یہ بھائی دن میں تو عام افراد کی طرح اپنی زندگی گزارتے تھے مگر سورج کے غروب ہوتے ہیں اُن کی زندگی جیسے ٹھہر سی جاتی تھی اور وہ شام سے لے کر اگلے دن سورج کے طلوع ہونے تک بے حس و حرکت ہو جاتے تھے۔
پونے دو سال کی تحقیق کے بعد معلوم ہوا تھا کہ یہ بچے سورج کی روشنی کے خاتمے کے ساتھ مفلوج کیوں ہو جاتے ہیںلگ بھگ نو سال قبل پاکستانی ذرائع ابلاغ پر چلنے والی اِن خبروں نے میڈیکل سائنس اور دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کی تھی کہ بلوچستان میں تین بھائی ایسے ہیں جو ’سورج کی روشنی پر چلتے ہیں۔‘
انتہائی غیرمعمولی طبی حالت کے شکار ان بھائیوں کے بارے میں ذرائع ابلاغ پر کچھ اس نوعیت کے دعوے سامنے آئے کہ وہ ’سورج کے ساتھ طلوع ہو جاتے ہیں اور سورج کے ساتھ ہی غروب۔‘
اور معاملہ تھا بھی کچھ ایسا ہی۔
یہ بھائی دن میں تو عام افراد کی طرح اپنی زندگی گزارتے تھے مگر سورج غروب ہوتے ہی اُن کی زندگی جیسے ٹھہر سی جاتی تھی اور وہ شام سے لے کر اگلے دن سورج کے طلوع ہونے تک بے حس و حرکت ہو جاتے تھے۔
اس کیس نے پاکستان اور دنیا بھر کی توجہ حاصل کی۔ ان بچوں کو لاحق بیماری کی تشخیص کے پیچیدہ عمل کا آغاز ہوا اور نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک سے ان کے ٹیسٹ کروائے گئے اور پھر دعویٰ ہوا کہ وہ ’دنیا میں اب تک دریافت ہونے والی اپنی نوعیت کی پہلی بیماری‘ میں مبتلا ہیں۔
اس بیماری کی تشخیص کے بعد انھیں ایک دوا تجویز کی گئی جس کے باعث ’سولر کڈز‘ کے نام سے دنیا میں شہرت پانے والے یہ تینوں بھائی گذشتہ نو سال سے رات کو بھی کسی حد تک معمول کی زندگی گزارنے کے قابل تو ہو گئے ہیں لیکن ان کی مشکلات نہ صرف برقرار ہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اُن میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
بی بی سی اُردو نے کچھ عرصہ قبل اِن بھائیوں کی موجودہ صورتحال جاننے کا فیصلہ کیا۔
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ان بچوں کے والدین کو غربت کی وجہ سے علاج میں مشکلات کے ساتھ ساتھ ان کے مستقبل کے حوالے سے بھی پریشانی کا سامنا ہے۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ان بچوں کا خوب چرچا ہوا تھاان بھائیوں کے علاج کے عمل سے جڑے طبی ماہرین کے مطابق ’سولر کڈز‘ جس بیماری میں مبتلا ہیں وہ دنیا میں اب تک دریافت ہونے والی اپنی نوعیت کی پہلی بیماری ہے اور اس بیماری کے باعث نو سال قبل تک یہ بھائی نہیں جانتے تھے کہ رات کس طرح ہوتی ہے، یہ کب آتی ہے اور اس دوران ان کی زندگی کیسی ہوتی ہے اور وہ کس کیفیت میں مبتلا ہیں کیونکہ انھیں ہوش ہی اگلے دن سورج طلوع ہونے کے بعد آتا تھا۔
سنہ 2016 سے ان بچوں کے مرض کی تحقیقات اور علاج سے جڑے پاکستان کے معالج پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا ہے کہ اس مرض کے بارے میں نہ صرف پہلے بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر تحقیقات ہوئیں بلکہ یہ اب بھی جاری ہیں۔
دوسری جانب بلوچستان کے وزیر صحت بخت محمد کاکڑ کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت ان بچوں کے علاج معالجے کے لیے ہرممکن سہولیات فراہم کرے گی۔
تو اِن بچوں کو لاحق بیماری کیا ہے اور اب ان کا کیا علاج ہو رہا ہے؟ اس کا تذکرہ بعد میں، پہلے ذکر ان بچوں کو درپیش مشکلات کا۔
سولر کڈز کون ہیں؟
اُن کے دماغ یا بیسل گینگلیا میں ڈوپامین کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ مفلوج ہو جاتے ہیںسولر کڈز کوئٹہ کے نواحی علاقے میاں غنڈی کے رہائشی محمد ہاشم کے بچے ہیں۔ محمد ہاشم کے ہاں پیدا ہونے والے نو بچوں میں سے پانچ اسی منفرد بیماری میں مبتلا تھے۔
محمد ہاشم نے بتایا کہ اُن کے دو بچے تو اسی بیماری کے باعث فوت ہو گئے مگر باقی تین بچوں میں سے دو اب جوان ہیں جبکہ ایک کم عمر۔
سولر کڈز میں شامل شعیب احمد سب سے بڑے ہیں اور اُن کی عمر اس وقت 19 سال ہے۔ اُن سے چھوٹے بھائی رشید احمد کی عمر 17 سال کے لگ بھگ ہے جبکہ تیسرے بھائی محمد الیاس کی عمر کم ہے۔
دونوں بڑے بھائیوں، شعیب اور رشید، کو بچپن میں ہزارگنجی میں واقع ایک دینی مدرسے میں داخل کروایا گیا تھا لیکن وہ اپنی بیماری کی وجہ سے تعلیم حاصل نہ کر سکے۔
اُن کے چچا شبیر احمد نے بتایا کہ بچے جس نوعیت کی بیماری میں مبتلا تھے اس کی وجہ سے اُن کو مدرسے کے منتظمین کے لیے سنبھالنا مشکل تھا جبکہ گھر والے بھی اُن کے لیے ہر وقت پریشان رہتے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ اس صورتحال کی وجہ سے وہ مدرسے میں اپنی تعلیم کو جاری نہیں رکھ سکے جبکہ اس بیماری کی وجہ سے کسی سکول میں بھی نہیں پڑھ سکے۔
’رات کو زندگی کا انحصار گولیوں پر‘
شعیب کہتے ہیں کہ ڈاکٹروں نے انھیں کھانے کے لیے بس ایک ہی گولی دی تھی جسے وہ اور اُن کے بھائی گذشتہ نو سال سے کھا رہے ہیںسولر کڈز میں سب سے بڑے بھائی شعیب احمد سے ہم نے باتکی۔ شعیب کہتے ہیں کہ ڈاکٹروں نے اُن کو لاحق بیماری کی تحقیق کے بعد انھیں بس کھانے کے لیے ایک ہی گولی دی تھی جسے وہ اور اُن کے بھائی گذشتہ نو سال سے زیادہ عرصے سے کھا رہے ہیں۔
’اس گولی کی بھی ایک ٹائمنگ ہے اور جب اس کا اثر ختم ہو جاتا ہے تو اس کے بعد ہمارا جسم دوبارہ رات کو اسی طرح مفلوج ہو جاتا ہے جس طرح علاج سے پہلے ہوا کرتا تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ہم دو بھائی جوان ہو گئے ہیں لیکن مناسب علاج نہ ہونے کی وجہ سے ہم کسی کام کاج کے قابل نہیں اور بالخصوص معاشی حوالے سے ہمارا انحصار اب بھی والدین پر ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا مستقل علاج ہو تاکہ ہم تینوں بھائی بھی معمول کی زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں اور معاشی اور معاشرتی حوالے سے اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں۔‘
مستقل علاج نہ ہونے کے باعث والدین کی بھی پریشانی برقرار
بچوں کے والد محمد ہاشم نے بتایا کہ بچے جس گولی کو کھا رہے ہیں اس کے باعث رات کو اب ان کی حالت کسی حد تک بہتر ہوتی ہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ بچوں کا مستقل علاج ہو تاکہ اُن کی تشویش اور پریشانی کا خاتمہ ہو سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’جب یہ بچے باہر نکلتے ہیں یا کبھی کبھار کسی ضروری کام کے لیے ان کو باہر جانا پڑتا ہے تو ہمیں ان کے لیے پریشانی ہوتی ہے کہ یہ بیماری کہ وجہ سے کہیں کسی جگہ پر گر نہ جائیں اور ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ ’تینوں بچے جو گولی استعمال کر رہے ہیں وہ بھی مہنگی ہے اور ہماری آمدنی میں ان کی ہر وقت خریداری بھی مسئلہ ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ جب سے ڈاکٹروں نے ابتدائی طور پر اِن بچوں کے لیے گولی تجویز کی وہ ایک، دو مرتبہ تو مفت ملی لیکن اس کے بعد سے وہ خود اسے اپنی جیب سے خرید رہے ہیں۔
بچوں کے چچا شبیر احمد نے بتایا کہ بچوں کے والد محمد ہاشم خود ایک سکیورٹی گارڈ ہیں جن کی تنخواہ قلیل ہے اور اس مہنگائی میں کھانے پینے کے اخراجات بمشکل پورے ہوتے ہیں۔
محمد ہاشم کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کو ان کے بچوں کے لیے وظیفہ مقرر کرنا چاہیے، ان کے روزگار کا بندوبست کرنا چاہیے اور علاج کے اخراجات بھی برداشت کرنے چاہییں۔
جب ان بچوں کی بیماری کے علاوہ علاج میں درپیش والدین کی مشکلات کی جانب بلوچستان کے وزیر صحت بخت محمد کاکڑ کی توجہ دلائی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت اس معاملے کو دیکھے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ان بچوں کے علاج کے حوالے سے جو بھی ممکن ہوا حکومت وہ کرے گی۔
محمد ہاشم نے حکومت سے استدعا کی ہے کہ اُن کے بچوں کے لیے وظیفہ مقرر کیا جائے’یہ پوری دنیا میں اپنی نوعیت کا واحد خاندان ہے‘
جب محمد شعیب اور ان کے چھوٹے بھائی مدرسے میں زیر تعلیم تھے تو اس وقت یہ بات منظر عام پر آئی کہ سورج کے غروب ہونے کے ساتھ ہی دونوں بھائیوں کا بدن مفلوج ہو جاتا تھا۔
محمد ہاشم کا کہنا ہے کہ ابتدا میں انھوں نے ان بچوں کو کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں ڈاکٹروں کو دکھایا لیکن تشخیص اور علاج میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔
تاہم اسی مدرسے میں تعلیم کے دوران اُن کی بیماری میڈیا پر اجاگر ہوئِی جس کے باعث ملکی اور غیر ملکی ماہرین طب ان کی جانب متوجہ ہوئے۔
چونکہ ان کی نارمل زندگی کا انحصار سورج کی روشنی پر ہے جس کے باعث ان کو ’سولر کڈز‘ کا نام دیا گیا۔
پروفیسر ڈاکٹرجاوید اکرم کا شمار ان طبّی ماہرین میں ہوتا ہے جو ان بچوں کی بیماری کی تحقیق اور علاج سے سب سے زیادہ وابستہ رہے۔
انھوں نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ یہ ’جو سولر کڈز والامعاملہ ہے، یہ ابھی تک پوری دنیا میں ایک ہی فیملی ہے۔‘
اُن کے بقول 'شاید دنیا میں یہ اپنی نوعیت کی منفرد بیماری ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس سے ملتی جلتی بیماری میں جاپان میں بعض فیملیز مبتلا ہیں جس کو ہم سیگوویا سنڈروم کہتے ہیں لیکن ان کے اور ان بچوں کی بیماری کے علامات میں فرق ہے۔
’پونے دو سال کی تحقیق کے بعد ان کے علاج میں پیشرفت ہوئی‘
ڈاکٹر جاوید اکرم نے بتایا کہ وہ پونے دو سال کی جستجو تھی جب یہ معلوم ہوا کہ یہ بچے سورج کی روشنی کے خاتمے کے ساتھ کیوں مفلوج ہوتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ان بچوں کا ٹیسٹ کیا گیا، اُن کے سیمپلز (نمونے) برطانیہ میں یونیورسٹی آف میری لینڈ اور دنیا کے دیگر مختلف معتبر اداروں کو بھیجے گئے اور پھر اسلام آباد منتقل کر کے تشخیص کی کوششیں کی گئیں۔
اپنی یادداشت پر زور دیتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ ’وہ مئی کی ایک رات تھی جب پمز میں ہم نے ان کو ایک تیراپیوٹک ٹرائل دیا۔ تیراپیوٹک ٹرائل سے پہلے وہ دونوں بچے اسی رات کو بھی اسی طرح بالکل مفلوج تھے جیسے کہ وہ ہر رات کو ہو جاتے تھے۔‘
انھوں نے بتایا جب ان کو ڈوپامین کی ایک، ایک گولی دی گئی تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ ان کے زندگی میں پہلی رات تھی جو نہ مجھے اور نہ ان بچوں کو بھولے گی۔ کیونکہ وہ اب رات کو اٹھ سکتے تھے، واش روم جا سکتے تھے، رات کو کھانا کھا سکتے تھے اور بھاگ دوڑ کر سکتے تھے۔‘
ڈاکٹر جاوید اکرام نے بتایا کہ ’گولی کھانے کے بعد وہ اتنےپرجوش ہو گئے تھے کہ پمز ہسپتال کی راہداریوں میں بھاگتے پھر رہے تھے۔‘
پروفیسر ڈاکٹرجاوید اکرم کا شمار ان طبّی ماہرین میں ہوتا ہے جو ان بچوں کی بیماری کی تحقیق اور علاج سے سب سے زیادہ وابستہ رہےطبی ماہرین نے اس بیماری کو کیا نام دیا؟
پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے بتایا کہ ان بھائیوں کی سینگر سیکوینسنگ، نیکسٹ جنریشن سیکونسنگ کی گئی اور بہت سے ٹیسٹ کیے گئے تب جا کر معلوم ہوا کہ رات کو اُن کا دماغ ڈوپامین کی کمی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
’اُن کے دماغ یا بیسل گینگلیا میں ڈوپامین کی کمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ مفلوج ہو جاتے ہیں۔ یہ ان کی آپٹک کو ختم کر دیتی ہے۔اس بیماری کا ایک خصوصی نام ہے جو کہ آئی وی ڈی جین کہلاتا ہے اور یہ آئی وی ڈی جین کی ابنارملٹی ہے۔‘
انھوں نے کہا ’اس میں ہم ان کو رات کو ڈوپامین دیتے ہیں جس سے ان کی شام اور رات نارمل گزرتی ہے۔‘
’پاکستان منفرد اور نایاب بیماریوں کا آتش فشاں‘
ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ اب تک ان بچوں کی بیماری کی تشخیص کا کام ختم نہیں ہوا بلکہ اس کے ٹیسٹ جاری ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جو نایاب یا منفرد بیماریاں ہوتی ہیں وہ دنیا میں بہت کم ہوتی ہیں لیکن یہ پاکستان میں نایاب یا منفرد نہیں کیونکہ یہاں پر کزنز میریجز (خاندان میں شادیاں) بہت زیادہ ہوتی ہیں۔
’کزنز میرج جسے ہم کنسینجیونٹی کہتے ہیں وہ تقریباً 50 فیصد سے زیادہ لوگوں میں ہے۔ اس وجہ سے پاکستان میں جینیاتی بیمیاریوں کا ایک آتش فشاں ہے، جو پھٹتا رہتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سولر کڈز کو جو بیماری لاحق ہے وہ بھی اسی طرح کی ایک جینیاتی بیماری ہے لیکن الحمدللہ اب اس پر بہت سارے پروگرامز اور بہت ساری تحقیقات ہو رہی ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں نے پہلے بھی یہ بتایا کہ اس بیماری سے پوری دنیا میں متاثرہ صرف یہی فیملی ہے اس لیے میں محتاط طریقے سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ دنیا میں انتہائی نایاب بیماری ہے۔‘