انڈیا کی لوک سبھا میں پیر کو قومی گیت ’وندے ماترم‘ کی 150ویں سالگرہ کے موقع پر بحث کا آغاز وزیرِ اعظم نریندر مودی کی تقریر سے ہوا۔ مودی نے اپنی تقریر میں مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو اور محمد علی جناح کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’وندے ماترم‘ کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔
انڈیا کی لوک سبھا میں پیر کو قومی نغمے ’وندے ماترم‘ کی 150ویں سالگرہ کے موقع پر بحث کا آغاز وزیرِ اعظم نریندر مودی کی تقریر سے ہوا۔ مودی نے اپنی تقریر میں مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو اور محمد علی جناح کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’وندے ماترم‘ کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔
اپنی تقریر کے دوران مودی کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ کی جانب سے 'وندے ماترم' کی مخالفت تیز ہو رہی تھی اور 15 اکتوبر 1937 کو جناح نے لکھنؤ سے اس کے خلاف نعرہ لگایا تھا۔
ان کے مطابق نہرو نے جناح کے اعتراضات کا جواب دینے کے بجائے خود 'وندے ماترم' کی جانچ شروع کر دی اور سبھاش چندر بوس کو خط میں لکھا کہ اس گیت کا پس منظر مسلمانوں کو بھڑکا سکتا ہے۔
مودی نے الزام لگایا کہ 26 اکتوبر کو کانگریس ورکنگ کمیٹی نے 'وندے ماترم' کے استعمال پر نظرثانی کا فیصلہ کیا جو مسلم لیگ کے دباؤ میں کیا گیا۔ ان کے مطابق یہ 'خوشامدی سیاست' کا نتیجہ تھا جس نے بعد میں تقسیمِ ہند کی راہ ہموار کی۔
مودی نے گاندھی کے 1905 کے مضمون کا حوالہ دیا جس میں انھوں نے ’وندے ماترم‘ کو قومی ترانہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ گیت حب الوطنی کو جگاتا ہے۔
وزیرِ اعظم نے ایمرجنسی کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ جب یہ گیت 100 برس کا ہوا تو ملک ایمرجنسی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ انھوں نے کہا کہ 'وندے ماترم' نے آزادی کی تحریک کو توانائی دی اور آج اس کی عظمت کو دوبارہ اجاگر کرنے کا وقت ہے۔
جبکہ کانگریس کے رہنما گورو گوگوئی نے کہا کہ کانگریس نے ہی 'وندے ماترم' کو قومی گیت کا درجہ دیا اور مسلم لیگ کے اعتراضات کو مسترد کیا۔
انھوں نے یاد دلایا کہ دستور ساز اسمبلی میں یہ طے ہوا تھا کہ ’جنا گنا منا‘ قومی ترانہ اور ’وندے ماترم‘ قومی نغمہ ہوگا۔
گوگوئی نے مودی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیرِ اعظم نے موجودہ مسائل پر بات نہیں کی، حتیٰ کہ دلی میں بم دھماکے کا ذکر بھی نہیں کیا۔
پارلیمنٹ کے باہر پرمود تیواری نے سوال اٹھایا کہ آزادی کی تحریک کے دوران 'آر ایس ایس نے برطانوی فوج میں شامل ہونے کی اپیل کیوں کی؟ کیا وزیرِ اعظم اس پر معافی مانگیں گے؟'
کانگریس کے عمران مسعود نے کہا کہ 'آر ایس ایس کا آزادی کی تحریک میں کردار دکھائیں، کون سا رہنما جیل گیا؟'
انھوں نے کہا کہ نہرو نے ملک کو خود کفیل بنایا اور سائنسی سوچ دی تھی۔
150 برس پرانے قومی گیت پر بحث کیوں ہو رہی ہے؟
انڈیا میں ’وندے ماترم‘ ترانہ اپنی ابتدا کے زمانے سے ہی متنازع رہا ہے۔
یہ ایک ایسا ترانہ ہے جس کے حوالے سے وقتاً فوقتاً تنازعات اٹھتے رہے ہیں لیکن بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اس معاملے پر حکمراں پارٹی اور اپوزیشن کے درمیان تنازع جاری ہی رہتا ہے۔
بی جے پی نے کانگریس پر الزام عائد کیا ہے کہ آزادی کی جدوجہد کے دوران اس پارٹی نے نغمے کے اہم حصوں کو حدف کیا جبکہ کانگریس نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتی ہے۔
اس موقع پر بی جے پی کے کئی رہنما تعلیمی اداروں میں اس گیت کے گانے کو لازمی قرار دینے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔
سماج وادی پارٹی سمیت کئی اپوزیشن پارٹیاں اُس کی مخالفت کر رہی ہیں اور یہ دلیل دے رہی ہیں کہ اس ترانے کو لازمی قرار دیے جانا نہیں چاہیے۔
یہ گیت بنکم چندر چٹرجی نے سنہ 1875 میں بنگالی اور سنسکرت میں لکھا تھا۔
اس گیت کو بعد میں بنکم نے اپنی مشہور لیکن متنازع تصنیف ’آنند مٹھ‘ (1885) میں شامل کیا تھا۔
گذشہ ماہ نومبر میں ’وندے ماترم‘ کی 150 ویں سالگرہ سے متعلق تقریبات کا افتتاح کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے الزام لگایا تھا کہ کانگریس پارٹی نے 1937 کے فیض آباد اجلاس سے پہلے ’وندے ماترم کے کچھ اہم حصوں کو حذف کر دیا گیا تھا۔‘
اس کے بعد انھوں نے کہا کہ ’سنہ 1937 میں وندے ماترم کی کچھ اہم لائنیں کو، جو اس کی روح کا حصہ تھیں، ہٹا دیا گیا تھا۔ وندے ماترم کو توڑ دیا گیا۔ یہ ناانصافی کیوں کی گئی؟ اس نے تقسیم کے بیج بوئے۔‘
بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا نے یہ بھی الزام لگایا کہ نہرو ’وندے ماترم‘ سے ’آرام دہ‘ نہیں تھے۔
ان الزامات کے جواب میں، کانگریس کے ترجمان جے رام رمیش نے سبیہ ساچی بھٹاچاریہ کی لکھی ہوئی وندے ماترم پر ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے انسٹاگرام پر پوسٹ کیا کہ ’1937 میں کانگریس ورکنگ کمیٹی کے اجلاس سے تین دن پہلے، گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور نے خود نہرو کو اس بارے میں لکھا تھا۔ وہ ذاتی طور پر وندے ماترم کے ساتھ منسلک تھے، اور تجویز کیا کہ پہلے دو قطعات کو اپنایا جائے۔ میٹنگ میں ان کے خط سے متاثر ہو کر اب وزیر اعظم نریندر مودی گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور پر تفرقہ انگیز نظریہ رکھنے کا الزام لگا رہے ہیں۔‘
یوگی حکومت کا فیصلہ اور اس کی مخالفت
مزید برآں، 10 نومبر کو اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اعلان کیا تھا کہ اُن کی حکومت ریاست کے سکولوں، کالجوں اور تعلیمی اداروں میں ’وندے ماترم‘ کے گائے جانے کو لازمی بنائے گی۔
11 نومبر کو، بارہ بنکی ضلع میں وندے ماترم کی 150 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک پروگرام کے دوران انھوں نے کہا کہ ’جو بھی وندے ماترم کی مخالفت کرتا ہے وہ بھارت ماتا (مادر ہند) کی مخالفت کر رہا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’آج بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو انڈیا میں رہیں گے، انڈیا میں کھائیں گے، لیکن وندے ماترم نہیں گائیں گے۔‘
اس کا جواب دیتے ہوئے سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے 13 نومبر کو بریلی میں کہا: ’جب وزیر اعلیٰ کی کرسی ہلنے لگتی ہے تو وہ فرقہ پرست ہو جاتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم آج یہ بحث کر رہے ہیں، کیا اس وقت آئین بنانے والوں نے بحث نہیں کی تھی، اسی لیے انھوں نے قومی ترانہ اور قومی نغمہ دیا، اگر انھیں گانا ضروری تھا تو اسے لازمی کیوں نہیں بنایا گیا، انھوں نے اسے عوام کی پسند پر چھوڑ دیا۔‘
اکھلیش یادو نے یہ بھی کہا کہ ’بی جے پی ممبران سے کئی بار پوچھا گیا کہ قومی ترانہ اور قومی گیت کیا ہے، لیکن وہ نہیں جانتے تھے۔ بی جے پی کے اراکین قومی گیت نہیں گا سکتے تھے۔‘
اس گیت کو سکولوں میں لازمی قرار دینے کے اعلان پر مسلم رہنماؤں نے بھی اعتراض کیا ہے۔
سمبھل سے سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمان برق نے میڈیا کو بتایا کہ کسی کو بھی یہ گانا گانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ آئین ہر کسی کو آزادی دیتا ہے۔
سنبھل سے سماج وادی پارٹی کے ایم ایل اے اقبال محمود نے بی بی سی کو بتایا: 'اگرچہ ہم قومی ترانے کا احترام کرتے ہیں اور گاتے ہیں، لیکن ہم نہ تو وندے ماترم کی حمایت کرتے ہیں اور نہ ہی مخالفت کرتے ہیں۔'
’وندے ماترم‘ کی تاریخ کیا ہے؟
بنکم چندر چٹرجی (1838-1894) پہلے ہندوستانی تھے جنھیں 1858 میں ملکہ انگلستان کے ذریعہ برطانوی انڈین کالونیوں پر قبضہ کرنے کے بعد ڈپٹی کلکٹر مقرر کیا گیا تھا۔
وہ 1891 میں ریٹائر ہوئے اور برطانوی حکمرانوں نے انھیں ’رائے بہادر‘ سمیت کئی القابات سے نوازا۔
انھوں نے یہ گیت بنگالی اور سنسکرت میں 1875 میں لکھا۔ بنکم نے بعد میں اسے اپنی مشہور لیکن متنازع تصنیف ’آنند مٹھ‘ (1885) میں شامل کیا۔
اس گیت کے بارے میں ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ اس میں جن علامتوں اور مناظر کا ذکر کیا گیا ہے ان سب کا تعلق بنگال کی سرزمین سے ہے۔
اس گیت میں بنکم نے سات کروڑ لوگوں کا بھی ذکر کیا ہے، جو اس وقت صوبہ بنگال (جس میں اڑیسہ اور بہار شامل تھے) کی کل آبادی تھی۔ اسی طرح جب اروبندو گھوش نے اس کا ترجمہ کیا تو اس کا عنوان ’بنگال کا قومی نغمہ‘ رکھا۔
رابندر ناتھ ٹیگور نے اس گیت کے لیے ایک خوبصورت دھن بھی ترتیب دی تھی۔
بنگال کی تقسیم نے صحیح معنوں میں اس گانے کو بنگال کا قومی ترانہ بنا دیا۔ سنہ 1905 میں برطانوی حکومت کی طرف سے بنگال کی تقسیم کے خلاف عوامی غم و غصے نے اس گیت، خاص طور پر اس کے کورس کو انگریزوں کے خلاف ہتھیار بنا دیا۔
پھر، آزادی کی تحریک میں حصہ لینے والوں، بشمول ہندو اور مسلمان دونوں، نے برطانوی حکومت کے خلاف اپنے احتجاج میں اس گیت کو بڑے پیمانے پر استعمال کیا۔
جب برطانوی فوج نے باریسال (اب بنگلہ دیش میں) میں کسان رہنما ایم رسول کی صدارت میں 'وندے ماترم' نظم گانے پر بنگال کانگریس کے صوبائی اجلاس پر وحشیانہ حملہ کیا تو 'وندے ماترم' کا نعرہ پورے بنگال میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔ راتوں رات یہ نہ صرف بنگال بلکہ پورے ملک میں گونجنے لگا۔
بھگت سنگھ، سکھ دیو، راج گرو، رام پرساد بسمل، اور اشفاق اللہ خان جیسے آزادی کے جنگجوؤں نے بھی ’وندے ماترم‘ کا نعرہ لگایا۔
یہ نعرہ ’انقلاب زندہ باد‘ کی طرح مشترکہ قوم پرستی کا منتر بن گیا۔ 20ویں صدی کے دوسرے عشرے تک برطانیہ مخالف قومی تحریک ملک گیر شکل اختیار کر چکی تھی۔
اعتراضات اور حل
آزادی کی تحریک کی قیادت کرنے والی کانگریس نے تقسیم کو روکنے کے لیے 1937 میں گاندھی، نہرو، ابوالکلام آزاد اور سبھاش چندر بوس پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے اس گانے کے متعلق لوگوں کے اعتراضات کو دعوت دی۔
سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ اس گیت میں انڈین قوم پرستی کی تعریف ایک خاص مذہب کے حوالے سے کی گئی تھی۔ یہ سوال نہ صرف مسلم تنظیموں نے اٹھایا بلکہ سکھ، جین، مسیحی اور بدھ تنظیموں نے بھی اٹھایا۔
قومی ترانہ 'جن گن من' کے ساتھ 'وندے ماترم' کو ملک کے قومی گیت کے طور پر تسلیم کیے جانے کے ساتھ ہی اس کے بارے میں تنازع پیدا ہو گیا تھا۔
مسلم علما کا کہنا تھا کہ چونکہ اس گیت میں ملک کے پہاڑوں دریاؤں اور زمین کے آگے سر جھکانے کی بات کہی گئی ہے اس لیے مسلمان یہ گیت نہیں گا سکتے کیونکہ وہ صرف خدا کے آگے سر جھکا سکتے ہیں۔
کافی بحث ومباحثے کے بعد علما نے یہ طے کیا کہ مسلمان وندے ماترم کے ابتدائی دو بند گا سکتے ہیں۔ تقریبات میں دراصل یہی دو بند گائے جاتے ہیں۔
قومی ترانہ 'جن گن من' کے برعکس یہ قومی گیت بیشتر لوگوں کو یاد نہیں ہے اور اسے بہت کم گایا جاتا ہے۔ لیکن علما کی مخالفت اور طرح طرح کے فتووں کے باعث یہ گیت پچھلے کچھ برسوں میں تیزی سے مقبول ہوا ہے۔ تاہم آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا نے پورے گانے کو اپنانے کا مطالبہ کیا جبکہ مسلم لیگ نے پورے گیت کی مخالفت کی۔
انڈیا میں ایک طبقہ اکثر اس طرح کے نعرے لگاتا ہے کہ 'ہندوستان میں رہنا ہے تو بندے ماترم کہنا ہوگا' جو کہ اشتعال انگیزی کے مترادف بھی ہے اور بعض لوگوں کے نزدیک مذہبی آزادی کی خلاف ورزی بھی ہے۔