آئی پی کیمرے دراصل سی سی ٹی وی کیمروں کا ایک سستا متبادل ہیں، جو کہ گھر کے انٹرنیٹ نیٹ ورک سے جڑے ہوتے ہیں۔

جنوبی کوریا میں پولیس نے چار ایسے افراد کو گرفتار کیا ہے جنھوں نے گھروں اور کاروباری مراکز میں لگے 1 لاکھ 20 ہزار سے زیادہ کیمرے ہیک کیے اور ان سے حاصل ہونے والی فوٹیج کی مدد سے ایک غیرملکی ویب سائٹ کے لیے ’جنسی نوعیت‘ کی ویڈیوز بنائیں۔
اتوار کو پولیس نے گرفتاریوں کی تصدیق کی اور کہا کہ ملزمان نے انٹرنیٹ پروٹوکول (آئی پی) کیمروں کی کمزوریوں جیسے کہ آسان پاس ورڈز کا فائدہ اُٹھایا۔
آئی پی کیمرے دراصل سی سی ٹی وی کیمروں کا ایک سستا متبادل ہیں، جو کہ گھر کے انٹرنیٹ نیٹ ورک سے جڑے ہوتے ہیں۔ انھیں اکثر سکیورٹی یا بچوں یا پالتو جانوروں کی نگرانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
جن مقامات پر نصب کیمروں کو ہیک کیا گیا ان میں گھر، یوگا سٹوڈیو اور ایک گائیناکولوجسٹ کا کلینک بھی شامل ہے۔
جنوبی کوریا کی نیشنل پولیس ایجنسی کے مطابق چاروں گرفتار ملزمان الگ الگ حیثیت میں کام کر رہے تھے اور ان چاروں کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
ایک ملزم پر الزام ہے کہ اس نے 63 ہزار کیمروں کو ہیک کیا، جنسی نوعیت کی 545 ویڈیوز بنائیں اور 12 ہزار 235 ڈالر میں فروخت کیں۔

دوسرے ملزم نے مبینہ طور پر 70 ہزار کیمرے ہیک کیے اور 648 ویڈیوز 12 ہزار سے زیادہ ڈالر میں فروخت کیں۔
دیگر دو ہیکرز نے ایک ویب سائٹ کو گذشتہ برس 62 فیصد ویڈیوز دیں جو کہ غیرقانونی طریقے سے آئی پی کیمروں کو ہیک کر کے حاصل کی گئیں تھیں۔
جنوبی کوریا کی پولیس اب اس ویب سائٹ کو بلاک کروانے کی کوشش کر رہی ہے اور غیر ملکی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر اس کے آپریٹر کو بھی دائرہ تفتیش میں شامل کرنا چاہتی ہیں۔
جنوبی کوریا کے مائل بزنس اخبار کے مطابق پولیس نے کمیونیکیشنز سٹینڈرڈز کمیشن سے اس ویب سائٹ تک رسائی کو بلاک کرنے کی درخواست کی ہے۔
کیمروں کو ہیکنگ سے کیسے محفوظ رکھا جا سکتا ہے؟
ہیکنگ کا نشانہ بننے والے افراد انتہائی پریشانی کے عالم میں ہیں اور حکام کا کہنا ہے کہ وہ ان کی مدد کرنے کے لیے تمام طریقوں کا استعمال کر رہے ہیں۔
نیشنل پولیس ایجنسی کے سائبر انویسٹیگیشن کے سربراہ پارک وہیون کا کہنا ہے کہ: ’کیمرا ہیکنگ اور غیرقانونی فلمنگ سے متاثرہ افراد شدید اضطراب کا شکار ہوتے ہیں اور اسی سبب یہ ایک انتہائی سنگین جرم ہے۔‘
’غیرقانونی طور پر فلمائی گئی ویڈیوز کو دیکھنا اور ان کو اپنے پاس رکھنا بھی سنگین جرم ہے اور ہم اس کی انتہائی سنجیدگی سے تحقیقات کریں گے۔‘
کیمروں کی ہیکنگ میں ملوث چار افراد کی گرفتاری کے بعد پولیس نے 58 مقامات کا دورہ کیا ہے تاکہ متاثرہ افراد کو ویڈیوز کے بارے میں آگاہ کیا جا سکے اور پاسورڈز تبدیل کرنے میں ان کی مدد کی جا سکے۔
پولیس کی جانب سے متاثرہ افراد کی ویڈیوز ڈیلیٹ کروانے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔
نیشنل پولیس ایجنسی اپنے ایک بیان میں کہتی ہے کہ: ’سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ آئی پی کیمروں کے صارفین چوکس رہیں اور اپنے پاس ورڈز باقاعدگی کے ساتھ تبدیل کرتے رہیں۔‘
نیشنل پولیس ایجنسی اپنے ایک بیان میں کہتی ہے کہ ’سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ آئی پی کیمروں کے صارفین چوکس رہیں اور اپنے پاس ورڈز باقاعدگی کے ساتھ تبدیل کرتے رہیں‘جنوبی کوریا کی پولیس کے ایک افسر نے ہیکرز کے طریقہ کار کا ذکر کرتے ہوئے چوزن ڈیلی کو بتایا کہ: ’جب ایک کیمرا ہیک کرلیا جاتا ہے تو پھر اسے بار بار ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔‘
انھوں نے کیمروں کو ہیکنگ سے محفوظ رکھنے کے لیے بتایا کہ: ’کم از کم آٹھ ہندوسوں پر مشتمل پاس ورڈز کا استعمال کریں جن میں سپیشل کریکٹرز لازمی شامل ہونے چاہییں۔ ان پاس ورڈر کو ہر چھ مہینوں میں تبدیل کرنا بھی ضروری ہے۔‘
پولیس افسر کا مزید کہنا تھا کہ ’ان ڈیوائسز کا سافٹ ویئر بھی تواتر سے اپ ڈیٹ کیا جانا چاہیے تاکہ یہ کیمروں نقائص سے پاک رہیں۔‘
جنوبی کوریا میں آئی پی کیمروں کی ہیکنگ کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ گذشتہ برس نومبر میں جنوبی کوریا کے سرکاری ٹی وی چینل کے بی ایس نے روسی اور انڈونیشین ہیکرز کے ایک گروہ کا انکشاف کیا تھا۔
اس وقت جنوبی کوریا میں آئی پی کیمروں کو ہیک کرنے میں ’ایلیگیٹر‘ نامی ایک انڈونیشن گروہ ملوث تھا جو کہ ایک روسی گروہ کے ساتھ مل کر کام کر رہا تھا۔
جنوبی کوریا کے سرکاری میڈیا کے مطابق اس وقت ایک روسی ہیکر انٹرنیٹ پر ایسی معلومات بھی فروخت کر رہا تھا، جس کا استعمال کر کے سینکڑوں آئی پی کیمروں کی فوٹیج براہ راست دیکھی جا سکتی تھی۔