۔ اس کا تخیل بھی قابل تعریف تھا۔‘
چنگیز خان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی محتاط اور مشاہدہ کرنے والا تھا۔
چنگیز کا خطرناک غصہ
چنگیز خان اکثر اپنا غصہ کھو بیٹھتا تھا۔ 1220 کی دہائی میں ٹرانسوکسیانا کو فتح کرنے کے بعد، اس نے مغربی ایشیا میں مسلمان شہزادوں سے خط و کتابت کے لیے ایک مترجم اور کلرک کی خدمات حاصل کیں۔
منہاج سراج اپنی کتاب ’طبقات ناصری‘ میں لکھتے ہیں کہ چنگیز کو جب خبر ملی کہ موصل کا شہزادہ شام پر حملہ کرنے والا ہے تو اس نے اس کلرک کو کہا کہ وہ موصل کے شہزادے کے نام خط میں لکھے کہ وہ ایسا کرنے کی ہمت نہ کرے۔ لیکن خط لکھنے والے نے ایسے الفاظ کا استعمال کیا جن سے احترام کی جھلک ملتی تھی۔
یہ خط جب چنگیز خان نے پڑھا تو وہ غصے میں آ گیا اور اس نے کانپتے ہوئے کہا کہ ’تم غدار ہو، یہ خط پڑھ کر اور بھی مغرور ہو جائے گا۔‘
چنگیز نے تالیاں بجائیں، ایک سپاہی کو بلایا اور کاتب کو قتل کرنے کا حکم صادر کر دیا۔
ظلم کے ساتھ سخاوت کی کہانیاں
جیکب ایبٹ اپنی کتاب ’دی ہسٹری آف چنگیز خان‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک بار ایک بزرگ عورت نے منگولوں سے اپنی جان بخشی کی درخواست کی۔ اس نے بدلے میں ایک قیمتی موتی دینے کا وعدہ کیا۔ چنگیز کے سپاہیوں نے اس سے پوچھا کہ وہ موتی کہاں ہے تو عورت نے کہا کہ اس نے اسے نگل لیا ہے۔ منگولوں نے سوچا کہ شاید دوسری عورتوں نے بھی اسی طرح موتی نگل لیا ہے اور انھیں چھپانے کی کوشش کی ہے اور نتیجتاً انھوں نے قیمتی موتیوں کی تلاش میں بہت سی عورتوں کے پیٹ پھاڑ ڈالے۔
چنگیز خان اپنے نواسوں سے بہت پیار کرتا تھا۔ پال راچنیوسکی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک بار، جب اس کا ایک پوتا بامیان کے محاصرے کے دوران مارا گیا تو اس نے اس علاقے کے تمام لوگوں کو ذبح کرنے کا حکم دیا، جن میں جانور تک شامل تھے۔
لیکن اس میں اچانک سخاوت دکھانے کی بھی قابل ذکر صلاحیت تھی۔ ایک بار جب اس نے ایک کسان کو چلچلاتی دھوپ میں پسینہ بہاتے دیکھا تو اس کے تمام ٹیکس معاف کر کے اسے مزدوری سے آزاد کر دیا۔
مورخین اس بات پر تقریباً متفق ہیں کہ چنگیز خان ایک ظالم آدمی تھا۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ اسے نفسیاتی مریض بھی کہتے ہیں۔ چنگیز خان اکثر یہ جواز دیا کرتا تھا کہ اس نے ہمیشہ غداروں کو مارا۔
ورناڈسکی لکھتے ہیں کہ ’ہم 21ویں صدی میں جس بات کو جرم سمجھتے ہیں وہ 13ویں صدی میں عام تھے۔ ظلم کے لیے اس کی شہرت 16ویں صدی میں انگلینڈ کے ہنری VIII سے کم تھی۔‘
چنگیز خان نے ہمیشہ دعویٰ کیا کہ اس کی ’ہتھیار ڈالو یا مارے جاؤ‘ کی پالیسی نے ہمیشہ اس کے دشمنوں کو جان بچانے کا موقع فراہم کیا۔
کہا جاتا ہے کہ چنگیز خان اپنی سلطنت کو وسعت دینے میں اتنا مصروف تھا کہ وہ اپنے گھوڑے سے کبھی نہیں اترا۔ وہ کبھی آرام دہ بستر پر نہیں سوتا تھا۔ وہ عام طور پر بھوکا رہتا تھا اور ہر وقت موت کے خوف میں رہتا تھا۔
جب چنگیز خان ہندوستان کی سرحد سے واپس چلا گیا
چنگیز خان نے 1211 سے 1216 تک منگولیا سے بہت آگے چین کو فتح کرنے کے اپنے مقصد کے حصول میں پانچ سال گزارے۔
ایسے میں ایک وقت وہ بھی آیا جب جلال الدین کا تعاقب کرتے ہوئے چنگیز خان ہندوستان کی سرحد پر پہنچ گیا۔ چنگیز خان اور جلال الدین کی افواج کے درمیان آخری معرکہ دریائے سندھ کے کنارے پر ہوا۔
چنگیز خان نے جلال کی فوج کو تین اطراف سے گھیر لیا۔ ان کے پیچھے دریائے سندھ بہہ رہا تھا۔
ولہیم بارتھولڈ اپنی کتاب 'Turkistan Down to the Mungol Invasion' میں لکھتے ہیں کہ ’جلال نے اپنی تمام کشتیاں تباہ کر دیں تاکہ اس کے سپاہی میدانِ جنگ سے فرار نہ ہو سکیں۔‘
’چنگیز خان کے پاس اس سے زیادہ سپاہی تھے۔ جلال نے چنگیز خان کے پہلے حملے کو پسپا کر دیا۔‘
اس جنگ کو بیان کرتے ہوئے محمد نیساوی لکھتے ہیں کہ جب منگولوں کا دباؤ بڑھنے لگا تو جلال الدین نے اپنے گھوڑے سمیت 180 فٹ گہرے دریائے سندھ میں چھلانگ لگا دی اور طویل چوڑائی عبور کر کے جلال دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچ گیا۔
جلال الدین کی ہمت دیکھ کر چنگیز نے حکم دیا کہ اسے نشانہ نہ بنایا جائے لیکن جلا الدین کے اکثر سپاہیوں کو مار ڈالا گیا اور جلال کے تمام بیٹوں اور مرد رشتہ داروں کو بھی موت کی سزا سنائی گئی۔
جلال الدین وہاں سے دہلی چلا گیا لیکن سلطان التمش نے منگول حملے کے خوف سے اسے سرکاری پناہ دینے سے انکار کر دیا۔ جلال دہلی نہیں پہنچا لیکن ہندوستان میں ہی رہا یہاں تک کہ چنگیز نے اس کا پیچھا کرنے کا خیال ترک کردیا۔
جب جلال کو یقین ہو گیا کہ چنگیز خان منگولیا واپس چلا گیا ہے تو وہ سمندری راستے سے ایران پہنچا۔
چنگیز خان کی ماضی کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ بات حیران کن تھی کہ اس نے جلال الدین کا تعاقب کرنے کا خیال ترک کر دیا اور ہندوستان کے اندر اپنی فوج نہیں بھیجی۔
فرینک میکلین لکھتے ہیں کہ چنگیز خان نے دو دستے ہندوستان بھیجے جنھوں نے دریائے سندھ کو عبور کیا اور لاہور اور ملتان پر حملہ کیا۔ ’لیکن وہ ملتان پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے۔ ان کے آگے نہ بڑھنے کی وجہ وہاں کی گرمی تھی، جس کے وہ بالکل بھی عادی نہیں تھے۔‘
جان میکلوڈ اپنی کتاب ’ہسٹری آف انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ التمش نے بھی جلال الدین کو پنادہ دینے سے صاف انکار کر کے چنگیز خان کو ناراض نہیں کیا اور اس نے ہندوستان میں داخل ہونے اور جلال الدین کا پیچھا کرنے کی چنگیز خان کی درخواست پر ہاں یا ناں میں جواب نہیں دیا۔
چنگیز کو سمجھ آ گئی کہ التمش اس معاملے پر اس سے جنگ نہیں کرنا چاہتا۔
ڈاکٹر وِنک اپنی کتاب 'Slave Kings and the Islamic Conquest' میں لکھتے ہیں کہ ’ہندوستان کی گرمی چنگیز خان کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ اسی لیے چنگیز خان کے جرنیلوں نے واپسی کا فیصلہ کیا۔‘
گھوڑوں اور چارے کی کمی
چنگیز خان کا ایک اور مسئلہ گھوڑوں کا تھا۔ ابن بطوطہ نے یہ ذکر کیا ہے کہ دس ہزار گھوڑوں پر مشتمل منگول فوج کو بڑی تعداد میں چارہ اور پانی درکار تھا۔ سندھ اور ملتان میں پانی تو دستیاب تھا، لیکن چارہ نہیں تھا۔
دوسری بات یہ کہ علاقے میں اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی کمی تھی اس لیے اضافی گھوڑوں کا انتظام نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مزید برآں، چنگیز خان نے اتنی سرزمین فتح کر لی تھی کہ اس کے پاس اتنے فوجی نہیں تھے کہ اس پر قابو رکھ سکیں۔ پھر فوجیوں کی صحت کا مسئلہ تھا۔
فرینک میکلین لکھتے ہیں کہ ’چنگیز خان کے بہت سے سپاہی بخار اور خطے کی بیماریوں کا شکار ہو گئے۔ چنگیز خان کے پاس ہندوستان کے جنگلات اور پہاڑوں کے بارے میں درست معلومات کی کمی تھی۔ چنگیز خان ایک توہم پرست آدمی بھی تھا۔ اس کے سپاہیوں نے ایک گینڈا دیکھا جو ایک برا شگون سمجھا جاتا تھا۔‘
چنگیز کا آخری پیغام
جولائی 1227 تک چنگیز کی صحت خراب ہو رہی تھی۔ ایک دن اس نے اپنے تمام بیٹوں اور قابل اعتماد جرنیلوں کو اپنے پاس بلایا۔
منگولوں کو بتایا گیا کہ چنگیز خان کو بخار ہے، لیکن اس کے بستر کے قریب کھڑے لوگ جانتے تھے کہ وہ زیادہ دن زندہ نہیں رہے گا۔
آر ڈی تھیکسٹن اپنی کتاب ’دی ہسٹری آف دی منگولز‘ میں لکھتے ہیں کہ بستر مرگ پر چنگیز خان نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ ’زندگی بہت مختصر ہے، میں پوری دنیا کو فتح نہیں کر سکتا، آپ کو یہ کام پورا کرنا چاہیے، میں آپ کے لیے دنیا کی سب سے بڑی سلطنت چھوڑ کر جا رہا ہوں، اس کی حفاظت صرف ایک چیز سے ہو سکتی ہے: آپ متحد رہیں۔‘
کچھ عرصے بعد چنگیز اس دنیا کو الوداع کہہ گیا۔