’جواد سعید کا کورٹ مارشل امریکہ میں مقیم بھائی کو حساس معلومات کی فراہمی پر ہوا تھا‘

کورٹ مارشل کے بعد قید کی سزا پانے والے پاکستانی فضائیہ کے سابق ایئر مارشل جواد سعید پر عائد الزامات کی تفصیلات کے حصول کے لیے اُن کی اہلیہ کی عدالتی جنگ گذشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔ اسی دوران پاکستانی فضائیہ کی جانب سے بی بی سی کو بتایا گیا ہے کہ جواد سعید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی پی اے ایف کی حساس معلومات اپنے بھائی کو فراہم کرنے پر ہوئی۔

کورٹ مارشل کے بعد قید کی سزا پانے والے پاکستانی فضائیہ (پی اے ایف) کے سابق ایئر مارشل جواد سعید پر عائد الزامات کی تفصیلات کے حصول کے لیے اُن کی اہلیہ کی عدالتی جنگ گذشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔ اسی دوران پاکستانی فضائیہ کی جانب سے بی بی سی کو بتایا گیا ہے کہ جواد سعید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی پی اے ایف کی حساس معلومات اپنے بھائی کو فراہم کرنے پر ہوئی۔

پاکستانی فضائیہ کے ایک ترجمان نے بی بی سی کے ساتھ خصوصی گفتگو کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ ’سابق ایئر مارشل یہ حساس معلومات امریکہ میں اپنے بھائی کے ساتھ شیئر کرتے تھے۔‘

ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’سابق ایئر مارشل اپنے بھائی کو یہاں تک حساس معلومات فراہم کرتے تھے کہ میانوالی ایئربیس پر کون، کون سے جنگی جہاز کھڑے ہیں۔‘

تاہم ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کی اہلیہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ اُن کے شوہر کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی ایک ایسا وائٹ پیپر لکھنے کے باعث عمل میں لائی گئی جس میں انھوں نے موجودہ ایئر چیف کی جانب سے اختیارات سے مبینہ تجاوز کرنے کا ذکر کیا تھا۔

خیال رہے کہ اس مبینہ دستاویز کا ذکر ان کی کسی بھی عدالتی درخواست یا وزارتِ دفاع کو دی گئی درخواست میں نہیں کیا گیا ہے۔

بی بی سی اس دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا، البتہ پاک فضائیہ کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ اس الزام کا جواد سعید کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

خیال رہے کہ جواد سعید کی اہلیہ شازیہ جواد نے اپنے شوہر کے کورٹ مارشل کی تفصیلات کے حصول کے لیے پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ اور پھر لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ سابق ایئر مارشل جواد سعید کے خلاف کسی بھی زیرِ التوا معاملے پر لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے وفاقی حکومت کو فیصلہ کرنے کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن بھی اب ختم ہو گئی ہے لیکن اس پر کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ
Getty Images
جواد سعید کی اہلیہ شازیہ جواد نے اپنے شوہر کے کورٹ مارشل کی تفصیلات کے حصول کے لیے پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ اور پھر لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا

لاہور ہائیکورٹ کے راولپنڈی بینچ نے 22 اکتوبر 2025 کو جواد سعید کی اہلیہ شازیہ جواد کی ایک درخواست پر وفاقی حکومت کو حکم دیا تھا کہ اگر اُن کے پاس پاکستانی فضائیہ کے سابق ایئر مارشل کے حوالے سے کوئی معاملہ زیر التوا ہے تو وہ قانون کے مطابق ایک ماہ کے اندر اس پر فیصلہ کرے۔

جواد سعید کی حراست کے بعد شازیہ جواد نےاسلام آباد ہائیکورٹ میں بھیپاکستانی فضائیہ کی جانب سے اپنے شوہر کو مبینہ طور پر حبسِ بے جا میں رکھنےکے حوالے سے درخواست بھی دائر کی تھی۔

اس معاملے میں اپریل 2025 میں پاکستانی فضائیہ کی جانب سے اسلام آباد ہائیکورٹ کو آگاہ کیا گیا تھا کہ سابق ایئر مارشل جواد سعید کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی کے نتیجے میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تاہم اس سزا کے خلاف اپیل کے نتیجے میں سزا میں دس سال کی کمی کر دی گئی تھی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں جواد سعید کے کورٹ مارشل کے بارے میں معلومات کی فراہمی کے بعد عدالت کی جانب سے شازیہ جواد کی درخواست کو خارج کر دیا گیا تھا۔ اس درخواست کے اخراج اور پھر فیصلے پر نظرِثانی کی درخواست واپس لیے جانے کے بعد رواں برس جواد سعید کی اہلیہ کی جانب سے وزارتِ دفاع میں ایک اور درخواست دی گئی جس میں استدعا کی گئی کہ اُن کے شوہر کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی کو ’غیر قانونی‘ اور ’غیر منصفانہ‘ قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا جائے۔

حکومت کی جانب سے اس درخواست پر کوئی کارروائی نہ کیے جانے پرشازیہ جواد نے اکتوبر 2025 میں لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ وفاقی حکومت کو اُن کی زیر التوا درخواست پر جلد از جلد فیصلہ کرنے کا حکم دے۔

اس درخواست میں اپریل 2025 میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں جواد سعید کو پاکستانی فضائیہ کی جانب سے مبینہ طور پر حبس بےجا میں رکھنے سے متعلق گذشتہ درخواست اور اس پر فیصلے کے بعد نظرِثانی کی درخواست کا حوالہ بھی دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات کے مطابق درخواست گزار نے پاکستان ایئر فورس کے حکام سے جواد سعید کے خلاف الزامات کی انکوائری کرنے والے بورڈ کی جانب سے تیار کی گئی انکوائری رپورٹ، تفتیشی رپورٹ، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران قلمبند کی گئی شہادتوں اور جواد سعید پر عائد فرد جرم کی نقول، فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے سلسلے میں ہونے والی عدالتی کارروائی اور کورٹ آف اپیل کے فیصلے کی کاپی فراہم کرنے کی استدعا کی لیکن اس پر عمل نہیں ہوا۔

درخواست گزار کے مطابق جواد سعید کے لیے وکالت نامہ بھی بھیجا گیا مگر وہ واپس نہیں آیا جس پر درخواست گزار کی جانب سے ایک بار پھر پی اے ایف سے ریکارڈ کے حصول کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا تاہم بعدازاں فضائیہ کے نمائندوں کی جانب سے ریکارڈ کی فراہمی کی یقین دہانی کے بعد یہ درخواست واپس لے لی گئی۔

شازیہ جواد نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ اُن پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ عدالت میں اپنے شوہر کے حوالے سے دائر کردہ اپنی درخواست واپس لیں۔

اس بارے میں سوال کے جواب میں پاکستانی فضائیہ کا دعویٰ ہے کہ جواد سعید کی اہلیہ پر اپنے خاوند کی رہائی یا کورٹ مارشل سے متعلق دستاویزات کے حصول کے لیے مختلف عدالتوں میں زیر سماعت درخواستوں کو واپس لینے سے متعلق کبھی دباؤ نہیں ڈالا گیا۔

جواد سعید کا کورٹ مارشل

اسلام آباد ہائیکورٹ میں حبسِ بے جا کی درخواست پر کارروائی کے دوران ایئرفورس کے نمائندوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ ایئرمارشل ریٹائرڈ جواد سعید کا چھ الزامات میں کورٹ مارشل کیا گیا تھا۔

ایئرفورس کے نمائندوں نے عدالت (اسلام آباد ہائیکورٹ) کو بتایا تھا کہ جواد سعید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی 24 جنوری سے 27 جنوری 2024 تک جاری رہی جس کے نتیجے میں انھیں ابتدائی طور پر 14 سال قید کی سزا سنائی گئی اور بعدازاں اس سزا کے خلاف جواد سعید کی اپیل کے نتیجے سزا میں دس سال کی کمی کر دی گئی۔

پاکستانی فضائیہ کے نمائندوں نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں یہ بھی بتایا تھا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد جواد سعید نے بذات خود فضائیہ کے سربراہ کے نام رحم کی اپیل لکھی تھی، جس پر ابھی فیصلہ ہونا باقی ہے۔

فضائیہ کے نمائندوں کی جانب سے اس موقع پر (اسلام آباد ہائی کورٹ میں) نہ تو کوئی تحریری بیان جمع کروایا گیا اور نہ ہی اپنے بیانات کے حق میں کوئی دستاویز جمع کروائی گئی اور یہ کہ اس موقع پر صرف ایئر ہیڈکوارٹرز کی جانب سے جاری کردہ فیصلے کی کاپی عدالت کو دکھائی گئی۔

ایئر فورس کے نمائندوں کے زبانی جوابات کی بنیاد پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے قرار دیا تھا کہ چونکہ جواد سعید کا کورٹ مارشل ہو چکا ہے اور وہ ایئرفورس کی تحویل میں ہیں اس لیے اب یہ حبس بےجا کا معاملہ نہیں رہا ہے اور اس کے بعد ان کی درخواست خارج کر دی گئی۔

پاکستانی فضائیہ
Getty Images
پاکستانی فضائیہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’سابق ایئر مارشل اپنے بھائی کو یہاں تک حساس معلومات فراہم کرتے تھے کہ میانوالی ایئربیس پر کون کون سے جنگی جہاز کھڑے ہیں‘

لاہور ہائیکورٹ میں دائر درخواست کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی درخواست دائر کی گئی اور دوران سماعت جج ایڈووکیٹ جنرل (پاکستان فضائیہ) نے عدالت کے سامنے پیش ہو کر جہاں پرانا مؤقف دہرایا وہیں مزید بتایا کہ ملزم کو کورٹ مارشل کی کارروائی کے دوران سویلین وکیل فراہم نہیں کیا گیا کیونکہ یہ معاملہ حساس نوعیت کا ہے۔

درخواست گزار نے درخواست میں یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ ان کے شوہر کو سزا سنائے جانے کے بعد بھی پاکستانی فضائیہ نے اپنی تحویل میں رکھا ہوا ہے جو قانون سے بالاتر عمل اور اختیارات کا ناجائز استعمال ہے۔

خیال رہے کہ مارچ اور اپریل 2025 میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں شازیہ جواد کی جانب سے ان کے شوہر کو حبسِ بے جا میں رکھنے کی درخواست پر کارروائی کے دوران فضائیہ کے نمائندوں کی جانب سے کچھ تفصیلات عدالت کو فراہم کی گئی تھیں۔

جواد سعید کو سویلین وکیل فراہم نہ کرنے سے متعلق دعوے کا جواب دیتے ہوئے جج ایڈووکیٹ جنرل (پاکستان فضائیہ)نے عدالت کو بتایا تھا کہ 'مجرم کے خلاف ہونے والا ٹرائل چونکہ ایک حساس معاملہ تھا اس لیے انھیں کوئی سویلین وکیل نہیں دیا گیا۔'

جواد سعید کو سزا سنائے جانے کے بعد جیل منتقل نہ کرنے سے متعلق اسلام آباد ہائیکورٹ کے استفسار پر جج ایڈووکیٹ جنرل (پاکستان فضائیہ)نے کہا تھا کہ چونکہ یہ حساس معاملہ تھا اس لیے مجرم کے کورٹ مارشل کے بعد جیل نہیں بھیجا گیا بلکہ ایک میس کو سب جیل قرار دیا گیا ہے جہاں وی آئی پی سہولیات فراہم کی گئیں ہیں جن پر روزانہ دو سے تین لاکھ روپے خرچ آتا ہے۔

آپریشن سوئف ریٹارٹ کی کمان کے دعوے

لاہور ہائیکورٹ میں دائر کردہ حالیہ درخواست میں درخواست گزار نے یہ بھی کہا کہ اُن کے شوہر جواد سعید ملازمت کے دوران ایئر فورس میں اہم عہدوں پر فائز رہے ہیں اور سنہ 2019 میں انڈیا نے جب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے بالاکوٹ پر حملہ کیا تو اُس وقت جواد سعید نے انڈیا کی اس کارروائی کے خلاف بطور ایئر مارشل پاکستان کے 'آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ' کی سربراہی کی تھی اور اسی آپریشن کے نتیجے میں انڈین ایئرفورس کے پائلٹ ابھینندن گرفتار ہوئے تھے۔

پاکستانی فضائیہ کی جانب سے جواد سعید کی اہلیہ کے اس دعوے کو مسترد کیا گیا ہے۔ بی بی سی کی جانب سے رابطہ کرنے پر پاکستانی فضائیہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انڈین فضائیہ نے 2019 میں پاکستان پر جو حملہ کیا تھا اس کے خلاف پاکستانی فضائیہ کے آپریشن کی کمان سابق ایئر مارشل جواد سعید نہیں کر رہے تھے۔

فضائیہ کے ترجمان نے کہا کہ جب پاکستانی ایئر فورس نے انڈین طیارہ مار گرایا، جس کے نتیجے میں انڈین پائلٹ ابھینندن گرفتار ہوئے تو اس وقت ایئر مارشل جواد سعید ایڈمنسٹریشن کے انچارج تھے۔

ابھینندن
Getty Images
پاکستانی فضائیہ کا کہنا ہے کہ 2019 میں انڈیا کے پاکستان پر جو حملہ کے وقت پاکستانی فضائیہ کے آپریشن کی کمان سابق ایئر مارشل جواد سعید نہیں کر رہے تھے

شازیہ جواد کی اس درخواست میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ جواد سعید نا صرف پاکستانی فضائیہ کے ایک قابل افسر تھے بلکہ اُن کا نام ایئر چیف (پاکستانی فضائیہ کے سربراہ) کے عہدے کے لیے بھی موجودہ ایئر چیف کے ساتھ زیر غور آیا تھا تاہم اس دوران ایئر مارشل جواد سعید 18 مارچ 2021 میں اپنے عہدے سے ریٹائر ہو گئے۔

’میرے شوہر کو وائٹ پیپر لکھنے کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا‘

جواد سعید کی اہلیہ اور اس کیس میں درخواست گزار شازیہ جواد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب یکم جنوری 2024 کو چند نامعلوم افراد اُن کے شوہر کو لینے کے لیے اُن کے گھر پر آئے تھےتو اُن کی جانب سے بتایا گیا کہ جواد سعید کو سکیورٹی کی وجہ سے وہ اپنے ساتھ لے کر جا رہے ہیں۔ اہلیہ کے مطابق اس موقع پر جواد سعید نے اپنے اہلخانہ کو بتایا کہ انھیں کچھ دن 'اپنے لوگوں' کے ساتھ رہنا پڑے گا۔

شازیہ جواد کا یہ بھی کہنا تھا کہ اُن کی اپنے شوہر کے ساتھ ہر ہفتے ملاقات کروائی جاتی ہے اور وہ اُن کے ساتھ شام کی واک بھی کرتی ہیں، تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس ملاقات اور چہل قدمی کے دوران سکیورٹی کے دو اہلکار اُن کے ساتھ موجود رہتے ہیں۔

شازیہ جواد نے بی بی سی سے خصوصی گفتگو کے دوران یہ الزام عائد کیا کہ اُن کے شوہر کو ایک وائٹ پیپر لکھنے کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ وائٹ پیپر ابھی تک شائع نہیں ہو سکا اسے اُن کے شوہر کے لیپ ٹاپ سے ہی کسی نے نکال لیا تھا۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ اس وائٹ پیپر میں اُن کے شوہر نے موجودہ ایئر چیف کی جانب سے اختیارات سے مبینہ تجاوز کرنے کا ذکر کیا تھا۔ بی بی سی ان الزامات کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

اس سوال پر کہ اس مبینہ دستاویز کا ذکر ان کی کسی بھی عدالتی درخواست یا وزارتِ دفاع کو دی گئی درخواست میں کیوں نہیں، شازیہ جواد کا کہنا تھا کہ ان کے قانونی مشیران نے انھیں ایسا کرنے سے گریز کرنے کی ہدایت کی تھی۔

پاکستان ایئرفورس کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ اس بات کا جواد سعید کے خلاف ہونے والی فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ان کے خلاف یہ کارروائی پی اے ایف کی حساس معلومات اپنے بیرونِ ملک مقیم بھائی کو فراہم کرنے پر کی گئی ہے۔

شازیہ جواد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یہ بھی دعویٰ کیا کہ جب سے اُن کے شوہر کو حراست میں لیا گیا ہے تب سے اُن کی پینشن بند ہے اس سے قطع نظر کہ اُن کی ایک بیٹی کوروزانہ کی بنیاد پر میڈیکل کیئر کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔

اس بارے میں پی اے ایف کی جانب سے بی بی سی کو بتایا گیا ہے کہ جب کسی بھی افسر کا کورٹ مارشل ہوتا ہے تو اس کی تنخواہ اور پینشن بند کر دی جاتی ہے۔ فضائیہ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ جواد سعید کی ایک بیٹی کے طبی اخراجات سرکاری طور پر ادا کیے جا رہے ہیں۔

جواد سعید کی اہلیہ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انھوںنے اس حوالے سے موجودہ ایئر چیف سے ملاقات کے لیے متعدد خطوط لکھے اور بالآخر 26 ستمبر کو یہ ملاقات ممکن ہوئی جس میں انھیں یقین دہانی کروائی گئی کہ جواد سعید کو 30 نومبر تک رہا کر دیا جائے گا۔

بی بی سی اس دعوے کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا ہے لیکن پاکستانی فضائیہ کی جانب سے ان کے اس دعوے کو بھی مسترد کیا گیا ہے۔

فضائیہ کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ سابق ایئر مارشل جواد سعید کے کورٹ مارشل کے بعد ان کی اہلیہ کی ایئر چیف سے کبھی بھی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی انھیں ان کے شوہر کی سزا مکمل ہونے سے پہلے رہائی کی یقین دہانی کروائی گئی۔ تاہم ترجمان کا کہنا تھا کہ شازیہ جواد کیملاقات ایئر چیف کے مشیر سے ضرور ہوئی تھی۔

جواد سعید کون ہیں؟

جواد سعید نے نومبر 1986 میں پاکستان ایئر فورس کی جی ڈی پی برانچ میں کمیشن حاصل کیا تھا اور انھیں جولائی 2018 میں ایئر مارشل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی اور اسی عہدے سے وہ مارچ 2021 میں ریٹائر ہوئے تھے۔ ایئر مارشل کے عہدے کو لیفٹیننٹ جنرل کے برابر عہدہ تصور کیا جاتا ہے۔

سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کے مطابق اپنے کیریئر کے دوران جواد سعید نے فائٹر سکواڈرن، فائٹر ونگ، آپریشنل ایئر بیس اور ریجنل ایئر کمانڈ کی کمان کی۔

مقامی ذرائع ابلاغ کی خبروں کے مطابق ریٹائرمنٹ سے قبل اُن کا نام مارچ 2021 کو فضائیہ کے سب سے سینیئر افسران کی اس سمری میں شامل تھا جو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو ایئر چیف کی تعیناتی کے لیے بھیجی گئی تھی۔

وہ ایئر ہیڈکوارٹرز اسلام آباد میں اسسٹنٹ چیف آف ایئر سٹاف (آپریشنز) اور ڈپٹی چیف آف ایئر سٹاف (آپریشنز) بھی تعینات رہے ہیں۔ وہ کمبیٹ کمانڈر سکول، ایئر وار کالج اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں۔

ریٹائرڈ ایئر مارشل جواد سعید کو ماضی میں سرکاری اعزازات ستارۂ امتیاز اور تمغۂ امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US