عمران خان کے بیٹوں کے انٹرویو پر وزیر اعظم کے ترجمان کا بیان: ’جیل میں 870 ملاقاتیں ہوئیں، یہ قید تنہائی نہیں‘

دو سال سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کے اہل خانہ، وکلا اور سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف اکثر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھیں ’قید تنہائی‘ میں رکھا گیا ہے۔ لیکن پاکستانی حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق عمران خان کی جیل میں اب تک 870 ملاقاتیں ہوئی ہیں۔
عمران خان، قید
Getty Images

دو سال سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کے اہل خانہ، وکلا اور سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف اکثر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انھیں ’قید تنہائی‘ میں رکھا گیا ہے۔ لیکن پاکستانی حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق عمران خان کی جیل میں اب تک 870 ملاقاتیں ہوئی ہیں۔

گذشتہ ہفتوں کے دوران کبھی عمران خان کی صحت کے بارے میں افواہیں گردش کرتی رہی ہیں تو کبھی انھیں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے کہیں اور منتقل کرنے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ اسی دوران پی ٹی آئی کی جانب سے یہ دعوے بھی کیے جاتے ہیں جیل میں ان کو مناسب سہولیات میسر نہیں ہیں۔

دو دسمبر کو تقریباً ایک مہینے بعد سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی ملاقات ان کی بہن عظمیٰ خان سے کروائی گئی تھی جس کے بعد صحافیوں سے مختصر بات کرتے ہوئے عظمیٰ خان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی ’صحت الحمد اللہ ٹھیک ہے مگر وہ بہت غصے میں تھے اور کہہ رہے تھے کہ انھیں ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘

عظمیٰ خان کے مطابق ان کی عمران خان سے ملاقات 20 منٹ پر محیط تھی اور انھیں ان کے بھائی نے مزید بتایا کہ انھیں ’پورا دن کمرے میں بند رکھا جاتا ہے، صرف تھوڑی دیر کمرے سے نکلنے دیا جاتا ہے۔‘

گذشتہ روز بھی راولپنڈی کی اڈیالہ روڈ پر عمران خان کی بہنوں اور پی ٹی آئی کے کارکنان کی جانب سے سابق وزیراعظم سے ملاقات نہ کروائے جانے کے خلاف دھرنا دیا گیا تھا، جسے بعد میں پولیس نے لاٹھی چارج اور واٹر کینن کا استعمال کرتے ہوئے ختم کروایا۔

یاد رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے احکامات کی روشنی میں منگل کے روز عمران خان کی فیملی اور جمعرات کو ان کے وکلا اور پارٹی رہنماوں کے لیے ملاقاتوں کا شیڈول طے ہے تاہم شیڈول کے مطابق ملاقاتیں نہ ہونے پر عمران خان کی بہنیں اور پارٹی کارکنان متعدد بار اڈیالہ روڈ پر دھرنا دے چکے ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان گذشتہ دو سال سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور انھیں 190 ملین پاؤنڈز یا القادر ٹرسٹ کیس کے مقدمے میں دس سال کی سزا سنائی گئی تھی۔

اس دوران عمران خان کی جماعت کئی بار یہ الزام عائد کر چکی ہے کہ جیل میں قید سابق وزیراعظم کو میسر سہولیات بھی کافی نہیں جس کی متعدد بار موجودہ حکومت نے تردید بھی کی۔

برطانیہ میں مقیم عمران خان کے بیٹوں نے بھی ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ جیل میں قید ان کے والد کے لیے حالات سازگار نہیں۔

سابق وزیرِ اعظم اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کے بیٹوں قاسم خان اور سلیمان خان کا کہنا ہے کہ ان کے والد کو جن حالات میں جیل میں رکھا گیا ہے وہ ’انتہائی شرمناک‘ ہے۔

’عمران خان کو پینے کے لیے گندا پانی دیا جاتا ہے‘

سکائی نیوز کی یلدا حکیم کو دیے ایک انٹرویو میں عمران خان کے بیٹوں سلیمان اور قاسم نے اپنے والد کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی۔

عمران خان کے چھوٹے بیٹے قاسم نے انٹرویو میں بتایا کہ ان کے والد کو پینے کے لیے گندا پانی دیا جاتا ہے جبکہ کھانے کا معیار بھی انتہائی خراب ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کو اپنے ذاتی معالج تک رسائی حاصل نہیں۔

سلیمان کا دعویٰ ہے کہ ان کا والد کو اس کوٹھری میں رکھا گیا ہے جس میں سزائے موت کے قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اِن چھوٹی چھوٹی کوٹھریوں میں مشکل سے دن کی روشنی آتی ہے اور اکثر بجلی بھی کاٹ دی جاتی ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی تشدد سے متعلق خصوصی نمائندہ ایلس جِل ایڈورڈز کی جانب سے جاری بیان میں بھی کہا گیا تھا کہ 26 ستمبر 2023 کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل منتقل کیے جانے کے بعد سے عمران خان کو مبینہ طور پر حد سے زیادہ قید تنہائی میں رکھا گیا ہے جہاں انھیں دن میں 23 گھنٹے ان کے سیل میں رکھا جاتا ہے جبکہ بیرونی دنیا تک ان کی رسائی بھی انتہائی محدود ہے۔

اقوامِ متحدہ کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے تحت طویل یا غیر معینہ قید تنہائی ممنوع ہے۔

انھوں نے مطالبہ کیا تھا کہ ’بنا کسی تاخیر کے عمران خان کی قید تنہائی ختم کی جائے۔‘

دوسری جانب پاکستان کی موجودہ حکومت عمران خان کے ساتھ کسی بھی قسم کے ناروا سلوک کی تردی کرتی آئی ہے۔ حکومتی نمائندوں کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ عمران خان کو جیل میں دوسرے قیدیوں کی نسبت کہیں زیادہ سہولتیں دستیاب ہیں۔

کیا آپ کو لگتا ہے کہ عمران خان کبھی جیل سے باہر آ سکیں گے؟

برطانوی ٹی وی چینل سکائی نیوز کی میزبان نے یہ سوال جب پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کے بیٹوں کے سامنے رکھا تو انھوں نے جواب دیا کہ ایسا ’مشکل‘ نظر آ رہا ہے۔

عمران خان کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے جب یلدا حکیم نے ان سے براہ راست یہ سوال کیا تو سابق وزیراعظم کے چھوٹے بیٹے قاسم نے اس کا جواب کچھ یوں دیا:

’اس وقت باہر نکلنے کا راستہ مشکل ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں لیکن حالات بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ جن لوگوں کے پاس طاقت ہے ان کا رویہ مزید سخت ہوتا جا رہا ہے۔ ان کا باہر نکلنا بہت مشکل نظر آ رہا ہے اور ہم اس بارے میں مشورہ لینے کے لیے جن لوگوں سے بات کر رہے ہیں وہ اس بارے میں زیادہ پر امید نہیں۔ ہم اب پریشان ہیں کہ شاید ہم انھیں دوبارہ کبھی نہ دیکھ پائیں۔‘

’عمران خان کی جیل میں 870 ملاقاتیں ہوئیں، یہ قید تنہائی نہیں‘

اس حوالے سے سکائی نیوز نے وزیر اعظم شہباز شریف کے ترجمان مشرف زیدی سے بات کی۔ ان سے عمران خان کو ’قید تنہائی‘ میں رکھے جانے سے متعلق سوالات کیے گئے۔

اس پر مشرف زیدی کا کہنا تھا کہ عمران خان قریب 860 روز سے جیل میں ہیں اور اصولاً انھیں ہر ہفتے ایک ملاقات کی اجازت ہونی چاہیے مگر انھوں نے ’112 ہفتوں کے دوران 870 ملاقاتیں کی ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ عمران خان نے اپنی بہنوں سے ’137 ملاقاتیں کی ہیں جن میں سے 45 علیمہ، 49 عظمیٰ اور 43 نورین کے ساتھ ہوئیں۔‘

مشرف زیدی کا کہنا تھا کہ عمران خان نے اپنی بہنوں سے لگ بھگ 140 ملاقاتیں کی ہیں جو کہ ’کہیں سے بھی قید تنہائی نہیں لگ رہا۔‘

انھوں نے کہا کہ عمران خان نے اپنے وکلا سے 451 ملاقاتیں کی ہیں جبکہ 30 سے زیادہ مرتبہ ڈاکٹروں نے ان کا طبی معائنہ کیا ہے۔ ’اس میں کوئی فوجی ڈاکٹر شامل نہیں تھے۔ ان کے ذاتی معالج نے بھی کئی بار ان کا معائنہ کیا ہے۔‘

مشرف زیدی کا کہنا تھا کہ عمران خان کے بیٹوں اور اقوام متحدہ کے ماہرین کو ’گمراہ کیا گیا ہے۔۔۔ تین ہفتوں تک ملاقاتیں معطل رہی تھیں کیونکہ ہر ملاقات کے دوران امن و امان کی صورتحال پیدا ہوتی تھی۔ وکلا اور خاندان کی عمران خان سے ہر ملاقات سیاسی ملاقات بن جاتی ہے۔‘

انھوں نے جیل مینوئل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’ملاقات کے دوران سیاسی امور پر بات چیت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

مشرف زیدی نے یہ بھی بتایا کہ جیل میں جانے کے بعد سے عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ سے 775 پیغامات جاری کیے گئے ہیں۔

جب یلدا حکیم نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ انھیں عمران خان سے انٹرویو کرنے کی اجازت دیں گے تو وزیر اعظم کے ترجمان نے جواب دیا کہ’ہم آپ کو برسرِ اقتدار وزیر اعظم سے انٹرویو دلائیں گے۔ جیل کے قوانین کے مطابق میرا نہیں خیال ہم سکائی نیوز کو عمران خان کے ساتھ انٹرویو دلوا پائیں گے۔‘

’جب آپ سزا یافتہ مجرم ہوں تو جیل کا مقصد آپ کی آزادی ختم کرنا ہوتا ہے۔‘

’عمران خان حکومت کے لیے سکیورٹی رِسک ہیں‘

سوشل میڈیا پر صارفین نے اس انٹرویو پر تبصرے کیے ہیں۔

جیسے تجزیہ کار نصرت جاوید کا کہنا ہے کہ ’پہلی بار عمران خان کے بیٹوں نے عندیہ دیا کہ اگر ان کے والد کے ساتھ بُرا ہوا تو وہ پاکستان آ کر سیاست میں حصہ لیں گے۔ ’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے اندر معاملات خاندانی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کا طویل عرصے سے موقف رہا تھا اور وہ خاندانی سیاست کی مذمت کرتے تھے۔‘

خیال رہے کہ انٹرویو کے دوران یلدا حکیم نے مشرف زیدی کو ان کے پرانے ٹویٹس بھی دکھائے جن میں وہ عمران خان کو قید کیے جانے پر تنقید کر رہے تھے۔ اس پر مشرف زیدی کا کہنا تھا کہ تب سے اب تک بہت کچھ بدل چکا ہے اور پاکستان پر ’اس کے سائز کے مقابلے 10 گنا بڑے ملک نے حملہ کیا اور اس نے اپنا دفاع کیا۔ ایران سے بھی حملہ ہوا اور افغانستان سے مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ پاکستانی حکام کے لیے سیاسی و سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کا طریقہ بدل چکا ہے۔

وکیل عبدالمعیز جعفری نے تبصرہ کیا کہ وزیر اعظم کے ترجمان نے ’شاید یہ کہا ہے کہ عمران خان ہمیشہ سے سکیورٹی رِسک رہے ہیں، تب بھی جب انھوں نے عمران خان کی گرفتاری کی مذمت کی تھی۔‘

عمار مسعود نے رائے دی کہ پاکستانی حکومت کو مشرف زیدی ’جیسی آوازوں کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کا عالمی سطح پر بیانیہ بنایا جا سکے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US