شیخوپورہ کے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے دیے گئے ایک بیان کے مطابق سربجیت کور نے پاکستان آمد کے بعد اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور ناصر حسین نامی پاکستانی شہری سے شادی کر لی۔
سربجیت کور کو خواتین سکھ یاتریوں کے ایک گروپ کے ہمراہ 4 نومبر کو گرو نانک کے یومِ پیدائش کے موقع پر پاکستان کے شہر ننکانہ صاجب جانا تھا لیکن 7 نومبر کو یہ خبر منظرِ عام پر آئی کہ 48 سالہ خاتون نے ناصر حسین نامی پاکستانی شہری سے شادی کر لی ہے۔
اس خبر کے پھیلنے کے بعد انڈیا میں گردواروں کی انتظامی کمیٹی ’شرومانی گردواراپربندھک کمیٹی‘ (ایس جی پی سی) کے ترجمان پرتاپ سنگھ کا کہنا ہے کہ ان کی کمیٹی یہ یقینی بنانے کی کوشش کرے گی مستقبل میں کوئی بھی غیر شادی شدہ خاتون، خواتین کے گروہ میں شامل ہو کر پاکستان نہ جائے۔
ایس جی پی سی کے عہدیدار کے اس بیان پر سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل دیکھنے میں آیا اور خاص طور پر خواتین اس پر کافی سوالات اُٹھا رہی ہیں۔
سکھ کمیٹی کے ترجمان نے کیا کہا تھا؟
سربجیت کور کے معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایس جی پی سی کے ترجمان پرتاپ سنگھ کا کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ اس بی بی (سربجیت کور) کے ایسے لاپتہ ہونے سے نہ صرف پنجاب کی بےعزتی ہوئی بلکہ ان کے گروپ میں شامل دیگر مسافروں کو بھی ہتک کا سامنا کرنا پڑا۔‘
شیخوپورہ کے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے دیے گئے ایک بیان کے مطابق سربجیت کور نے پاکستان آمد کے بعد اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور ناصر حسین نامی پاکستانی شہری سے شادی کر لی۔
پرتاپ سنگھ کا کہنا ہے کہ ’ہمیں معلوم ہوا کہ سربجیت نے وہاں شادی کر لی، اس کا مطلب ہے کہ وہ وہاں (پاکستان) میں پہلے سے رابطے میں تھیں۔‘
’ایسی صورتحال میں ہماری ایجنسیاں کیا کر رہی تھیں؟ انھوں نے تحقیقات کیوں نہیں کیں؟‘
پرتاپ سنگھ کے مطابق ’ہمارے پاس آٹھ نام آئے تھے اور ہم یہ نہیں جان سکے کہ ان میں غیر شادی شدہ خاتون بھی تھیں، ورنہ ہم کسی غیر شادی شدہ خاتون کو جانے ہی نہیں دیتے۔‘
’ہم مستقبل میں مزید چوکس رہیں گے کہ کوئی غیر شادی شدہ خاتون نہ (پاکستان) جا پائے۔‘
’ہمارے مذہب میں خواتین کو اونچا رتبہ دیا گیا‘
ایس جی پی سی کے بیان پر متعدد خواتین نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا۔
پٹیالہ میڈیکل کالج کے پیڈیاٹرکس ڈیپارٹمنٹ کی سابق سربراہ ڈاکٹر ہرشندر کور کا کہنا تھا کہ ’سکھ مذہب میں خصوصی طور پر کہا گیا ہے کہ خواتین بادشاہوں کو جنم دیتی ہیں۔ ہمارے مذہب میں خواتین کو اونچا رُتبہ دیا گیا۔‘
’خواتین کو قیادت کرنے اور مارشل آرٹس سیکھنے کے بھی حقوق حاصل ہیں ار خواتین نے ملک کے اندر اور باہر ہر شعبے میں خود کو ثابت کیا۔‘
انھوں نے سربجیت کور کے معاملے ہر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک خاتون کے سبب تمام خواتین کے لیے کوئی فیصلہ لے لینا انتہائی نامناسب ہے۔ اس سے تمام خواتین کی تضحیک ہوتی ہے۔‘
انھوں نے ماضی کے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’جب پاکستان میں سنہ 2018 میں نوجوان لڑکا غائب ہوا تھا اس وقت تو ایسا کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا تھا۔‘
’ایک طرف تو ہم اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو باہر کی دنیا میں جانے اور آزاد رہنے کی تلقین کر رہے ہیں اور دوسری طرف ایسے فیصلے لیے جا رہے ہیں جن سے پیغام جاتا ہے کہ اپنے خاندانی اراکین کی غیرموجودگی میں خواتین اپنی حفاظت نہیں کر سکتیں۔‘
’ایسا کرنا تمام خواتین کے کردار پر داغ لگانے کے مترادف ہے۔‘
ایس جی پی سی کے اوپر صرف باہر سے ہی تنقید نہیں ہو رہی بلکہ کمیٹی کے اراکین بھی پرتاپ سنگھ کے بیان کو مضحکہ خیز قرار دے رہے ہیں۔
ایس جی پی سی کی رُکن کرنجیت کور کہتی ہیں کہ ’ایک عورت نے غلطی کی اور وہ تمام سکھ خواتین کی نمائندگی نہیں کرتی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایسا ہی واقعہ پہلے بھی ہوا تھا جب ایک خاتون ایک گروپ کے ہمراہ پاکستانی گئیں تھیں اور انھوں نے وہاں جا کر شادی کر لی تھی۔ اس وقت بھی ایسی ہی باتیں کی گئی تھیں کہ کسی عورت کو تنہا وہاں نہیں جانے دینا چاہیے۔‘
وہ ایس جی پی سی کے ترجمان کے بیان کو ’دقیانوسی مائنڈ سیٹ‘ کا حصہ قرار دیتی ہیں اور کہتی ہیں کہ تنظیم کی خواتین اراکین کو ایسی ذہنیت کے خلاف آواز اُٹھانی چاہیے۔
پاکستان جانے والی سکھ خواتین کیا کہتی ہیں؟
ایس جی پی سی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان پر بی بی سی کی نامہ نگار نوجوت کور نے جالندھر میں ان خواتین سے بات کی، جو متعدد مرتبہ پاکستان جا چکی ہیں۔

ایک خاتون نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’جب خواتین پر ایسی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں تو مردوں پر بھی ایسی ہی پابندیاں عائد ہونی چاہیے۔‘
پاکستان کا دورہ کرنے والی ایک اور خاتون نے کہا کہ سربجیت کا شادی کرنے فیصلہ ان کا ذاتی عمل ہے اور اسے تمام خواتین سے منسلک نہیں کیا جانا چاہیے۔
خواتین کے اعتراضات پر ایس جی پی سی کے اراکین سے موقف جاننے کی کوشش کی گئی تاہم ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
’پاکستان سکھ خاتون کو واپس بھیجے‘
سربجیت کور کی پاکستان میں شادی اور انڈیا واپس نہ آنے کے فیصلے پر اکال تخت کے جیٹھیدار کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کو چاہیے کہ وہ اس خاتون کو واپس بھیجے تاکہ وہاں جانے والے سکھ گروہ متاثر نہ ہوں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’سربجیت کور کے حوالے سے انکوائری کرنا پنجاب حکومت کی ذمہ داری تھی۔ تقریباً 50 خواتین کو واہگہ سے ہی واپس بھیج دیا گیا تھا کیونکہ ان کی انکوائری کا نتیجہ ٹھیک نہیں آیا تھا، پھر سربجیت کور کیسے پاکستان جانے میں کامیاب ہو گئیں؟‘
خیال رہے ایسے کیسز ماضی میں بھی سامنے آ چکے ہیں۔ سنہ 2018 میں کرن بالا نامی ایک خاتون یاتریوں کے گروپ کے ساتھ پاکستان گئیں تھیں اور انھوں نے وہاں جا کر اسلام قبول کر کے ایک پاکستانی شہری سے شادی کر لی تھی۔
اسی برس ایک پنجابی نوجوان لڑکا بھی پاکستان جا کر لاپتا ہو گیا تھا تاہم کچھ دن بعد وہ واہگہ اٹاری سرحد کے ذریعے واپس انڈیا آ گیا تھا۔