’انڈی گو‘ کبھی انڈیا کی کم قیمت فضائی صنعت کی کامیابی کی علامت تھی اور 60فیصد مارکیٹ شیئر کے ساتھ روزانہ دو ہزار سے زیادہ پروازیں آپریٹ کرتی تھی، تاہم اب ماہرین کے مطابق یہ کمپنی اپنا اعتماد اور خدمات کی شہرت کھونے کے خطرے سے دوچار ہے۔

گذشتہ ہفتے منجوری نامی خاتون اپنے شوہر کا تابوت لے کر ایئرپورٹ پہنچیں تاکہ کولکتہ میں اُن کے آبائی علاقے میں اُن کیآخری رسومات ادا کی جا سکیں۔
لیکن یہ مشکل سفر اُن کے لیے اُس وقت مزید ناقابلِ برداشت بن گیا جب انڈیا کی سب سے بڑی ایئر لائن 'انڈی گو' کی فلائیٹ میں تاخیر کے باعث پہلے وہ کئی گھنٹوں تک ایئرپورٹ پر پھنسی رہیں اور بلآخر ’انڈی گو‘ نے پرواز منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا۔
منجوری اُن ہزاروں مسافروں میں شامل تھیں جو انڈیا میں پروازں کی اچانک منسوخی کی جاری لہر کے باعث متاثر ہوئے ہیں اور اس معاملے نے انڈیا کی فضائی صنعت کو بدترین بحران کا شکار کر دیا ہے۔
پانچ دسمبر تک پروازوں میں تاخیر یا اُن کی منسوخی کے سلسلے نے اچانک زور پکڑا اور اس روز شام تک ایک ہزار سے زیادہ پروازوں کی منسوخی ہوئی۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد متاثر ہوئے اور لوگ شادیوں، جنازوں اور اہم امتحانات میں حصہ لینے سے محروم رہ گئے۔
’انڈی گو‘ کبھی انڈیا کی کم قیمت فضائی صنعت کی کامیابی کی علامت تھی اور 60فیصد مارکیٹ شیئر کے ساتھ روزانہ دو ہزار سے زیادہ پروازیں آپریٹ کرتی تھی، تاہم اب ماہرین کے مطابق یہ کمپنی اپنا اعتماد اور خدمات کی شہرت کھونے کے خطرے سے دوچار ہے۔
کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ’موڈیز‘ نے کہا کہ ’انڈی گو کو پروازوں کی منسوخی، رقوم کی واپسی، متاثرہ مسافروں کو معاوضے اور ممکنہ جرمانوں کی وجہ سے نمایاں مالی نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے۔‘
اور اس بحران کی جڑ حال ہی میں سامنے آنے والے ’کریو روسٹرنگ قوانین‘ ہیں، جن کے تحت پائلٹس اور کیبن کریو کو فلائٹس کے دوران زیادہ آرام دیا گیا ہے۔
انڈی گو پر الزام ہے کہ اس نے ان تبدیلیوں کے لیے بروقت منصوبہ بندی نہیں کی تھی اور اب اس صورتحال کے نتیجے میں کمپنی کو اپنے نصف سے زیادہ طیاروں کو زمین پر کھڑا کرنا پڑا یعنی پروازیں منسوخ یا لیٹ کرنا پڑیں۔
ان قوانین میں پائلٹس کے لیے ہفتہ وار آرام کا وقت 36گھنٹے سے بڑھا کر 48گھنٹے کر دیا گیا ہے اور رات کے وقت لینڈنگ کی حد چھ سے کم کر کے دو کر دی گئی ہے۔ یہ قوانین عملے کی جانب سے برسوں سے موصول ہونے والی تھکن کی شکایات کے بعد نافذ کیے گئے ہیں۔
انڈیا کے فضائی نگران ادارے نے تقریباً دو سال قبل نئے ڈیوٹی قوانین متعارف کرائے تھے تاکہ انھیں عالمی معیار کے مطابق بنایا جا سکے۔ ملک میں کام کرنے والی تمام ایئرلائنز کو یہ قوانین دو مراحل میں اپنانے تھے۔
دیگر بڑی ایئرلائنز جیسا کہ ایئر انڈیا کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ قوانین مکمل طور پر نافذ کر دیے ہیں، لیکن انڈی گو نے اعتراف کیا ہے کہ وہ بروقت ان قوانین پر عمل کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔
ایوی ایشن ماہر مارک مارٹن نے بی بی سی کو بتایا کہ 'انھوں نے یہ اس لیے نہیں کیا کیونکہ نئے قوانین اپنانے کے لیے انھیں سیکڑوں نئے پائلٹس بھرتی کرنے پڑتے اور اخراجات بڑھ جاتے؟ انھوں نے مزید کہا کہ ’انھیں قوانین نافذ کرنے کے لیے کئی ماہ کا نوٹس دیا گیا تھا۔ ان کے تمام حریف ایئرلائنز نے اس پر عمل کیا۔ انڈی گو کیوں پیچھے رہ گئی؟‘

گذشتہ دنوں کے دوران انڈی گو نے کئی بیانات میں اپنی پروازوں کی منسوخی پر معذرت کی اور اس ضمن میں درپیش ’غیر متوقع عملی مشکلات‘ کو تسلیم کیا۔
تاہم بی بی سی سے بات کرنے والے کم از کم تین انڈی گو پائلٹس نے کہا کہ یہ بحران ایک گہرے مسئلے کی عکاسی کرتا ہے، یعنی ایئرلائن کی جانب سے اخراجات بچانے کی کوششیں، چاہے اس کے نتیجے میں پائلٹ تھکن کا شکار ہی کیوں نہ ہو جائیں۔
ایک پائلٹ، جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے کمپنی کے ساتھ ہیں، نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’کچھ صنعتوں میں اوور ٹائم معمول ہو سکتا ہے، لیکن ایوی ایشن ایک انتہائی حفاظتی شعبہ ہے جہاں تھکن ایک خاموش قاتل ہے۔ اس کے اثرات کا پتہ تب چلتا ہے جب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔‘
ایئر ڈیکن کے بانی جی آر گوپیناتھ نے اکنامک ٹائمز میں لکھا کہ اخراجات پر توجہ کے علاوہ، انڈی گو کی جارحانہ توسیع، جس میں نئی بین الاقوامی پروازوں کا آغاز بھی شامل ہے ’شاید انتظامیہ کو آرام کے اصولوں جیسے ’بورنگ‘معاملات سے غافل کر گئی ہو۔‘
انھوں نے انڈی گو کی فضائی شعبے میں بلامقابلہ بالادستی کو بھی ان معاملات کا ذمہ دار ٹھہرایا، یاد رہے کہ انڈیا میں60فیصد مارکیٹ شیئر کے ساتھ انڈی گو سالانہ دس کروڑ مسافروں کو اُن کی منزل مقصود تک پہنچاتی ہے۔
گوپیناتھ نے لکھا کہ ’عملی طور پر یہ ایئرلائن اب ایک اجارہ داری ہے۔ اور اجارہ داری کے ساتھ جو چیز آتی ہے وہ ہے بے حسی۔‘

گذشتہ 15 برسوں میں انڈیا کی کئی ایئرلائنز جیسا کہ جیٹ ایئرویز، کنگ فشر اور گو ایئر، قرض یا ایندھن یا دیگر بھاری اخراجات کے بوجھ تلے ڈھیر ہو چکی ہیں۔ اور جب حریف ایئرلائنز میدان سے نکلتی گئیں تو انڈی گو نے تیزی سے مارکیٹ میں پیدا ہونے خلا کو پُر کیا اور چھوٹے شہروں اور ثانوی روٹس پر اپنے نیلے اور سفید جہازوں کو فضائی سفر کی علامت بنا دیا۔
مارکیٹ کی بدلتی ہوئی صورتحال نے کمپنی کو وہ مارکیٹ شیئر فراہم کیا جو دہائیوں سے کسی انڈین ایئرلائن کے پاس نہیں تھا۔
تاہم ریٹنگ ایجنسی 'موڈیز' کے مطابق، کمپنی کے کم خرچ آپریشنز، جو عام حالات میں لاگت بچانے میں مددگار تھے، ’ان نئے قوانین کے لیے درکار لچک سے محروم تھے، جس کے نتیجے میں نظام کی مکمل بحالی کی ضرورت پیش آئی اور پانچ دسمبر کو تقریباً 1,600 پروازیں منسوخ کرنا پڑیں۔‘
بحران بڑھنے پر انڈی گو نے فروری تک نئے قوانین سے ایک بار کی چھوٹ حاصل کر لی اور کہا کہ 10 سے 15 دسمبر کے درمیان اُن کے آپریشنز مستحکم ہو جائیں گے۔
لیکن پائلٹس ایسوسی ایشن آف انڈیا نے ریگولیٹر کو ایک سخت الفاظ میں لکھے گئے خط میں کہا کہ یہ اقدام نئے قوانین کی اصل روح کو نقصان پہنچاتا ہے ’اور پروازوں کی حفاظت کو سنگین طور پر متاثر کرتا ہے۔‘
بی بی سی نے انڈی گو سے پائلٹس کے تبصروں اور ایسوسی ایشن کے خط میں کیے گئے دعووں پر جواب مانگا، لیکن کمپنی نے انکار کر دیا۔
ماہرین نے بی بی سی کو بتایا کہ انڈی گو کو سنبھلنے میں برسوں لگ سکتے ہیں، اور اس کے مالیات کے نظام اور شہرت پر اس کے دیرپا اثرات مرتب ہوں گے۔

آن لائن کمیونٹی پلیٹ فارم 'لوکل سرکلز' کے حالیہ سروے کے مطابق، گذشتہ 12 ماہ میں ایئرلائن کے ساتھ سفر کرنے والے 54فیصد مسافروں نے وقت کی پابندی جیسے مسائل کی شکایت کی اور موڈیز کے مطابق، کمپنی کی وقت پر پروازوں کی شرح اکتوبر میں 84فیصد سے گر کر نومبر میں68فیصد تک پہنچ گئی۔
بحران کے آغاز سے ہی انڈی گو کے شیئرز ممبئی میں گر گئے ہیں، کیونکہ سرمایہ کاروں کو خدشہ ہے کہ آپریشنل رکاوٹوں اور نئے قوانین کے تحت عملے کے بڑھتے ہوئے اخراجات سے لاگت میں اضافہ ہو گا۔
سب سے بڑا چیلنج اب لاکھوں مسافروں کا اعتماد بحال کرنا ہے، جو اس برانڈ پر بھروسہ کرتے تھے۔
ایوی ایشن ماہر مارٹن نے کہا کہ ’انڈی گو نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے اور اپنی برانڈ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ دیگر ایئرلائنز انڈی گو کے مسافروں کو اپنی طرف کھینچیں گی۔‘
ایئر انڈیا اور سپائس جیٹ پہلے ہی متاثرہ انڈی گو مسافروں کو سہولت دینے کے لیے سینکڑوں اضافی پروازوں کا اعلان کر چکی ہیں۔
مارٹن کے مطابق، موجودہ صورتحال میں کمپنی کو پائلٹ کی خالی آسامیوں کو پُر کرنے میں بھی مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
پیر کے روز یہ معاملہ انڈین پارلیمنٹ میں زیرِ بحث آیا، جہاں انڈیا کے وزیرِ ہوا بازی نے ایئرلائن کو ’انتہائی سخت کارروائی‘ کی وارننگ دی۔
انڈیا کے فضائی نگران ادارے نے انڈی گو کو شوکاز نوٹس جاری کیا ہے، جس میں ’منصوبہ بندی اور نگرانی میں سنگین کوتاہیوں‘ کا ذکر ہے اور مبینہ طور پر کمپنی کو اپنی پروازوں کا شیڈول پانچ فیصد کم کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
یہ واضح نہیں کہ ایئرلائن کو کس طرح جواب دہ بنایا جائے گا، لیکن ایوی ایشن ماہر امیہ جوشی کے مطابق یہ ریگولیٹر کے لیے ’ایک سنہری موقع ہے کہ وہ انڈی گو کو مثال بنا کر پیش کرے۔‘
جوشی نے کہا ’ہمارے سامنے ایک ایسی ایئرلائن ہے جو مالی طور پر مستحکم ہے لیکن ایک بنیادی کام کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ملک اور شہری ابریگولیٹر اور وزارت کی طرف دیکھ رہے ہیں۔‘