بی بی سی نے ایسے 15 خاندانوں کی نشاندہی کی، جن کا کہنا تھا کہ جمع ہونے والے عطیات میں سے اُنھیں کچھ نہیں ملا اور بعض اوقات تو اُنھیں یہ تک نہیں پتہ چلا کہ اُن کے بچوں کے نام پر آن لائن مہم بھی چلائی جا چکی ہے۔
ایک کمسن بچہ کیمرے کی طرف دیکھ رہا ہے، اس کا چہرہ پیلا پڑ چکا ہے اور اس کے بال بھی نہیں ہیں۔
وہ کہتا ہے کہ ’میری عمر سات سال ہے اور مجھے کینسر ہے، خدا کے لیے میری جان بچائیں اور میری مدد کریں۔‘
بچے کی یہ تصویر ایک ویڈیو میں سے لی گئی ہے۔ اس کی والدہ کہتی ہیں کہ وہ یہ ویڈیو ریکارڈ نہیں کروانا چاہتا تھا، کیونکہ اسے اس کا سر منڈوانے کا کہا گیا اور پھر ویڈیو بنانے والے عملے نے اسے ڈرپ لگا دی۔
والدہ کے بقول بچے کے اہلخانہ سے کہا گیا کہ آپ کیمرے پر بتائیں کہ آج اس کی سالگرہ ہے اور ساتھ ہی اُنھوں نے بچے کو انگریزی میں پڑھ کر سنانے کے لیے ایک سکرپٹ بھی دیا، جو اس کی والدہ کے بقول بچے کو بالکل پسند نہیں آیا۔
الجن کہتی ہیں کہ بچے کے قریب کٹا ہوا پیاز رکھا جاتا تھا تاکہ اس کی آنکھوں میں آنسو آئیں جبکہ اس کی آنکھوں کے نیچے مینتھول بھی لگایا گیا۔
الجن کہتی ہیں کہ گو کہ یہ سارا سیٹ اپ جعلی تھا لیکن خلیل کو واقعی کینسر تھا۔ اُنھیں بتایا گیا تھا کہ اس ویڈیو سے بچے کے بہتر علاج کے لیے اُنھیں اچھی خاصی رقم ملے گی اور ایسا ہی ہوا۔
خلیل کے نام پر عطیات جمع کرنے کی آن لائن مہم شروع کی گئی، جس میں 27 ہزار ڈالرز جمع بھی ہوئے۔
لیکن الجن کو بتایا گیا کہ یہ مہم ناکام ہو گئی اور اُنھیں اُس روز خلیل کی ویڈیو بنوانے کے لیے صرف 700 ڈالرز ادا کیے گئے۔ ایک سال بعد خلیل جان کی بازی ہار گئے۔
بی بی سی ورلڈ سروس کی تحقیقات میں سامنے آیا کہ دنیا بھر میں بیمار یا مرنے والے بچوں کے مایوس والدین کو آن لائن استعمال کر کے اُن کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ لوگوں نے ان بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے آن لائن عطیات جمع کراوئے، جو مستحقین تک کبھی نہیں پہنچ سکے۔
بی بی سی نے ایسے 15 خاندانوں کی نشاندہی کی، جن کا کہنا تھا کہ جمع ہونے والے عطیات میں سے اُنھیں کچھ نہیں ملا اور بعض اوقات تو اُنھیں یہ تک نہیں پتہ چلا کہ اُن کے بچوں کے نام پر آن لائن مہم بھی چلائی جا چکی ہے۔

بی بی سی نے ایسے نو خاندانوں سے بات کی، جن کا شکوہ تھا کہ اُن کے بچوں کے نام پر چلائی جانے والی آن لائن مہمات میں 40 لاکھ ڈالرز جمع ہوئے لیکن اُنھیں اس میں سے ایک پائی بھی نہیں ملی۔
اس طرح کی آن لائن مہم چلانے والے نیٹ ورک کے ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم ایسے خوبصورت بچوں کو تلاش کرتے تھے، جن کی عمریں، تین سے نو سال کے درمیان ہوں اور ان کے سر پر بال بھی نہ ہوں۔‘
بی بی سی نے اس میں ملوث ایک شخص کا کھوج لگایا، جو کینیڈا میں مقیم اسرائیلی شہری ہے اور اس کا نام ایریز حیدری ہے۔
بی بی سی نے یہ تحقیقات سنہ 2023 میں شروع کیں، جب ایک پریشان کن یوٹیوب ویڈیو نے ہماری توجہ حاصل کی۔
اس ویڈیو میں افریقی ملک گھانا کی الیگزینڈرا نامی لڑکی نے روتے ہوئے کہا کہ ’میرے علاج پر بہت لاگت آتی ہے۔‘
بعد میں پتا چلا کہ اس لڑکی کے لیے آن لائن چلائی گئی چندہ مہم میں تقریباً سات لاکھ ڈالرز جمع ہوئے۔ ہم نے یوٹیوب پر دنیا بھر سے بیمار بچوں کی مزید ویڈیوز دیکھی ہیں، جو سب حیرت انگیز طور پر ملتی جلتی ہیں اور نہایت آسانی سے تیار کی گئی ہیں اور ان کے ذریعے بہت بڑی رقم جمع کی گئی۔
ان سب ویڈیوز کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں روتے ہوئے بچوں کو دکھا کر جذباتی رنگ بھرنے کی کوشش کی گئی۔
ہم نے اس معاملے کی مزید تحقیقات کا فیصلہ کیا۔
ہمیں معلوم ہوا کہ اس حوالے سے سب سے بڑی مہم ’چانس فور ہوپ‘ کے نام سے چلائی جا رہی تھی اور اسرائیل اور امریکہ میں رجسٹرڈ تھی۔
ہمارے لیے ان ویڈیوز میں دکھائے جانے والے بچوں کی شناخت بہت مشکل تھی لیکن اس کے لیے ہم نے جغرافیائی محل و وقوع، سوشل میڈیا اور چہرے کی شناخت کے سافٹ ویئر کا استعمال کیا۔ یہ بچے کولمبیا اور فلپائن میں بھی تھے۔

یہ جاننا تو مشکل ہے کہ ویب سائٹس پر درج جمع کی گئی رقم درست ہے یا نہیں، لیکن ہم نے ان میں سے دو ویب سائٹس کو چھوٹے چھوٹے عطیات دیے اور ان پر درج رقوم میں اضافہ نظر آیا۔
ہم نے ایک ایسے شخص سے بھی بات کی جس نے الیگزینڈا کی مہم کے لیے 180 ڈالر کا عطیہ دیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد انھیں تواتر سے مزید عطیات کے لیے درخواستیں موصول ہوتی رہیں اور ایسا لگتا تھا جیسے کہ یہ پیغامات الیگزینڈا کے والد کی طرف سے آ رہے ہیں۔
دوسری جانب فلپائنز میں الجن نے ہمیں بتایا کہ ان کے بیٹے خلیل اپنی ساتھ ساتویں سالگرہ کے فوراً بعد بیمار پڑ گئے تھے۔ ’جب ہمیں معلوم ہوا کہ یہ کینسر ہے تو ہماری دنیا ہی تباہ ہو گئی۔‘
الجن کہتی ہیں کہ سیبو کے مقامی ہسپتال میں علاج بہت سست روی سے ہو رہا تھا اور اس لیے انھوں نے ان تمام لوگوں کو پیغامات بھیجے جو ان کی مدد کر سکتے تھے۔
ان شخص نے ان کا رابطہ مقامی کاروباری شخصیت روہئی ینسیرتو سے کروایا اور انھوں نے ہی خلیل کی ویڈیو مانگی۔ الجن کو بعد میں اندازہ ہوا کہ وہ دراصل ایک آڈیشن تھا۔
اس کے بعد دسمبر 2022 میں ایک اور شخص کینیڈا سے آیا جس نے اپنا تعارف ایریز کے نام سے کروایا۔ الجن کہتی ہیں کہ اس شخص نے ویڈیو بنانے کے پیسے تو فوراً دے دیے اور وعدہ کیا کہ اگر اس ویڈیو کے ذریعے عطیات آنا شروع ہو گئے تو وہ انھیں ماہانہ 1500 ڈالر مزید دے گا۔
الجن کے مطابق ایریز نے خلیل کی ویڈیو مقامی ہسپتال میں بنائی تھی اور وہ بعد بعد ری ٹیک لے رہے تھے، جس کے سبب فلمنگ میں 12 گھنٹے لگ گئے۔

مہینوں بعد خاندان کو بتایا گیا کہ خلیل کی ویڈیو زیادہ کامیاب نہیں رہی۔ ایریز نے الجن کو بتایا کہ ویڈیو ’کامیاب نہیں رہی۔‘
الجن کہتی ہیں کہ ’میں سمجھی کہ اس ویڈیو نے پیسے نہیں بنائے۔‘
پھر ہم نے الجن کو بتایا کہ اس مہم کے ذریعے نومبر 2024 تک 27 ہزار ڈالر جمع کیے گئے تھے اور یہ مہم اب بھی آن لائن موجود ہے۔
الجن کہتی ہیں کہ ’اگر اتنے پیسے جمع ہو گئے تھے تو میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ شاید خلیل آج بھی زندہ ہو سکتا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا کہ وہ ہمارے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔‘
جب ہم نے روہئی سے خلیل کی ویڈیو بنانے میں ان کے کردار کے حوالے سے پوچھا تو انھوں نے خاندانوں کو کہہ کر بچوں کے سر منڈوانے کی تردید کر دی اور کہا کہ انھیں ایسے خاندانوں کی شناخت کرنے کے لیے کوئی رقم نہیں دی گئی۔
ان کا کہنا تھا جو کچھ بھی جمع کیے گئے فنڈز کے ساتھ ہوا اس پر ان کا ’کوئی کنٹرول نہیں‘ تھا اور ویڈیو بنانے والے دن کے بعد ان کا کسی خاندان سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ جب ہم نے انھیں بتایا کہ جمع کیے گئے عطیات خاندانوں تک نہیں پہنچے تو انھوں نے کہا کہ یہ سن کر وہ ’پریشان‘ ہیں اور ’خاندانوں کے ساتھ افسوس کا اظہار‘ کرتے ہیں۔
’چانس لیٹیکوا‘ کی رجسٹریشن سے متعلق دستاویزات پر ایریز نامی کسی شخص کا نام موجود نہیں لیکن ان کی جن دو مہمات کی ہم نے تحقیقات کی ہیں اس کے فروغ کے لیے ’والز آف ہوپ‘ نامی تنظیم بھی کام کر رہی تھی، جو اسرائیل اور کینیڈا میں رجسٹرڈ ہے۔
ڈاکیومنٹس پر اس کے ڈائریکٹر کا نام ایریز حداری درج تھا۔
ایریز حداری کی آن لائن موجود تصاویر میں انھیں فلپائنز، نیو یارک اور میامی میں یہودی مذہبی تقریبات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جب ہم نے یہ تصاویر الجن کو دکھائیں تو انھوں نے کہا کہ یہ وہی شخص ہے جس سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔
جب ہم نے ایریز حداری سے فلپائن میں عطیات کی مہم میں ان کے کردار کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے ہمیں جواب نہیں دیا۔
ہم نے ان دیگر خاندانوں سے بھی ملاقاتیں کی جن کی مہمات کا انتظام ایریز حداری نے سنبھالا ہوا تھا یا ان کا ان مہمات سے کوئی تعلقات تھا۔ ان میں سے ایک خاندان کولمبیا میں تھا اور ایک یوکرین میں۔
خلیل کے معاملے کی طرح یہاں بھی مقامی لوگوں نے ان خاندانوں کو مدد کی پیشکش کی تھی۔ بچوں کی ویڈیوز بنائی گئیں، انھوں معمولی رقم کے لیے رُلایا گیا لیکن انھیں کبھی مزید رقم نہیں دی گئی۔
شمال مغربی کولمیبا کے علاقے سکرے میں رہائش پزیر سرجیو کیرے کہتے ہیں کہ انھوں نے ابتدائی طور پر مدد کی پیشکش ٹھکرا دی تھی۔ ان کے مطابق ان سے کسی ازابیل نامی شخص نے رابطہ کیا اور آٹھ سالہ بیٹی انا کے لیے مالی مدد کی پیشکش کی، جنھیں برین ٹیومر تھا۔
اس کے بعد ازابیل انھیں ڈھونڈتے ہوئے اس ہسپتال تک پہنچ گئیں جہاں انا زیرِ علاج تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ازابیل کے ساتھ ایک شخص اور بھی تھا، جس نے بتایا کہ وہ ایک غیرملکی این جی او کے لیے کام کرتا ہے۔
جو حلیہ سرجیو نے ہمیں بتایا وہ ہو بہو ایریز حداری سے ملتا ہے، اس کے بعد انھوں نے ایک تصویر میں ایریز حداری کو پہچان بھی لیا۔
’انھوں نے مجھے امید دلائی، میرے پاس مزید پیسے نہیں تھے۔‘

بچی کی ویڈیو بنانے کے بعد سرجیو کے خاندان سے مطالبات کیے جاتے رہے۔
سرجیو کہتے ہیں کہ ازابیل بار بار فون کرتی رہیں اور ہسپتال میں موجود انا کی مزید تصاویر مانگتی رہیں۔
جب سرجیو نے جواب نہیں دیا تو ازابیل نے براہ راست انا کو پیغامات بھیجنا شروع کر دیے۔ یہ وائس نوٹس ہم نے بھی سنے ہیں۔
انا نے ازابیل کو بتایا کہ ان کے پاس بھیجنے کو مزید تصاویر نہیں۔ ازابیل نے جواب دیا کہ ’انا، یہ بری بات ہے، بہت بری بات ہے۔‘
رواں برس جنوری میں انا مکمل طور پر صحتیاب ہو گئیں اور انھوں نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ جس پیسے کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا اس کا کیا ہوا۔
ازابیل نے انا کو بتایا کہ ’وہ فاونڈیشن غائب ہو چکی ہے، آپ کی ویڈیو کبھی اپلوڈ ہی نہیں ہوئی۔ اس ویڈیو کا استعمال ہی نہیں کیا گیا، سن رہی ہو نہ میری بات؟‘
لیکن ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہ ویڈیو اپلوڈ کی گئی تھی اور اپریل 2024 تک اس کا استعمال کرتے ہوئے ڈھائی لاکھ ڈالر جمع کیے گئے تھے۔
انا اور اس کے والدیوکرین میں ہمیں معلوم ہوا کہ ایک بیمار بچی کی والدہ سے کسی نے رابطہ کیا۔
ٹیٹیانا خالیافکا نے پانچ سالہ وکٹوریا کے شوٹ کا انتظام کیا، جو کہ دماغ کے کینسر میں مبتلا تھیں اور اینجل ہوم کلینک میں زیرِ علاج تھیں۔
’چانس لیٹیکوا‘ سے متعلق ایک فیس بُک پر ایک لنک پوسٹ میں وکٹوریا اور ان کی والدہ اولینا فرسوا کو ایک بیڈ پر بیٹھے دیکھا جا سکتا ہے۔
اس پوسٹ کے کیپشن میں لکھا تھا کہ ’میں اپنی بیٹی کو بچانے کے لیے آپ کی کوششوں کو دیکھ سکتی ہوں اور ان سے بہت متاثر بھی ہوں۔ وکٹوریا کے علاج کے لیے رقم جمع کرنا ایسا ہی ہے جیسے وقت کے ساتھ مقابلہ۔‘
عطیات کی مہم کے ذریعے دو لاکھ 44 ہزار پاونڈ جمع کیے گئے تھے۔
ہمیں بتایا گیا کہ ٹٹیانا اینجل ہوم میں ایڈورٹائزنگ اور کمیونیکیشنز کی ذمہ دار ہیں۔
کلینک نے حالیہ دنوں میں بی بی سی کو بتایا کہ وہ ہسپتال کی حدود میں ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں دیتے۔
’کلینک نے کبھی کسی تنظیم کی جانب سے کسی فنڈ ریزنگ میں نہ حصہ لیا اور نہ اس کی حمایت کی۔‘
اینجل ہوم کلینک کے مطابق ٹیٹیانا کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔
وکٹوریا اور اس کی ماںاولینا نے ہمیں وہ معاہدہ دکھایا جس پر اُنھیں دستخط کرنے کو کہا گیا تھا۔
اس معاہدے میں درج تھا کہ خاندان کو فلم بندی کے دن 1500 ڈالر دیے جائیں گے اور جب فنڈ ریزنگ کا ہدف پورا ہو جائے گا تو 8000 ڈالر ملیں گے تاہم ہدف کی رقم خالی چھوڑی گئی تھی۔
معاہدے میں چانس لیٹیکوا کا نیو یارک کا پتہ درج تھا جبکہ تنظیم کی ویب سائٹ پر ایک اور پتہ موجود ہے جو بیت شیمیش میں ہے، جو یروشلم سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ ہم دونوں جگہ گئے لیکن وہاں اس تنظیم کا کوئی نشان نہیں ملا۔
ہم نے یہ بھی دریافت کیا کہ ’چانس لیٹیکوا‘ ایسی کئی تنظیموں میں سے ایک معلوم ہوتی ہے۔
وہ شخص، جس نے وکٹوریا کی مہم کی فلم بندی کی تھی، نے ہمارے پروڈیوسر کو بتایا (جو ایک بیمار بچے کے دوست کے طور پر پیش ہو رہی تھیں) کہ وہ دیگر ایسی تنظیموں کے لیے بھی کام کرتے ہیں۔
اپنا نام ’اولیہ‘ بتاتے ہوئے انھوں نے کہا ’ہر بار یہ ایک مختلف تنظیم ہوتی ہے۔ یہ کہنے میں برا لگتا ہے لیکن یہ سب ایک طرح سے کنویئر بیلٹ کی طرح کام کرتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ تقریباً ایک درجن ’ایسی کمپنیاں‘ اس سے ’مواد‘ مانگتی ہیں اور دو کے نام بھی بتائے۔ سینٹ ٹریسا اور لٹل اینجلز دونوں امریکہ میں رجسٹرڈ ہیں۔
جب ہم نے ان کے رجسٹریشن دستاویزات چیک کیے تو ایک بار پھر ایریز حداری کا نام سامنے آیا۔
یہ واضح نہیں کہ بچوں کے لیے جمع کی گئی رقم کہاں گئی۔
وکٹوریا کی فلم بندی کے ایک سال بعد ان کی والدہ اولینا نے اولیہ کو فون کیا تاکہ کچھ معلوم کر سکیں۔ کچھ دیر بعد اولینا کے مطابق ’چانس لیٹیکوا‘ سے کسی نے فون کر کے کہا کہ عطیات اشتہارات پر خرچ کیے گئے۔
یہی بات ایریز حداری نے خلیل کی والدہ الجین کو فون پر کہی جب اُنھوں نے سوال کیا۔ ایریز حداری نے بغیر کسی ثبوت کے کہا کہ ’اشتہارات کا خرچ ہوتا ہے۔ اس لیے کمپنی کو نقصان ہوا۔‘
چیریٹی ماہرین نے ہمیں بتایا کہ اشتہارات پر خرچ مجموعی فنڈز کے 20 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔
ایک شخص جو پہلے ’چانس لیٹیکوا‘ کے لیے بچوں کو بھرتی کرنے پر مامور تھا، نے بتایا کہ بچوں کا انتخاب کیسے کیا جاتا تھا۔ اُنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اُنھیں کہا جاتا تھا کہ آنکولوجی کلینکس جائیں۔‘
’وہ ہمیشہ خوبصورت بچوں کو تلاش کرتے تھے جن کی جلد سفید ہو۔ بچہ تین سے نو سال کا ہونا چاہیے۔ اُسے اچھی طرح بولنا آنا چاہیے اور اُس کے بال نہیں ہونے چاہیے۔‘
’وہ مجھ سے تصاویر مانگتے تھے تاکہ دیکھ سکیں بچہ موزوں ہے یا نہیں اور میں ایریز کو بھیج دیتا تھا۔‘
وسل بلوئر نے بتایا کہ ایریز حداری پھر یہ تصویر اسرائیل میں کسی اور کو بھیجتا تھا جس کا نام کبھی نہیں بتایا گیا۔
جہاں تک ایریز حداری کا تعلق ہے تو ہم نے کینیڈا میں دو پتوں پر اُنھیں تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ اُنھوں نے ہمارے ایک وائس نوٹ کا جواب دیا (جس میں ہم نے اُن سے اُس رقم کے بارے میں پوچھا جو وہ بظاہر کراؤڈ فنڈنگ کر رہے تھے)۔
انھوں نے کہا کہ تنظیم ’کبھی فعال نہیں رہی‘ لیکن یہ نہیں بتایا کہ کون سی تنظیم۔ اُنھوں نے ہمارے مزید وائس نوٹ اور خط کا جواب نہیں دیا جس میں تمام سوالات اور الزامات درج تھے۔
خلیل اور میکسیکو کے ایک لڑکے ہیکٹر کے لیے وہ مہمات جو ’چانس لیٹیکوا‘ نے دو بچوں کے لیے شروع کی تھیں اب بھی عطیات قبول کر رہی ہیں۔
’چانس لیٹیکوا‘ کی امریکی شاخ ایک نئی تنظیم ’سینٹ رافیل‘ سے جڑی معلوم ہوتی ہے جس نے مزید مہمات چلائی ہیں۔ ان میں سے کم از کم دو یوکرین کے اینجلہوم کلینک میں فلمائی گئی لگتی ہیں کیونکہ کلینک کی لکڑی کی پینلنگ اور عملے کے یونیفارم واضح ہیں۔
وکٹوریا کی والدہ اولینا کہتی ہیں کہ اُن کی بیٹی کو ایک اور دماغی ٹیومر کی تشخیص ہوئی ہے۔
'جب آپ کا بچہ زندگی اور موت کے کنارے پر ہو اور کوئی اس سے پیسہ کما رہا ہو۔ یہ گھناؤنا ہے۔ یہ خون کی کمائی ہے۔'
بی بی سی نے ٹیٹیانا خالیافکا، ایلیکس کوہن، اور تنظیموں ’چانس لیٹیکوا‘، ’والز آف ہوپ‘، ’سینٹ رافیل‘، ’لٹل اینجلز‘ اور ’سینٹ ٹریسا‘ سے رابطہ کیا اور اُنھیں الزامات پر جواب دینے کی دعوت دی۔ کسی نے جواب نہیں دیا۔
اسرائیلی کارپوریشنز اتھارٹی، جو ملک کی غیر منافع بخش تنظیموں کی نگرانی کرتی ہے، نے کہا کہ اگر ثبوت ملے کہ لوگ اداروں کو ’غیر قانونی سرگرمی کے لیے کور کے طور پر‘ استعمال کر رہے ہیں، تو اسرائیل میں رجسٹریشن مسترد کی جا سکتی ہے اور بانی کو اس شعبے میں کام کرنے سے روک دیا جا سکتا ہے۔
برطانیہ کے ریگولیٹر چیریٹی کمیشن اُن افراد کو مشورہ دیتا ہے جو عطیات دینا چاہتے ہیں کہ وہ دیکھیں کہ تنظیمیں رجسٹرڈ ہیں اور اگر شک ہو تو متعلقہ فنڈ ریزنگ ریگولیٹر سے رابطہ کریں۔