پاکستان بننے سے قبل سہروردی نےسبھاش چندربوس کے بھائی سرت چندر بوس، جو اس وقت بنگال کانگرس کے سربراہ تھے، کے ساتھ مل کر ایک علیحدہ وطن کے قیام کا منصوبہ بنایا۔ اس حوالے سے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو خبر بھی کر دی گئی۔
حسین شہید سہروردیسنہ 1957 کے جولائی کے آخری دن تھے۔ پاکستان کے پانچویں وزیرِ اعظم حسین شہید سہروردی کا امریکہ کا 18 روزہ دورہ ختم ہو رہا تھا جب ایک امریکی اخبار نے انھیں ’امریکہ میں تب تک آئے پُرجوش اور فعال ترینسرکاری مہمانوں میں سے ایک‘ قرار دیا۔
دی نیویارک ٹائمز نے امریکی محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار کے حوالے سے لکھا کہ ’سہروردی وہ پہلے ایسے سرکاری مہمان ہیں جو نہ صرف اُن کے لیے تیار کیے گئے جامع اور مصروف پروگرام (شیڈول) سے تھکے نہیں بلکہ وہ اس میں مزید مصروفیات شامل کرنا چاہتے تھے۔'
’کل کا دن بھی اِسی طرح گزرا۔ جمعہ کی شب ایک بڑے ڈنر کے بعد وزیراعظم صبح تین بجے سوئے، لیکن صرف چار گھنٹے بعد، سات بجے دوبارہ بیدار ہو گئے اور چند ہی گھنٹوں بعد کوسٹ گارڈ کی ٹگ بوٹ میں نیویارک بے کا دورہ کر رہے تھے۔ انھوں نے اپنے وفد کے ایک رکن سے پوچھا: ’میرے فارن افیئرز (اُمور خارجہ) والے صاحب کہاں ہیں؟‘
جواب ملا: ’وہ ابھی جاگے نہیں ہیں۔ لوگ آپ کے شیڈول کا ساتھ نہیں دے سکتے۔‘
بنگال سے پاکستان تک
انڈین نیشنل کانگریس کے رہنما مہاتما گاندھی 1946 میں نوکھالی میں ایک گھر کا دورہ کر رہے تھے، جن کے ساتھ حسین شہید سہروردی بھی موجود تھے سہروردی سنہ 1893میں بنگال (برطانوی ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد سر زاہد سہروردی کلکتہ ہائی کورٹ کے جج تھے اور اُن کی والدہ خجستہ اختر بانو اُردو زبان کی ادیبہ تھیں۔
سنہ 1920میں انھوں نے بنگال کے اُس وقت کے وزیر داخلہ سر عبد الرحیم کی بیٹی بیگم نیاز فاطمہ سے شادی کی اور اُن (نیاز فاطمہ) کی وفات کے بعد 1940 میں روس کی تھیٹر اداکارہ ویرا الیگزینڈروینا سے بیاہ کیا، جنھوں نے اسلام قبول کر کے اپنا نامبیگم نور جہاں رکھا۔ سنہ 1951 میں اُن میں طلاق ہو گئی۔ اس شادی سے سہروردی کے ایک بیٹے راشد سہروردی پیدا ہوئے جو اداکار تھے۔
سہروردی نے آکسفورڈ سے قانون کیتعلیم پائی۔ سیاست کا ذوق رکھتے تھے چنانچہ کلکتہ کے شہری کونسلر منتخب ہوئے اور بعدازاں برطانوی حکومت کے زیرِانتظام بنگال کی صوبائی قانون ساز کونسل کے رُکن رہے، یہ ذمہ داری انھوں نے سنہ1921 سے سنہ 1945 تک نبھائی۔
بانی پاکستان محمد علی جناح کی خواہش پر وہ سنہ 1928 میں مسلم لیگ کی بنگال شاخ کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ خواجہ ناظم الدّین کی بنگال میں قائم حکومت (1943-45) میں وزیر رہے۔ سہروردی کی متحرّک قیادت کی بدولت 1946 کے انتخابات میں مسلم لیگ نے بنگال میں 121 میں سے 114 نشستیں جیت لیں۔ اور یوں وہ متحدہ بنگال کے وزیر اعلیٰ منتخب ہو گئے۔
اُس وقت پورے ہندوستان میں بنگال ہی تھا جہاں مسلم لیگ کی وزارت تھی۔
ہفت روزہ ’ٹائم‘ کے مطابق ’1946 میں جب ہندو مسلم کشیدگی نے کلکتہ میں خونیں فسادات کی صورت اختیار کی، تو سہروردی موہن داس گاندھی کے ساتھ ہنگاموں کے علاقوں کے دورے کرتے رہے، جہاں وہ دونوں مل کر ہندو مسلم رواداری کا پیغام دیتے اور اس کو عملی طور پر ثابت کرنے کی کوشش کرتے۔‘
پاکستان بننے سے قبل سہروردی نے سبھاش چندربوس کے بھائی سرت چندر بوس، جو اُس وقت بنگال کانگرس کے سربراہ تھے، کے ساتھ مل کر ایک علیحدہ وطن کے قیام کا منصوبہ بنایا اور اس حوالے سے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو خبر بھی کر دی گئی۔
سٹینلی وولپرٹ اپنی کتاب ’دی شیم فل فلائٹ‘ میں لکھتے ہیں کہ ماؤنٹ بیٹن، جو ہر حال میں پاکستان کو بننے سے روکنا چاہتے تھے، نے محمد علی جناح کو جب اس بارے میں بتایا تو اُن کی نیّت جناح اور سہروردی کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی تھی لیکن جناح نے اُن کی اس تجویز سے اتفاق کر کے وائسرائے کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔
’جناح کا صاف جواب یہی تھا کہ یہ فیصلہ بنگال کے حق میں بہتر ہے کیونکہ ویسے بھی کلکتہ کے بغیر بنگال کا گزارا ممکن نہ ہو گا۔ تاہم، یہ سکیم نہرو اور پٹیل نے آگے ہی نہ بڑھنے دی اور بالآخر بنگال کو بھی تقسیم کے کرب سے گزرنا پڑا۔‘
مغربی بنگال انڈیا کے حصے آیا جب کہ مشرقی بنگال، جو صنعتی ترقی سے محروم تھا، مشرقی پاکستان کہلایا۔
ٹائم لکھتا ہے کہ سنہ 1947 میں جب ہندوستان کو آزادی ملی اور وہ انڈیا اور پاکستان میں تقسیم ہوا تو سہروردی کلکتہ ہی میں مقیم رہے۔ یہاں تک کہ انڈین حکام نے اُن کے کاروبار اور اُن کی 1947 ماڈل بیوک گاڑی پر بھاری ٹیکس لگانے کی کارروائی شروع کر دی۔
اختر بلوچ کی تحقیق ہے کہ سہروردی کی پاکستان میں آئین ساز اسمبلی کی نشست اس بنیاد پر خالی کر دی گئی کہ جو شخص تقسیمِ ہند کے بعد چھ ماہ کے اندر اندر پاکستان کے کسی علاقے میں رہائش اختیار نہیں کر پاتا وہ اپنی نشست پر برقرار نہیں رہ سکتا۔ سہروردی نے کوشش کی کہ مشرقی پاکستان میں انھیں کوئی رہائش گاہ مل جائے۔
سہروردی کی ماموں زاد بہن شائستہ اکرام اللہ، جو خود بھی پہلی دستور ساز اسمبلی کا حصہ رہیں، حسین شہید سہروردی کی سوانح عمری میں لکھتی ہیں کہ ’وہ جون 1948 میں ڈھاکہ گئے لیکن اُن کی آمد کے 24 گھنٹوں کے بعد انھیں ڈھاکہ بدری کا نوٹس دیا گیا۔ اس میں یہ بھی شامل تھا کہ وہ آئندہ چھ ماہ کے لیے مشرقی پاکستان داخل نہیں ہو سکتے۔‘
ٹائم کے مطابق ’1949میں سہروردی آخرکار پاکستان منتقل ہو گئے۔ اس وقت مسلم لیگ کے رہنماؤں نے انھیں ’غدار‘ قرار دے کر پاکستانی سیاست سے خارج کرنے کی کوشش کی۔‘
مسلم لیگ کی بجائے عوامی لیگ کی وکالت
حسین شہید سہروردی اور ایلک ڈگلس کی لندن ایئرپورٹ پر 24 جون 1957 کو ہونے والی ملاقات کا منظرقدرت اللہ شہاب اپنی کتاب ’شہاب نامہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی کو اکثر اپنی تقریروں میں تنقید کا نشانہ بناتے۔11 ستمبر 1950 کو محمد علی جناح کے دوسرے یوم وفات پر ایک تقریب میں انھوں نے کہا کہ ’مسٹر سہروردی وہی صاحب ہیں جو ہندوستان کے مسلمانوں کا اتحاد پارہ پارہ کرنے کے بعد یہاں تشریف لائے۔ اِن صاحب نے پاکستان بننے کے بعد ہندوستان میں مسلم لیگ ہند نہیں بننے دی اور اِس مؤقف کا پرچار کیا کہ ہندوستان میں اب فرقہ وارانہ بنیادوں پر سیاسی جماعت کی ضرورت نہیں۔‘
داؤد ظفر ندیم کی تحقیق ہے کہ سہروردی کی تجویز تھی کہ قیامِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ کا نام تبدیل ہونا چاہیے اور اس کے دروازے مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلموں کے لیے بھی کُھلے ہونے چاہییں۔ محمد علی جناح، سہروردی کی تجویز سے اصولی طور پر متّفق تھے مگر صرف اُس وقت کو موزوں نہیں خیال کرتے تھے۔
حسین شہید سہروردی برطانوی سٹار ریجنلڈ ڈینی، جولی اینڈریو اور ریکس ہیریسن کے ہمراہٹائم کے مطابق ’سہروردی نے اپنی جماعت عوامی لیگ قائم کی، مشرقی پاکستان کے دیہات میں گھوم کر حمایت حاصل کی اور سنہ 1954 میں انھوں نےمسلم لیگ کو شکست دے کر مشرقی پاکستان کے مقامی انتخابات جیتے اور اپنی کھوئی ہوئی سیاسی ساکھ بحال کی۔‘
سہروردی کا بڑھتا اثر و نفوذ انھیں مرکزی کابینہ میں لے آیا۔
پانچویں وزیراعظم
ہفت روزہ ٹائم کے مطابق ستمبر 1956 میں غلام محمد کے بعد اقتدار سنبھالنے والے صدر اسکندر مرزا، جو فوج اور سول انتظامیہ کی پشت پناہی سے ملک چلا رہے تھے، نے سہروردی کوبلایا اور اپنی ’کنٹرولڈ جمہوریت‘ کے تحت وزیراعظم مقرر کر دیا۔
ٹائم کی 24 ستمبر 1956کی اشاعت میں لکھا ہے کہ پچھلے ہی سال ایک دن کراچی کی فیشن ایبل کلِفٹن روڈ پر اپنے بڑے، کشادہ گھر میں بیٹھے سہروردی، اس کال کا انتظار کر رہے تھے جو انھیں پاکستان کا وزیراعظم بنا دیتی۔ مگر وہ کال نہیں آئی۔
’آخری لمحے میں، پاکستان کے صدر اسکندر مرزا نے سہروردی کو چھوڑ کر ایک زیادہ مطیع امیدوار، مالیاتی ماہر محمد علی، کو منتخب کر لیا۔ ’مرزا ایک مکار منصوبہ ساز ہے!‘ سہروردی نے غصے میں کہا۔ مرزا نے جواب میں کہا: ’سہروردی صرف میری لاش پر ہی وزیراعظم بنے گا!‘
لیکن ’پچھلے ہفتے، ایوان ِصدر میں، ایک زندہ سلامت اسکندر مرزا نے 64 سالہ حسین سہروردیسے پاکستان کے پانچویں وزیراعظمکا حلف لیا، اور پھر مسکرا کر انھیں گلاب اور چمبیلی کے پھولوں کے ہار سے سجا دیا۔‘
’یہ خالص ناگہانی ضرورت تھی جس نے صدر مرزا کو مجبور کیا کہ وہ سہروردی کو پاکستان کے وزیراعظم کے طور پر قبول کریں۔‘
’پاکستان مشکل حالات میں تھا اور حالات مزید خرابی کی طرف جا رہے تھے۔ مشرقی پاکستان، جس کی آبادی 55 فیصد تھی، قحط اور سرکاری بدعنوانی سے جھلس رہا تھا۔‘
’سیاسی جھگڑوں کی وجہ سے تین ماہ پہلے زبردست اعلان شدہ پانچ سالہ منصوبے میں سے کوئی بھی منصوبہ شروع نہیں ہوا تھا۔ کبھی غالب مسلم لیگ پارٹی کئی چھوٹے چھوٹے فریقوں اور دھڑوں میں تقسیم ہو چکی تھی، جس کی وجہ سے سیاسی استحکام کی واحد قوت ختم ہو گئی تھی۔‘
نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ ’سہروردی ایک اچھے اور شدید سیاسی معرکے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ پاکستان کے سب سے سخت گیر سیاستدانوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ایک پیچیدہ عدالتی مقدمے میں بھی انھیں مزہ آتا ہے، اور وہ پاکستان کے سب سے مصروف اور سب سے مہنگے وکلا میں سے ہیں۔‘
ٹائمز کے مطابق ’انھیں خوش ذائقہ کھانوں کا شوق ہے، موسیقی اور رقص پسند ہے۔ گفتگو، اچھی گفتگو، سہروردی کو سب سے زیادہ پسند ہے، چاہے اپنی ہو یا دوسروں کی۔ سہروردی زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں، شراب یا سگریٹ نوشی ان میں شامل نہیں لیکن حکومت کے معاملات میں وہ انتہائی سنجیدہ ہیں۔‘
’سہروردی کا ایک بنیادی سیاسی عقیدہ یہ ہے کہ پاکستان کے بیشتر مسائل قومی انتخابات نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ان کے دشمن بھی دو باتوں پر اتفاق کرتے ہیں: ایک یہ کہ وہ وعدہ نبھانے میں سخت ایمان دار ہیں، اور دوسرا یہ کہ وہ غیر مقبول مسائل کو اٹھانے کا رجحان رکھتے ہیں۔‘
’سہروردی نے اس اصول کے لیے جدوجہد کی کہ پاکستانی ہندو اور پاکستانی مسلم کے درمیان کوئی سیاسی امتیاز نہ ہو۔‘
ٹائمز لکھتا ہے کہ سہروردی زیادہ تر وقت اپنے گھر کے ایک چھوٹے کمرے میں گزارتے ہیں۔ کمرے میں جڑواں بستر ہیں، ایک پر وہ سوتے ہیں اور دوسرے پر فون بکس اور فائلیں بکھری ہوتی ہیں۔ بستر کے سامنے کچھ کرسیاں رکھی ہیں، جو اکثر دوستوں یا سیاسی ساتھیوں سے بھری رہتی ہیں۔
’سہروردی روزانہ بارہ گھنٹے یا اس سے زیادہ کام کرتے، اکثر جڑواں بستروں پر نیم دراز رہ کر ریاستی فائلوں اور مکھی مارنے والے پھٹکوں کے درمیان دفتری کام نمٹاتے، یا ریڈیو اور ریکارڈر کی بلند آواز کے ساتھ ’فوری توجہ‘ والی فائلوں کی ورق گردانی کرتے۔‘
’وش طبع سہروردی ہفتے میں کم از کم ایک دعوت ضرور رکھتے اور شاذ ہی کسی سماجی تقریب سے انکار کرتے۔‘
’سہروردی عموماً سفید کھلی قمیض اور سفید پتلون پہنتے ہیں، لیکن ہمیشہ خوش نما اور صاف ستھرے نظر آتے ہیں۔ ان کے پاس ایک مرسڈیز ہے، جسے وہ خود ڈرائیو کرتے ہیں۔‘
ٹائمز نے لکھا کہ ’جب سہروردی نے دفتر سنبھالا، تو اُن سے پوچھا گیا کہ سب سے اہم مسئلہ قحط ہے یا خارجہ پالیسی، تو سہروردی نے جواب دیا: احمق! سیاسی استحکام۔ یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔‘
سہروردی نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی اے ای سی) قائم کیا۔ انھوں نے ڈاکٹر نذیر احمد کو اس کا چیئرمین مقرر کیا۔ سہروردی نے ’ایٹمز فار پیس‘ منصوبے کی حمایت کی۔ انھوں نے سنہ 1956 میں امریکہ سے ایک نیوکلیئرری ایکٹر درآمد کرنے کے لیے رقم بھی جاری کی۔
پاکستان اور امریکہ
پاکستان کے ابتدائی سفارتکاروں میں شامل، ایس ایم برک، نے اپنی کتاب ’پاکستان کی خارجہ پالیسی: ایک تاریخی تجزیہ‘ میں لکھا کہ ’سہروردی اکثر اپنی امریکہ حامی خارجہ پالیسی کا دفاع عوام میں بے باکی سے کرتے تھے۔‘
سہروردی نے امریکہ کی سرپرستی میں قائم جنوب مشرقی ایشیائی دفاعی معاہدے اور برطانیہ کے زیرِ سرپرستی بغداد معاہدے میں پاکستانی شمولیت کی حمایت کی۔
’تجربہ کار مغربی سفارتکار اکثر حیرت کا اظہار کرتے کہ آیا کوئی بھی پاکستان میں نظم پیدا کر سکتا ہے، اور بعض تو سہروردی کو ’پاکستان کی آخری امید‘ قرار دیتے تھے۔‘
ٹائمز نے لکھا کہ ’امریکہکے دورے کے اختتام پر ایزن ہاور سہروردی اعلامیے میں کہا گیا کہ امریکی زرعی فاضل اجناس کی ’کم از کم ضروریات‘ پر ہمدردانہ اور جلد غور کیا جائے گا، اور کشمیر کے پرامن، اقوام متحدہ کی ضمانت والے حل کی امید ظاہر کی گئی۔ سہروردی نے پُراسرار انداز میں کہا: ’کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جو اعلامیے میں شامل نہیں کی گئیں۔‘
سنہ 1958 میں ایوب خان کے دورِ حکومت میں پشاور کے نزدیک بڈابیر کا فضائی اڈا 10 سالہ لیز پر امریکہکے حوالے کیا گیا۔
لیکن امریکہ میں پاکستانی سفیرامجد علی نے اپنی کتاب ’گلمپسز‘ میں لکھا ہے کہ یہ اڈا سی آئی اے کو دینے اور وہاں سے سوویت یونین کی فضائی جاسوسی کے لیے یو 2 طیاروں کی پروازیں شروع کرنے کے لیے باقاعدہ اجازت طلب کرنے والے امریکی صدر آئزن ہاور تھے جبکہ یہ اجازت بخوشی دینے والے اس وقت کے وزیر اعظم حسین شہید سہروردی تھے۔
’یہ اجازت 10 جولائی 1957 کو انھوں نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران میں دی اور اسی وقت واشنگٹن کے پاکستانی سفارتخانے کو اس سلسلے میں ہدایات بھی دے دی گئیں۔‘
پاک چین دوستی کے معمار
دوسری جانب پاک چین تعلقات کے معمار بھی سہروردی ہی تھے۔
ایس ایم برک اپنی کتاب ’مین سپرنگس آف انڈین اینڈ پاکستانی پالیسیز‘ میں لکھتے ہیں کہ ’سہروردی نے مغربی بلاک کے دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے 1956 میں چین کا دورہ کیا۔ وہ پاکستان کے پہلے وزیر اعظم قرار پائے جس نے کمیونسٹ چین کے ساتھ تعلقات قائم کیے۔‘
’اس دورے میں پاکستانی وزیر اعظم نے اپنے چینی ہم منصب چو این لائی سے ملاقات کی اور الائنس پیکٹ پر دستخط کیے۔ اس ملاقات کے بعد ہی بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانہ قائم کیا گیا۔‘
’اسی طرح جب 1957 میں چو این لائی پاکستان آئے تو کراچی میں ان کا پرتپاک خیر مقدم کیا گیا۔‘
دو سال پہلے چین کے صدرماؤزے تنگ کی جانب سے پاکستانی وزیراعظم سہروردی کی 19 اکتوبر 1956 کو بیجنگ میں دی جانے والی ضیافت کا مینیو 82 لاکھ 75 ہزار ڈالرمیں نیلام ہوا۔
بوسٹن میں واقع آر آر آکشن کے مطابق سہروردی کے چین کے پہلے سرکاری دورے کے موقع پر دیگئی دعوت کے مینو پر فاؤنٹین پین سے ماؤ اور اُس وقت کے وزیراعظم چو این لائی سمیت چھ بااثر چینی سیاستدانوں نے دستخط کیے تھے۔
ایک بار سہروردی نے کہا کہ ’سوال یہ پوچھا جاتا ہے: ہم سب، مسلم ممالک، کیوں نہ اکٹھے ہوں بجائے اس کے کہ کسی بڑی طاقت جیسے برطانیہ یا امریکہ سے بندھے رہیں؟‘
’میرا جواب یہ ہے کہ صفر جمع صفر جمع صفر جمع صفر آخرکار صفر کے برابر ہوتا ہے۔ لہٰذا ہمیں زیادہ وسیع نقطۂ نظر اپنانا ہو گا بجائے اس کے کہ سب صفر اکٹھے کریں۔‘
اس تقریر کے بعد ملک بھر میں وزیراعظم کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا۔ ان سے استعفے کا مطالبہ کیا گیا، اور مسلم لیگ اور مذہبی جماعتوں نے انھیں ’امپیریل ازم کا ایجنٹ‘ قرار دیا۔
سہروردی کی وزارت عظمیٰ 13 ماہ ہی رہی اور 17 اکتوبر1957 کو انھوں نے استعفا دے دیا، جب اُن کی مخلوط حکومت ٹوٹ گئی۔ انھوں نے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ لینے کی کوشش کی، مگر صدر اسکندر مرزا نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے انکار کر دیا، جس کے بعد سہروردی کے پاس استعفا دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔
صحافی منیر احمد منیر لکھتے ہیں کہ ایک انٹرویو میں پنجابکےایک سابق وزیر اعلیٰ سردار عبدالحمید دستی نے انھیں بتایا کہ جب صدر مرزا نے وزیر اعظم سہروردی سے استعفیٰ طلب کیا تو وہ رو رہے تھے۔
’سہروردی نے کہا کہ میں اس لیے روتا ہوں کہ کشمیر ہمیشہ کے لیے گیا۔ ایوب خان کے ساتھی اور قومی اسمبلی کے رکن سید مرید حسین کی زبانی یہ سن کر میری جستجو کو ایک اور مہمیز لگی۔‘
’سید امجد علی نے گتھی سلجھا دی۔ کہنے لگے، صدرِ امریکہ بڈابیر (پشاور) میں مواصلاتی اڈا کھولنا چاہتے تھے۔ وزیر اعظم سہروردی نے شرط رکھی، میں اڈا کھولنے کی اجازت دے دیتا ہوں، اس کے عوض مجھے کشمیر لے دیں۔‘
ایوب خان کی مخالفت اور سہروردی کی نااہلی
سنہ 1958 میں جنرلایوب خان نے مارشل لا لگا دیا تو سہروردی تن تنہا حزب اختلاف کی آواز بن گئےسنہ 1958 میں جنرل ایوب خان نے مارشل لا لگا دیا۔ ندیم کے مطابق سہروردی تن تنہا حزب اختلاف کی آواز بن گئے۔
الیکٹو باڈیز ڈسکوالیفکیشن آرڈر ( ایبڈو) کے نام سے ایک قانون بنا، جس کے تحت سیاست دانوں پر کرپشن کے الزامات لگائے جاتے۔ جواب میں یا تو سیاست دان سیاست سے بے دخلی قبول کرتا، یا فوجی عدالت میں مقدمے کا سامنا کرتا۔ جن چند سیاستدانوں نے مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کیا، ان میں سہروردی بھی تھے۔
الزام لگا کہ جب سہروردی وزیر اعظم تھے، انھوں نے اپنے اختیارات کے غلط استعمال میں ایک شخص سیٹھ نور علی کو چاولوں کا پرمٹ دیا تھا۔ فوجی عدالت میں سہروردی نے ریکارڈ سے ثابت کر دیا کہ پرمٹ کے اجرا کے لیے وزارت تجارت کے سیکریٹری نے ان سے منظوری لی ہی نہیں، بلکہ خود ہی پرمٹ جاری کر دیا، اسکندر مرزا اور ایوب خاں کے کہنے پر۔
’سہروردی کو سات سالہ نااہلی کی سزا تو پھر بھی دی گئی، لیکن پریس کو عدالتی کارروائی رپورٹ کرنے سے روک دیا گیا۔‘
لیکن سہروردی سیاسی طور پر مسلسل متحرک رہے۔
شائستہ اکرام اللہ، سہروردی کی سوانح عمری میں لکھتی ہیں کہ ’انھوں نے اپنی وکالت دوبارہ سے شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت نے انھیں روکنے کے لیے اپنی سازشوں میں اضافہ کر دیا۔ کراچی اور لاہور کی عدالتوں کو یہ ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ وکیل کی حیثیت سے انھیں رجسٹر نہ کریں۔ یہ منٹگمری (جسے اب ساہیوال کے نام سے جانا جاتا ہے) کی ایک عدالت تھی جس نے سہروردی کو وکیل کی حیثیت سے قبول کیا۔‘
نوابزادہ نصر اللہ خان نے اپنی سرگزشت ’دیدہ بینا‘ میں لکھا ہے کہ سہروردی قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں بھی جب کسی مقدمے میں بطور وکیل پیش ہونے لاہور آتے تو ’ہوٹل خیابان‘ علامہ اقبال روڈ لاہور میں ٹھہرتے تھے۔
ان کی آمد پر پارٹی ارکان دن رات ملنے آتے۔ کورٹ سے سہروردی جب بھی واپس ہوٹل آتے تو جیب سے تمام رقم نکال کر بیڈ روم میں تکیے کے نیچے رکھ دیتے۔ پارٹی کے کارکن ملنے آتے تو ان سے اہل وعیال کا حال پوچھتے اور پھر کارکن اجازت چاہتے تو آپ تکیے کے نیچے ہاتھ ڈالتے اور بغیر گنے نوٹوں کی بڑی تعداد رازداری سے ان کے ہاتھ میں تھما کر کہتے بچوں کے لیے میری طرف سے کچھ لے جانا۔
’اکثر ایسا ہوتا کہ مؤکلوں کی طرف سے جو رقم ملتی ضرورت مند کارکنوں کوتھما دیتے اور رات کو سر درد کی گولی ’ڈسپرین‘ لانے کے لیے اپنے ملازم کو شاہراہ قائداعظم پر واقع سب سے قدیم اور پرانی دکان ظہیر سنز کیمسٹ کے ہاں بھیجتے جو وہاں سے ’کریڈٹ‘ پر ’ڈسپرین‘ کا پتا لے کر آتا اور بعد میں اس کی ادائیگی کرتے۔‘
پچاس کی دہائی میں راولپنڈی سازش کیس میں سہروردی نے شاعر فیض احمد فیض اور دیگر ملزمان کی وکالت بھی کی۔
گرفتاری اور قید
انگریزی روزنامے ’ڈان‘ کے مطابق 30 جنوری 1962 کو سہروردی کو کراچی میں سکیورٹی آف پاکستان ایکٹ کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔
حکومت کے پریس نوٹ میں کہا گیا کہ ’مسٹر سہروردی کی حالیہ سرگرمیاں پاکستان کی سلامتی اور تحفظ کے لیے اتنی خطرناک تھیں کہ انھیں بآسانی غداری کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔‘
اس وقت سہروردی کی عمر 70 برس تھی۔
اگست میں سہروردی رہا کر دیے گئے۔ ایک پریس نوٹ میں کہا گیا کہ حکومت اب مطمئن ہے کہ ’مسٹر سہروردی آئندہ کسی بھی تخریبی سرگرمی میں حصہ نہیں لیں گے۔‘
وہ تقریباً ایک ماہ سے بخار میں مبتلا تھے۔
سات ماہ قید سے رہائی کے بعد سہروردی بحالی جمہوریت کے لیے سرگرم ہوئے۔ قومی جمہوری محاذ قائم کر کے ایوب مخالف سیاسی قوتوں کو اکٹھا کرنے کی کو شش کی۔ ایوب خان کے معتمد خاص الطاف گوہر کے بقول ’رہا ہوتے ہی انھوں نے جمہوریت کے احیا کے لیے ایک ملک گیر تحریک شروع کر دی جو خیبر سے چاٹگام تک پھیل گئی۔‘
ڈان نے ایک خط شائع کیا جو پہلی بار لاہور کی ایک ہفتہ وار اشاعت میں چھپا تھا۔ سہروردی نے ایوب خان کو لکھے گئے اس خط میں اپنی حراست کے دوران میں لگائے گئے الزامات کو چیلنج کیا۔
’جنابصدر، مجھے آپ کو وہ بات بتانی ہے جو آپ نہیں جانتے: پاکستان میری زندگی ہے۔ میرا یقین ہے کہ میں نے اس کے قیام میں ایک اہم کردار ادا کیا۔۔۔ اور بنگال کو مسلم لیگ قبول کرنے اور پاکستان کے لیے جدوجہد میں شامل کرنے کے لیے مجھے دن رات محنت کرنی پڑی، اپنی زندگی، صحت اور حفاظت کی پروا کیے بغیر۔‘
’مجھے یہ جان کر انتہائی صدمہ ہوا کہ مبینہ طور پر آپ نے ڈھاکا میں یہ بھی کہا ( اگرچہ اسے میری گرفتاری کی رسمی وجوہات میں شامل نہیں کیا گیا) کہ اس سے (یعنی سہروردی سے) کچھ بعید نہیں کہ اس نے پاکستان کے دشمنوں سے مالی امداد بھی حاصل کی ہو۔‘
’معاف کیجیے گا جناب صدر! کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ اس قدر سنجیدہ الزام عائد کرنے کے لیے آپ کے پاس کیا جواز تھا؟ غالباً آپ کا مطلب یہ ہے کہ میں مشرقی پاکستان کو انڈیا میں مدغم کرنے کے لیے انڈیا سے مالی امداد وصول کر رہا ہوں۔‘
’جناب صدر! اسے ایک بار دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے اور اللہ ہمارے درمیان خود ہی انصاف کر لے گا۔ اسی دنیا میں یا اگلے جہاں میں، کیونکہ آپ کے یہی جذبات ہیں تو پھر مجھے زندہ نہیں رہنا چاہیے۔‘
حسین شہید سہروردی کے بیٹے راشد سہروردی نے اختر بلوچ کو لکھا کہ جنوری 1963 میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد علاج کی غرض سے سہروردیبیرون ملک چلے گئے تھے۔ بالآخر نومبر میں بیروت میں ڈاکٹروں نے انھیں مکمل طور پر صحتیاب قرار دے دیا جس کے بعد انھیں دسمبر میں وطن واپسی کے لیے گرین سگنل مل گیا۔
5 دسمبر 1963کو آدھی راتکے قریب اُن کی حالت اچانک خراب ہو گئی۔ اس سے پہلے کہ انھیں کوئی طبی امداد پہنچائی جا سکتی وہ حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہوٹل ہی میں دم توڑ گئے۔
سرکاری موقِف یہی رہا کہ دل کے دورے کے باعث ان کی جان گئی ہے لیکن دانش اور وجاہت مسعود کے مطابقسہروردی کی موت جن حالات میں ہوئی وہ گہرے اسرار میں ملفوف ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ شیخ مجیب الرحمن سمیت بہت سے افراد اسے قدرتی موت تسلیم کرنے سے انکار کرتے تھے۔
’اگرچہ اس ضمن میں کوئی حتمی نتیجہ مرتب کرنا ممکن نہیں ہے لیکن دو واقعات ایسے ہیں جن سے اس شبے کو تقویت ملتی ہے کہ سہروردی کی موت طبعی نہیں تھی۔‘
ڈھاکہ کا وہ مقام جہاں حسین شہید سہروردی، اے کے فضل الحق اور خواجہ ناظم الدین دفن ہیں’ان دنوں ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر خارجہ تھے۔ ان کی شقاوت قلبی اور بے رحمی کہیں ایک عشرہ بعد پوری طرح سامنے آنا تھی لیکن انھوں نے پر پرزے نکالنا شروع کر دیے تھے۔ فرانسوا جیبرے سہروردی کے علاوہ بھٹو سے بھی دوستانہ تعلقات رکھتے تھے۔ بھٹو نے جیبرے سے کہا ’اس سے (سہروردی سے) کہو کہ پاکستان واپس آنے کی جرات نہ کرے ورنہ مجھے خود یہ انتظام کرنا پڑے گا کہ وہ پاکستان کی زمین پر قدم نہ رکھ سکے۔‘
مسعود کہتے ہیں کہ اس پیغام کو اس وقت اور بھی زیادہ اہمیت مل گئی جب سینٹرل انٹیلیجنس ڈیپارٹمنٹ کے ایک افسر نے، جو سہروردی خاندان سے دوستانہ روابط رکھتے تھے، بیگم اختر سلیمان سے کہا ’اپنے والد سے کہیے کہ محتاط رہیں۔ افواہیں اڑ رہی ہیں کہ حکمران ان کے لہو کے پیاسے ہو رہے ہیں۔‘
تین روز بعد سہروردی اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔
وجاہت مسعود کا کہنا ہے کہ غالباً سہروردی وجدانی سطح پر آنے والے حادثے سے باخبر ہو چکے تھے۔
ڈھاکا کے ممتاز بنگالی روزنامے ’اتفاق‘ کے مدیر مانک میاں کے نام ایک مکتوب میں 29 نومبر کو سہروردی نے لکھا ’مجھے امید ہے کہ میں جو کچھ لکھ رہا ہوں یہ میرے اور آپ کے درمیان رہے گا۔ اگر میری موت واقع ہو گئی تو میں اسے خوش قسمتی سمجھوں گا، جینے کا کوئی مقصد باقی نہیں رہا۔ اب میں کسی کے کام نہیں آ سکتا اور اگر جینا محض اپنے لیے ہو تو زندگی بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔‘
بعد میں ان کی بیٹی بیگم اختر سلیمان کا اخباری انٹرویو شائع ہوا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ سہروردی طبعی موت نہیں مرے تھے، بلکہ ان کو مروایا گیا تھا۔
رضوان طاہر مبین کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں سہروردی کی نواسیبیرسٹر شاہدہ جمیل کاکہنا تھاکہ ’وہ علاج کی غرض سے باہر گئے، انھیں جنوری میں لوٹنا تھا، لیکن وہ بیروت کے ہوٹل میں مردہ پائے گئے۔ حکام نے ہمیں کہہ دیا تھا کہ انھیں کسی صورت میں بھی واپس نہیں آنے دیں گے، لیکن وہ بولے کہ میں دھمکیوں سے نہیں رکوں گا۔۔۔‘
شاہدہجمیل نے کہا کہ اہلخانہ سہروردی کو ’مزار قائد‘ میں سپرد خاک کرنا چاہتے تھے، لیکن انھیں مغربی پاکستان میں کہیں بھی تدفین سے روک دیا گیا!
’پھر ’مشرقی پاکستان‘ میں ایک بڑے ہجوم نے اُن کی تدفین میں شرکت کی۔‘
’شیخ مجیب نے قتل کہہ کر اشتعال انگیزی کی کوشش کی، جس کے بعد ’اتفاق‘ اخبار (ڈھاکا) کے مدیر میاں تفضل حسین کی ہدایت پر میری والدہ نے ’تردید‘ کی، حالانکہ وہ ایسا نہیں سمجھتی تھیں، لیکن انھیں لگا کہ قوم پرستی سے سہروردی کی جدوجہد ضائع ہو جائے گی۔‘
تحریک پاکستان کے کارکن، وکیل اور سابق وفاقی وزیر یوسف خٹک نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ سہروردی نے انھیں ایک نہیں دو مرتبہ کہا تھا کہ ’آپ ایوب خاں سے کہیں کہ میں مرنے سے پہلے پاکستان کے لیے ایک آخری خدمت کرنا چاہتا ہوں۔‘
’میں چاہتا ہوں کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان ایک آئینی تصفیہ ہو جائے، ورنہ میرے بعد کوئی ایسی شخصیت نہیں ہو گی جو یہ خدمت انجام دے سکے۔ میں ایوب خان کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ میں پاکستان میں نہ رہوں تو اس کے بعد جب تک ایوب خان صدر ہوں میں ملک سے باہر چلے جانے کے لیے بھی تیار ہوں۔‘
ایوب خان نے سہروردی کی یہ پیشکش سُنی اَن سُنی کر دی۔
صحافی اور براڈ کاسٹر علی احمد خان نے ’جیون ایک کہانی‘ میں لکھا ہے کہ سہروردی کی وزارتِ عظمیٰ سے مشرقی بنگال کے عوام کی توقعات پوری نہیں ہوئیں لیکن اس کے باوجود وہی ایک رہنما تھے جو مشرقی اور مغربی پاکستان کو ایک لڑی میں پرو سکتے تھے۔
وہ وزیراعظم کی حیثیت سے سہروردی کی ڈھاکا کے پلٹن میدان میں تقریر کا حوالہ دیتے ہیں: ’مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں کوئی فرق نہیں ہے، ہم اوّل بھی پاکستانی ہیں اور آخر بھی۔‘