انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا کہنا پاکستانی خاتون کی جانب سے شادی کی پیشکش پر انڈیا کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی نے کہا تھا کہ اگر وہ جہیز میں پور پاکستان لے آئیں تو وہ شادی کے لیے تیار ہیں۔ سوشل میڈیا پر صارفین کا کہنا ہے کہ وزیر دفاع کا بیان فلمی ڈائیلاگ ہے حقیقت نہیں ہے۔
’بہنوں بھائیو، ایک بار جب اٹل (بہاری واجپائی) جی پاکستان کے دورے پر تھے تو ایک خاتون نے اُن سے متاثر ہو کر کہا کہ آپ مجھ سے شادی کر لیں مگر منھ دکھائی میں مجھے کشمیر دے دیں۔ انھوں (اٹل بہاری) نے کہا کہ میڈم میں بھی آپ سے شادی کرنے کو تیار ہوں، لیکن جہیز میں مجھے پورا پاکستان چاہیے۔۔۔ اٹل جی میں غضب کی حسِ مزاح تھی۔‘
انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا یہ حالیہ بیان سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے۔
راج ناتھ سنگھ دراصل انڈیا کے شہر لکھنؤ میں سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کے یومِ پیدائش (25 دسمبر 1924) کی مناسبت سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے اور اپنی تقریر میں وہ واجپائی کو خراج عقیدت پیش کر رہے تھے۔
تقریب میں وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ مختلف واقعات بتا کر آنجہانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی حسِ مزاح اور حاضر جوابی کی داد دے رہے تھے۔
راج ناتھ سنگھ کی جانب سے بظاہر تقریب میں اس واقعے کا ذکر کرنے کا مقصد واجپئی کی حاضر جوابی کی داد دینا تھا لیکن سوشل میڈیا پر صارفین کو یہ مزاح کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔
چند صارفین نے اس تبصرے کو مشرقی ایشیائی ممالک بشمول پاکستان اور انڈیا میں جہیز دینے جیسی روایت کے فروغ کے طور پر بیان کیا جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ ایک ذمہ داروزیر کا اس طرح ازراہ تفنن ایسے واقعے کا تذکرہ کرنا غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔
سوشل میڈیا سائٹ ’ایکس‘ پر ایک صارف عمران گلزار نے لکھا کہ ’وزیر دفاع جیسے اعلیٰ عہدے دار کا غیر تصدیق شدہ لوک داستانوں کو تاریخی حقیقت کے طور پر بیان کر انتہائی تشویشناک ہے۔ غلط معلومات کے دور میں، کسی قوم کی قیادت کو فکری ایمانداری اوردرستگی کے اعلیٰ معیار پر فائز ہونا چاہیے۔‘
مشرف دورہ انڈیا کے دوران واجپائی سے اُن کی رہائش گاہ پر ملاقات کر رہے ہیںجومن باتھری نامی صارف نے لکھا کہ ’بی جے پی کے رہنما کتنے عام سے انداز میں یہ بات کر رہے ہیں جیسا کہ جہیز مانگنا صحیح ہو۔‘
ایکس پر عبداللہ شاہد نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ (شادی کا واقعہ) ایک فلم کا ڈائیلاگ ہے، حقیقت نہیں ہے۔ بالی وڈ ہمارے رہنماؤں کے دماغ پر سوار ہو گیا ہے۔‘
یاد رہے کہ لگ بھگ دو برس قبل انڈیا میں سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کی زندگی پر ایک فلم بنائی گئی تھی جس کا نام تھا ’میں اٹل ہوں۔‘
فلم کے ٹریلر میں دکھائے گئے ایک سین میں واجپئی ایک پریس کانفرنس میں شریک ہیں، جہاں پاکستان لباس میں ملبوس ایک خاتون انھیں شادی کی مشروط پیشکش کرتی ہیں۔
فلم میں وہ خاتون جو بظاہر صحافی لگ رہی ہیں، کہتی ہیں کہ ’ہم آپ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن ہمیں منہ دکھائی میں کشمیر چاہیے۔‘
جس کے جواب میں واجپئی کہتے ہیں کہ ’ہم بھی آپ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن ہمیں جہیز میں پورا پاکستان چاہیے۔‘
’میں اٹل ہوں‘ نامی فلم کے ڈائریکٹر روی یادہو ہیں اور یہ فلم جنوری 2024 میں ریلیز ہوئی تھی۔
راگہابرسینگھ نامی ایک صارف نے کہا کہ ’الیکشن کے وقت بے جے پی نے ملازمتیں دینے اور ترقی کا وعدہ کیا تھا اور اب یہ واجپئی کی پاکستان جہیز کی کہانی سنا رہے ہیں، یہ عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے ہے، تاکہ بڑے کاروباری افراد اور وزیروں کے معاملات کو بہتر کرنے کی اصلاحات نہ کی جا سکیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’کام کر کے دکھائیں باتیں نہ کریں۔‘

واجپئی کی سالگرہ کی تقریب میں کیا ہوا؟
انڈیا کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی 25 دسمبر 1924 میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ انڈیا میں ہندو نظریات رکھنے والی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے پہلے وزیراعظم بنے تھے۔
لکھنؤ میں واجپئی کی سالگرہ کی مناسبت سے ہونی والی تقریب میں شریک انڈیا کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے واجپائی کی شاعری، انسان دوستی اور بھرپور حسِ مزاح پر بات چیت کی۔
انھوں نے کہا کہ ’اٹل جی بہتریت شخصیت کے مالک اور شاعر تھے، جن کی نظمیں دلوں کو چھو لیتیں اور وہ ہر ایک کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔‘
راج ناتھ سنگھ نے مزید کہا کہ اٹل بہاری واجپئی نے دسویں جماعت میں پہلی نظم لکھی اور زندگی کے شور شرابے اور مصروفیات میں بھی وہ شاعری کرتے اور اپنا اشعار کے ذریعے بڑے اہم پیغامات دیتے تھے، جیسا کہ اُنھوں نے ایک مشہور جملے میں کہا کہ ’چھوٹے من سے کوئی بڑا نہیں ہوتا، ٹوٹے من سے کوئی کھڑا نہیں ہوتا۔‘
اُن کے بقول اٹل بہاری واجپئی نے کبھی بھی مشکلات میں ہار نہ ماننے اور جھکنے کے بجائے، شائستگی سے اپنی بات کہنے کو اہم سمجھا۔
ایک اور واقعے کو بیان کرتے ہوئے راج ناتھ سنگھ نے پاکستان کا ذکر کیا انھوں نے بتایا کہ ’واجپئی پاکستان میں بھی مقبول تھے اور ایک بار پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے انھیں کہا کہ آپ تو اتنے مقبول ہیں کہ آپ تو پاکستان میں بھی الیکشن لڑ سکتے ہیں۔‘
انڈیا کے وزیر دفاع نے کہا کہ اٹل بہاری واجپئی ایک عظیم رہنما تھے اور وہ اتنی متاثر کن شخصیت کے مالک تھے کہ اُن کی سالگرہ کے موقع پر منعقدہ اس تقریب میں بھی ماحول بوجھل اور افسردہ نہیں ہے، بلکہ ہم اُن کی باتیں یاد کر کے مسکرا رہے ہیں۔
واجپئی: بہترین مقرر اور اعتدال پسند رہنما

اٹل بہاری واجپئی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک معمولی شاعر لیکن غیرمعمولی رہنما تھے جن کی زندگی ایک معمہ ہی رہی۔
وہ تین مرتبہ انڈیا کے وزیراعظم بنے اور سنہ 2004 میں بی جے پی کی غیر متوقع شکست کے بعد ان کی سیاسی زندگی کا سفر اپنے اختتام کو پہنچنا شروع ہو گیا تھا۔
تو کیا وہ کٹر ہندوتوا کے علم بردار تھے یا ایک ایسے اعتدال پسند رہنما جو اپنی پارٹی کے سخت گیر نظریات کے باوجود وہ راستہ اختیار کرنا چاہتے تھے جس پر سب کو ساتھ لے کر چلنے کی گنجائش ہو؟
اس سوال کا واضح جواب تو شاید کسی کے پاس نہ ہو۔ لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ وہ آزاد ہندوستان کے سب سے قد آور رہنماؤں میں سے ایک تھے۔
انھوں نے اپنے دور اقتدار میں پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی اور ایک بس میں سوار ہو کر لاہور گئے۔ اس کے فوراً بعد کارگل کی لڑائی ہوئی اور واجپئی اور ان کی حکومت کو ملک کی سرحدوں کی نگہبانی میں ناکام رہنے کے الزام کا سامنا کرنا پڑا۔
واجپئی کے دور میں ہی ہندوستان کی پارلیمان پر حملہ ہوا اور دونوں ملک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے لیکن پھر انھوں نے ہی لائن آف کنٹرول پر فائربندی کا معاہدہ کیا جس کے نتیجے میں دس سال سے زیادہ عرصے تک سرحدوں پر بڑی حد تک خاموشی رہی۔
واجپئی ہی وزیراعظم تھے جب انڈیا کے ایک طیارے کو ہائی جیک کر کے کابل لے جایا گیا اور مسافروں کو رہا کرانے کے لیے انڈیا نے مولانا مسعود اظہر سمیت تین قیدیوں کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
انہی کے دور اقتدار میں ہندوستان نے جوہری دھماکے کیے اور مغربی دنیا نے انڈیا کے خلاف پابندیاں عائد کیں۔ اس کے چند دن بعد ہی پاکستان نے بھی جواب میں جوہری آزمائشی دھماکے کیے اور دونوں ملک اعلان شدہ جوہری طاقتوں کی فہرست میں شامل ہو گئے۔
اٹل بہاری واجپئی کو شاعری کا شوق تھا لیکن وہ سب سے زیادہ تقریر کرنے کے اپنے بے مثال انداز کے لیے مشہور تھے۔ وہ بولنے کھڑے ہوتے تو لوگ خاموشی سے سنتے تھے۔ بہت سے لوگ کہتے کہ دوران تقریر دو الفاظ کے بیچ میں وہ اتنی دیر کے لیے خاموش ہو جاتے کہ لگتا کہ جملہ پورا کریں گے بھی یا نہیں!
لیکن حالات کتنے بھی کشیدہ ہوں اور موضوع کتنا بھی حساس، انھوں نے کبھی الفاظ کے انتخاب میں تہذیب کا دائرہ پار نہیں کیا۔ وہ ’مریادا‘ کا خاص خیال رکھتے تھے، چاہے نشانے پر کوئی بھی ہو۔