“میں 16 اگست کو اپنی بیوی عروب کے ساتھ ملیشیا کے ایک ایونٹ کے لیے پاکستان سے نکلنے لگا تھا کہ امیگریشن نے روک کر پوچھا کہ کیا میں کسی ایف آئی آر میں نامزد ہوں؟ میں نے کہا نہیں۔ میرا نام ای سی ایل میں تھا، پھر مجھے اور عروب کو ایئرپورٹ پر ہی گرفتار کر لیا گیا۔ ہمیں لگا کچھ دیر میں چھوڑ دیں گے، مگر مجھے گرفتار کر لیا گیا۔ مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ یہ معاملہ اتنا لمبا چلے گا۔ انہوں نے میرا موبائل لے لیا۔ عروب ملیشیا نہیں جا سکی، بعد میں مجھے پچھتاوا بھی ہوا کہ اسے چلے جانا چاہیے تھا۔”
“پولیس اسٹیشن پہنچ کر انہوں نے بیٹنگ ایپس اور مختلف چیزوں پر پوچھ گچھ کی۔ میں نے ہر بات میں تعاون کیا۔ انہوں نے میرا ریمانڈ لے لیا، مجھے تو ریمانڈ کا مطلب بھی نہیں پتا تھا۔ پھر مجھے عدالت لے جایا گیا، جو میرے خاندان کے لیے ایک بالکل نیا اور خوفناک تجربہ تھا۔”
“اگلے دن ایف آئی اے افسر سرفراز چوہدری آئے۔ اس نے دوسرے اہلکاروں سے پوچھا: ‘یہی ہے وہ بندہ؟ اسے میرے روم میں لے آؤ۔’ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں کسی ایپلیکیشن کا کنٹری ہیڈ ہوں؟ میں نے کہا نہیں۔ وہ فوراً برا بھلا کہنے لگا، میری ماں تک کو گالیاں دیں۔ پھر انھوں نے پوچھا کہ میں نے اتنے پیسے کیسے کمائے، میں نے بتایا کہ میں یوٹیوبر ہوں۔ انھوں نے کہا میں بچوں کو خراب کر رہا ہوں۔ میرے والد کے بارے میں پوچھا، جب میں نے کہا کہ وہ یونیورسٹی پروفیسر ہیں تو انھوں نے پھر گالیاں دیں اور مجھے مارنا شروع کر دیا۔ وہ مجھے کتنی بار مارا، میں گن بھی نہیں سکتا۔ انھوں نے ایک بچے کو ویڈیو کال کی اور اس کے سامنے مجھے مارا۔ بچہ بولا ’ڈکی بھائی‘ تو انھوں نے کہا: ’یہ ہے تمہارا ہیرو؟ اب اسے دیکھو۔ اس کی پیروی چھوڑ دو۔‘ انھوں نے بچے سے بھی مجھے گالی دلوانے کی کوشش کی۔ میں تعاون کر رہا تھا، پھر بھی وہ مجھے مارتے رہے۔
“جیل میں مجھے جاوا فوڈ والے ایک دوست ملے، انہوں نے پوچھا کیا مسئلہ ہے۔ میں نے کہا کہ وہ مجھے مار رہے ہیں حالانکہ میں ہر چیز بتا رہا ہوں۔ اگر ممکن ہو تو کسی سے کہو کہ مجھے مارنا بند کریں۔ انہوں نے یہ بات جنید سلیم کو بتا دی، انھوں نے ٹی وی پر بتائی اور وہ وائرل ہوگئی۔ اس کے بعد مجھے اور زیادہ مارا گیا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ تم اندر کی باتیں باہر بتاتے ہو۔ تب میں نے فیصلہ کیا کہ اب کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔ وہ گالیاں دیتے رہے اور میں بس برداشت کرتا رہا۔ اسی دوران انہوں نے میری بیوی اور میری ماں سے رابطہ کرکے عروب سے ساٹھ لاکھ روپے لے لیے۔ سرفراز نے میرے بائننس اکاؤنٹس بھی بند کرائے اور سارا پیسہ خود ہتھیا لیا۔ کچھ دن پہلے مجھے ایک اور افسر سے ملوایا گیا جو اچھا انسان تھا، میں اسے ’بڑا بھائی‘ کہتا ہوں۔ وہ میری فیملی سے بھی ملا اور انہیں کہا کہ اب کسی اور افسر کو ایک روپیہ بھی نہ دیں۔ پھر مجھے پتا چلا کہ سرفراز چوہدری گرفتار ہو گیا ہے اور وہی میری گرفتاری کا اصل ماسٹر مائنڈ تھا۔ مجھے پہلے دن سے پتا تھا کہ یہ بیٹنگ ایپس یا کسی کیس کا مسئلہ نہیں، صرف پیسے کا معاملہ تھا۔”
یہ وہ لرزہ خیز اعترافات ہیں جو مشہور یوٹیوبر ڈکی بھائی ( سعد الرحمٰن ) نے آج پہلی بار سامنے رکھے۔ تین ماہ تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنے والا یہ شخص جب بالآخر ضمانت پر باہر آیا تو اس نے اپنے چاہنے والوں سے معافی بھی مانگی اور اپنی کہانی کی وہ ساری تہیں بھی کھول ڈالیں جنہیں اب تک وہ دل ہی میں دفن کیے بیٹھا تھا۔
ایئرپورٹ سے گرفتار کیے جانے سے لے کر مسلسل جسمانی و ذہنی اذیت تک، ہر لمحہ ان کے لیے خوف، بے بسی اور ناانصافی سے بھرا ہوا تھا۔ ان کی بیوی عروب، ماں، گھر والے، سب ایک ایسے عذاب میں مبتلا تھے جس کا انجام معلوم ہی نہ تھا۔ ڈکی بھائی کے مطابق سرفراز چوہدری نامی افسر کی مبینہ کرپشن، پیسوں کی لالچ، اور اختیارات کے ناجائز استعمال نے اس معاملے کو مزید گھمبیر بنا دیا۔ ڈکی کے مطابق وہ افسر ہر قیمت پر پیسے نکلوانا چاہتا تھا، چاہے اس کے لیے دھمکی، تشدد یا خاندان کو خوفزدہ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
اس دوران جو افسر اس کے سامنے ’اچھا انسان‘ بن کر آیا، وہ اس اندھیرے میں ایک ایسی روشنی تھا جس نے کم از کم اسے بتا دیا کہ ظلم ہمیشہ طاقتور نہیں رہتا۔ واقعات کے چند دن بعد ہی سرفراز کی گرفتاری کی خبر سامنے آئی، جس نے ڈکی کے شک کو حقیقت میں بدل دیا کہ یہ سب پیسوں کا کھیل تھا۔
ڈکی بھائی نے اپنے مداحوں کو یقین دلایا کہ وہ اب ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھائیں، غلط چیزوں سے دور رہیں گے اور کبھی کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جن سے ان کے چاہنے والوں کو دکھ پہنچے۔