پولینڈ میں ان کے گاؤں پر قبضہ کرنے والے نازیوں کے ہاتھوں پکڑے جانے اور بالآخر مارے جانے سے بچنے کے لیے ایک 12 سالہ یہودی لڑکا تقریباً دو سال تک جنگل میں چھپنے پر مجبور ہوا۔
اوزیئک کی عمر محض 12 برس تھی جب وہ اپنی زندگی بچانے کی خاطر جنگل میں روپوش ہوئے، آج وہ کینیڈا کی ایک کاروباری شخصیت ہیںایک 12 سالہ یہودی لڑکے کو تقریباً دو برس تک جنگل میں چھپ کر زندگی گزارنی پڑی تاکہ وہ اُن نازی فوجیوں کے ہاتھوں گرفتار اور قتل ہونے سے بچ سکے جنھوں نے اُس کے گاؤں پر قبضہ کر لیا تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے آغاز کے بعد، پولینڈ کے گاؤں بُچزچ (جو اب یوکرین کے مغربی علاقے میں بُچاخ کہلاتا ہے) پر سوویت فوج نے قبضہ کر لیا تھا اور یہ اقدام ہٹلر اور سٹالن کے درمیان اُس خفیہ معاہدے کے تحت ہوا تھا جس کا مقصد پولینڈ کو تقسیم کرنا تھا۔
ستمبر 1939 میں جرمن فوج نے پولینڈ کے مغربی اور شمالی حصوں پر حملہ کیا جبکہ سوویت فوج پولینڈ کے مشرقی حصے پر قابض ہو گئی۔ تاہم بعدازاں صورتحال بدلی اور سنہ1941 میں جرمنی نے سوویت یونین کے خلاف کارروائی شروع کی اور بُچزچ پر نازی فوج اور ٹینکوں نے قبضہ کر لیا اور اس کے بعد یہودی آبادی کو تلاش کر کے گرفتار اور قتل کیا جانے لگا۔
اسی دوران جب گاؤں کے یہودیوں کو ایک ٹرک میں بھر کر حراستی کیمپوں کی طرف لے جایا جا رہا تھا تو کم عمر اوزیئک فروم کو اپنی جان بچانے کے لیے فرار ہونا پڑا۔
اوزیئک فروم 1930 پیدا ہوئے تھے، اُن کی والدہ چیک ریپبلک جبکہ والد پولینڈ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ خاندان اُس وقت کے چیکوسلوواکیہ سے نقل مکانی کر کے بُچزچ آ گیا، جو اُس وقت پولینڈ کا حصہ تھا اور آج یوکرین میں شامل ہے۔
اوزیئک فروم، جو آج میکسویل کے نام سے جانے جاتے ہیں، کی ذہن میں آج بھی اپنے بچپن کی خوشگوار یادیں محفوظ ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کے پروگرام ’آؤٹ لُک‘ کو بتایا کہ ’ہمارے گھر میں بجلی نہیں تھی، موم بتیاں جلتی تھیں۔ سفید میز پر ہمیشہ ایک چاندی کا کینڈل سٹینڈ رکھا ہوتا تھا۔ ہر جمعہ کی شام والدین، دادا اور دادی کے ساتھ کھانے کا اہتمام ہوتا تھا۔ وہ ناقابلِ فراموش شامیں تھیں۔ کھانا بہترین ہوتا تھا، میری والدہ بہت اچھا کھانا بناتی تھیں۔‘
اوزینک کے گھر میں کردار واضح طور پر تقسیم تھے، یعنی ماں شفقت کرنے والی تھیں جبکہ والد سختی کرنے والے۔
’وہ (والد) صرف ایک ہی سوال پوچھتے تھے کہ سکول کیسا جا رہا ہے؟ کھیلنے کا وقت نہیں ہوتا تھا۔ میری والدہ ہی تھیں جو کھانا پکاتیں، گھر کا انتظام سنبھالتیں، مجھے پڑھنا سکھاتیں اور سکول کے کام میں مدد کرتیں۔ میں اُن سے محبت کرتا تھا اور وہ مجھ سے۔ لیکن اُن کے بے شمار بوسے مجھے دوسروں کے سامنے شرمندہ کر دیتے تھے۔‘
اوزینک نے اپنی زندگی کے دو سال جنگل میں رہتے ہوئے گزارےظلم و ستم
دوسری عالمی جنگ کے آغاز کے کچھ ہی عرصے بعد، ستمبر 1939 میں اُن کے شہر پر سوویت فوج نے قبضہ کر لیا، مگر اس خاندان کو کسی بڑے خطرے کا احساس نہ ہوا۔ تاہم جولائی 1941 میں سوویت فوج پیچھے ہٹ گئی اور نازی فوج نے شہر کو اپنے قبضے میں لے لیا۔
اوزیئک کے مطابق، سوویت فوج نے اُن کے خاندان کو جرمن پیش قدمی سے بچنے کے لیے محفوظ راستہ فراہم کرنے کی پیشکش کی، لیکن اُن کی والدہ، جو خاندان کی سربراہ بھی تھیں، نے انکار کر دیا۔
’انھوں (والدہ) نے کہا کہ ’میں گھر نہیں چھوڑ سکتی۔ روسی فوجی دو سال یہاں رہے اور کچھ بڑا نہیں ہوا۔ اب کیا ہو سکتا ہے؟‘ یہ اُن کی سب سے بڑی غلطی تھی جس کی قیمت میرے خاندان کے 62 افراد کی اپنی جانیں گنوا کر ادا کی،مجھے یاد ہے کہ میرے والدہ کے اس فیصلے کے دو دن بعد جرمن آ گئے اور سب کچھ بدل گیا۔‘
نازی قبضے کے تین ہفتے بعد نئی حکومت نے اعلان کیا کہ 18 سے 50 سال کے تمام یہودی پولیس سٹیشن میں رجسٹریشن کرائیں۔ سینکڑوں افراد وہاں پہنچے، جن میں اوزیئک کے والد بھی شامل تھے۔ ان مردوں کو ٹرکوں میں بھر کر لے جایا گیا۔
اس وقت بُچزچ میں تقریباً آٹھ ہزار یہودی رہتے تھے۔ خاندانوں کو بتایا گیا کہ مردوں کو جرمنی مزدوری کے لیے لے جایا گیا ہے، لیکن حقیقت میں انھیں شہر سے باہر لے جا کر قتل کر دیا گیا۔
اس کے بعد اوزیئک فروم کا خاندان، اس علاقے کے دیگر یہودی خاندانوں کی طرح، شہر کے ایک خستہ حال علاقے میں قائم عمارت میں منتقل ہونے پر مجبور ہوا۔
اوزینک بتاتے ہیں کہ ’ہم چار افراد تھے: میری والدہ، پانچ سالہ بہن، دادا اور میں۔ اس کمرے میں ہم چار مزید لوگوں کے ساتھ رہتے تھے۔ یعنی دو خاندان ایک ہی کمرے میں۔‘
نومبر 1942 میں نازی فوج نے اس عمارت پر بھی =چھاپے مارنے شروع کیے تاکہ یہودیوں کو گرفتار کر کے حراستی کیمپوں میں بھیجا جا سکے۔
ایک دن، نازی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے اُس عمارت پر دھاوا بولا جہاں اوزیئک کا خاندان اور دیگر یہودی خاندان مقیم تھے۔
’چیخ و پکار ناقابلِ برداشت تھی۔ بچے رو رہے تھے۔ نازی اہلکار ہمارے کمرے میں داخل ہوئے اور ہمیں باہر نکالنے لگے۔ میرا دادا بیمار اور نابینا تھے۔ انھوں نے انھیں دھکا دیا تو وہ سیڑھیوں سے گر گئے اور دوبارہ اٹھ نہ سکے۔ پھر ایک پولیس اہلکار رائفل لے کر آیا اور انھیں وہیں گولی مار دی۔ یہ منظر ہمیشہ کے لیے میری یادوں میں نقش ہو گیا۔‘
اوزیئک، اُن کی والدہ اور بہن کو جیل لے جایا گیا، جہاں اُن کے مطابق پہلے ہی 300 سے 400 افراد موجود تھے۔ وہ دو دن تک بغیر کھانے کے فرش پر بیٹھے رہے، یہاں تک کہ دروازے کھولے گئے اور سب کو باہر نکلنے پر مجبور کیا گیا۔
’ہم باہر نکلے، ہر طرف افراتفری تھی۔ لوگ چیخ رہے تھے، ٹرکوں کی طرف دھکیلے جا رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ دو پولیس اہلکار ایک بچے کو پاؤں سے پکڑ کر، جیسے کوڑا کرکٹ کا تھیلا ہو، ٹرک میں پھینک رہے تھے۔‘
اُسی وقت اوزینک کی والدہ نے اُنھیں خود سے الگ کر کے کہا ’تمہیں بھاگنا ہو گا کیونکہ ہمارے خاندان میں سے کوئی زندہ نہیں بچے گا۔ تمہیں اپنی حفاظت خود کرنی ہو گی، میں اب تمہاری مدد نہیں کر سکتی۔‘ اور پھر وہ اپنی بیٹی کے ساتھ ٹرک میں چلی گئیں۔
’میں اٹھا، ایک کونے میں چھپ گیا۔ کچھ دیر بعد باہر نکلا تو کوئی نظر نہ آیا۔ میں ایک پُل کی طرف گیا، جہاں ایک جرمن پولیس اہلکار نے مجھے روک لیا۔ اُس نے بندوق میرے سر پر رکھی اور پوچھا: ’کیا تم یہودی ہو؟‘ میں نے کہا: ’نہیں۔‘ پھر وہ پلٹ گیا اور چلا گیا۔‘
خفیہ زندگی
پولینڈ کے کئی شہروں میں یہودیوں کے لیے بستیاں بنائی گئی تھیں، وارسا یہودی بستی میں سنہ 1940 میں لی گئی تصویراس کے بعد اوزیئک نے اپنی ایک خالہ کو تلاش کیا جو ایک ریستوران میں چھپی ہوئی تھیں۔ خالہ نے اوزینک کو ایک پولش کسان کے گھر بھیج دیا جو شہر سے دور ایک گاؤں میں رہتا تھا۔ کسان کا نام یاسکو تھا، وہ اپنی اہلیہ کاسیا اور دو بچوں کے ساتھ رہائش پذیر تھا۔
’اُس کا چھوٹا سا مکان تھا، ایک کمرہ جس میں تنکے کا بستر تھا، ایک بیٹھک اور ایک بڑا چولہا۔ اُس نے مجھے کپڑے بدلنے کو کہا اور مجھے پاجامہ اور کڑھائی والی قمیض دی۔ اُس نے میری شکل ایک شہری لڑکے سے دیہاتی لڑکے میں بدل دی۔ اُس نے مجھے ’ستاشیک‘ کہنا شروع کر دیا، مجھے ایک پولش نام دیا اور کہا کہ اب میں اُس کے خاندان کا حصہ ہوں، اور اُس کا بھتیجا ہوں۔‘
چند ہفتوں بعد پولیس یاسکو کے دروازے پر یہودیوں کو تلاش کرنے پہنچی۔ ’اُس دن میں کاسیا کے ساتھ جانوروں کے لیے خوراک تیار کرنے میں مدد کر رہا تھا۔ پولیس آئی اور یاسکو سے کہا: ’ہمیں بتایا گیا ہے کہ تم یہودیوں کو چھپا رہے ہو۔‘
پولیس اہلکار کا پیغام واضح تھا: ’یاسکو، اگر تم ہمیں بتا دو کہ وہ کہاں ہیں تو ہم انھیں لے جائیں گے اور تمھیں کچھ کہے بغیر واپس چلے جائیں گے۔ لیکن اگر تم نے نہ بتایا اور ہم نے انھیں ڈھونڈ لیا تو ہم انھیں بھی مار دیں گے اور تمہیں اور تمہارے خاندان کو بھی۔‘
’میں بیٹھا انتظار کر رہا تھا کہ یاسکو انھیں میرے بارے میں بتا دے گا۔ لیکن یاسکو نے کہا کہ ’میں کوئی یہودی نہیں چھپا رہا ہوں۔ تم گھر کی تلاشی لے سکتے ہو۔‘ پھر وہ اہلکار بیٹھک میں گئے۔ انھوں نے میز کے نیچے دیکھا، بستر کے نیچے دیکھا، گودام اور اصطبل میں دیکھا۔۔۔ اور پھر چلے گئے، انھیں وہاں کوئی یہودی نہیں ملا۔‘
لیکن یہ اُس گھر میں اُوزینک کے قیام کا اختتام تھا۔
’یاسکو نے مجھے کہا کہ ’ستاشیک، تمہیں جانا ہو گا۔ میں تمہیں اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا۔ سمجھ رہے ہو نا؟‘ میں نے کہا ہاں۔ اُس نے کہا کہ ’آؤ، ہم جنگل میں تمہارے لیے جگہ ڈھونڈتے ہیں۔‘
یاسکو کی مدد سے انھوں نے جنگل میں ایک غار نما جگہ تلاش کی، جسے تنکوں سے بھر کر چھوٹی سی پناہ گاہ بنا دیا گیا۔ یاسکو نے اُسے مشورہ دیا کہ کیا کھانا ہے اور کیا نہیں، خرگوش کا شکار کرنے کے لیے پھندہ کیسے بنانا ہے اور آگ کیسے جلانی ہے۔ یوں، صرف 12 برس کی عمر میں، انھوں نے نے جنگل میں اکیلے زندگی گزارنا شروع کر دی۔
وقت گزرنے کے ساتھ، 12 سالہ بچہ دنیا سے کٹتا گیا اور نئے ماحول سے مانوس ہوتا گیا۔
’میں اب انسان بھی نہیں لگتا تھا۔ گندے ہاتھوں سے کھاتا تھا، میں ایک جانور تھا۔ لیکن جب آسمان کی طرف دیکھتا تو آزادی محسوس کرتا۔ پرندے اور جنگل مجھے قبول کرتے تھے، وہ مجھے پسند کرتے تھے۔ میں اُن کا حصہ بن گیا تھا۔‘
’میں بہت بھوکا رہتا، کئی دن کھائے بغیر گزرتے۔ میں درختوں سے کھمبیاں کھاتا کیونکہ یاسکو نے بتایا تھا کہ زمین پر اگنے والی کھمبیاں زہریلی ہوتی ہیں۔ اس لیے میں صرف درختوں کی کھمبیاں اور جنگلی بیریاں تلاش کرتا۔‘
اوزیئک نے جنگل کی اُن آوازوں کو سمجھنا شروع کیا، جو اجنبیوں کی آمد کا اشارہ دیتی تھیں۔ اور پھر ایک دن۔۔۔
’اچانک جنگل خاموش ہو گیا۔ میں نے جانوروں کو بھاگتے دیکھا، اور پھر سنّاٹا۔ پھر میں نے ایک لڑکے کو اس طرف آتے دیکھا، شاید مجھ سے دو سال چھوٹا۔ وہ اکیلا جنگل میں چل رہا تھا۔ اُس نے کہا کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ چھپا ہوا ہے، چند میل دور۔ اُس کی ماں خوراک لینے گئی تھی اور واپس نہ آئیں۔ پھر اُس کا باپ گیا اور وہ بھی واپس نہ آیا۔ اُس نے کہا کہ وہ دو دن سے بھوکا ہے۔ میں نے اُسے کچھ کھانے کو دیا، اُس نے سب کھا لیا۔ اُس کا نام یانیک تھا۔‘
دونوں نے جنگل میں اکٹھے رہنا شروع کر دیا۔ انھوں نے اپنی پناہ گاہ کو بڑا کیا، دیواروں کو پتھروں سے مضبوط کیا، فرش پر چھت بنائی اور ایک عارضی چولہا بنایا۔ یہ سردیوں میں گرم رہنے کے لیے کافی تھا۔
’ہم کپڑے اتار کر باہر پھینک دیتے اور پھر اُن میں سے جوئیں اور کیڑے نکالتے۔ ہم ندی میں کھیلتے اور باتیں کرتے۔ لیکن اب مجھے صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اُس کے لیے بھی خوراک تلاش کرنی پڑتی تھی۔ مگر مجھے بُرا نہیں لگتا تھا کیونکہ اس کا ساتھ بہت قیمتی تھا۔ اور وہ ایک ذہین لڑکا تھا، مجھ سے کہیں زیادہ۔‘
لیکن پھر بھی انھیں بہت محتاط رہنا پڑتا، خاص طور پر کوئی نشان نہ چھوڑنے کے لیے۔ نازی حامی یوکرینی اہلکاروں کی گشت کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا تھا۔
’میں بہت محتاط رہتا۔ جب بھی کوئی قریب سے گزرتا ہم فوراً اپنے بِل میں گھس جاتے۔ وہ بہت چھوٹا تھا۔ ہم رینگ کر اندر جاتے۔ وہاں بیٹھ نہیں سکتے تھے، کچھ نہیں کر سکتے تھے سوائے سونے کے۔ ہمیں اندر جا کر لیٹنا پڑتا۔‘
ایک اندازے کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے دوران پولینڈ میں 30 لاکھ یہودیوں کو قتل کیا گیا تھاگولیوں کی آوازیں، چیخیں، اور ایک بچہ
ایک صبح اوزیئک اور یانیک گولیوں کی آوازوں اور چیخ و پکار سے جاگے۔
’گولیاں اور شور تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہا، پھر خاموشی چھا گئی۔ میں نے یانیک کو قائل کیا کہ باہر جا کر دیکھتے ہیں کہ کیا ہوا ہے۔ رات بھر شدید برفباری ہوئی تھی، ہر چیز سفید اور جمی ہوئی تھی۔ ہم چلتے گئے اور میں نے برف پر اپنے قدموں کے نشانات کو پائن کی شاخ سے مٹا دیا۔ ہم دریا کی طرف گئے کیونکہ گولیاں وہیں سے آ رہی تھیں۔‘
اوزیئک نے اعتراف کیا کہ وہ پہلے بھی لاشیں دیکھ چکا تھا، لیکن اُس دن کا منظر کہیں زیادہ ہولناک تھا۔ سفید برف پر آٹھ لاشیں بکھری پڑی تھیں۔
’یانیک نے ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا تھا اور وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا۔ لیکن میں اُس سے کچھ بڑا تھا۔ میں نے کہا: ’کیا تم نے دیکھا کہ اُن کے جوتے اچھے ہیں؟‘ میرے پاس جوتے نہیں تھے، پاؤں پر کپڑے لپیٹے ہوئے تھے کیونکہ وقت کے ساتھ میرے جوتے ٹوٹ گئے تھے۔ ہم نے جوتے اور کوٹ اُٹھا لیے۔‘
وہاں سے انھیں برتن اور کھانے پینے کی چیزیں بھی ملیں۔ لیکن یہ واحد دریافت نہیں تھی۔ ’جب میں نے دیکھا تو دریا کے اُس پار کچھ حرکت نظر آئی۔ ایک عورت لیٹی ہوئی تھی اور ہل رہی تھی۔‘
یانیک کا پہلا ردعمل وہاں سے نکلنے کا تھا، لیکن اوزیئک نے سوچا کہ شاید وہ اُس کی مدد کر سکیں۔
’دریا کا کنارہ جما ہوا تھا اور پانی برف کی طرح سرد۔ یانیک اسے پار نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لیکن میں نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور ہم پانی میں اتر گئے۔ پانی اتنا سرد تھا کہ ہمارے جسم فوراً جم گئے، درد بھی محسوس نہ ہوا۔ جب ہم پہنچے تو عورت کی لاش حرکت نہیں کر رہی تھی۔ لیکن اُس کے نیچے ایک بچہ تھا۔ عورت کو گولی لگی تھی اور وہ بچے پر گر گئی تھی۔ بچہ زندہ تھا۔‘
اوزیئک اور یانیک بچے کو اپنے پناہ گاہ میں لے آئے۔ انھوں نے اُس کے گیلے اور گندے کپڑے بدلے، دیکھا کہ وہ لڑکی ہے۔
مگر جلد ہی انھیں احساس ہوا کہ وہ بچے کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے۔ اوزیئک پناہ گاہ سے نکلا اور اُن یہودیوں کے پاس گیا جن کے بارے میں وہ جانتا تھا کہ وہ علاقے میں چھپے ہوئے ہیں۔ اُس نے انھیں دریا کنارے کی لاشوں اور بچے کی کہانی سنائی۔
’ایک آدمی نے کہا کہ ’ذرا انتظار کرو، یہیں رہو۔‘ پھر وہ باہر گیا اور ایک عورت کو لے آیا، جس نے کہا کہ بچی شاید اُس کی بہن کی ہے۔ میں انھیں پناہ گاہ میں لے گیا۔ جب ہم پہنچے تو یانیک شدید بخار میں مبتلا تھا۔ میں نے پوچھا کہ کیا وہ اُس کی مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن انھوں نے کہا کہ وہ چھوٹا ہے اور ٹھیک ہو جائے گا۔‘
جب اوزیئک نے پوچھا کہ کیا وہ اُس کی دیکھ بھال کر سکتے ہیں، تو جواب ملا کہ اُن کے پاس نہ اُس کے لیے جگہ ہے اور نہ یانیک کے لیے۔ وہ بچی کو لے کر چلے گئے۔
چند دن بعد یانیک کی حالت مزید بگڑ گئی اور خوراک بھی ختم ہو گئی۔ اوزیئک نے فیصلہ کیا کہ وہ یاسکو سے بات کرے تاکہ یانیک کی مدد ہو سکے۔ یانیک نے اُس سے کہا: ’مجھے زیادہ دیر کے لیے اکیلا مت چھوڑنا۔‘ مگر اس کے باوجود اوزیئک وہاں سے نکل گئے۔
جب اوزیئک کھیت پر پہنچا تو یاسکو وہاں موجود نہیں تھا اور اُسے اس کا انتظار کرنا پڑا۔ یاسکو رات گئے واپس آیا۔ اگلے دن اوزیئک پناہ گاہ میں لوٹا، یاسکو کی دی ہوئی روٹی اور دہی ساتھ لے کر۔
لیکن جب وہ پناہ گاہ پر پہنچا تو دیکھا کہ دروازے پر پڑی بوری ہٹی ہوئی ہے۔ اندر سردی اور برف جمی ہوئی تھی۔ یانیک غائب تھا۔
’شاید وہ پانی لینے گیا ہو۔‘ میں نے سوچا۔ میں دریا کی طرف گیا۔ یانیک وہاں نہیں تھا۔ میں نے ہر جگہ اسے تلاش کیا۔ واپس پناہ گاہ آیا، کوئلے جلائے، کچھ کھایا اور دوبارہ نکل گیا۔ دیر ہو چکی تھی۔ میں نے غیر معمولی جگہوں پر تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔ پھر میں نے ایک درخت کے پاس کچھ باہر نکلا ہوا دیکھا۔ قریب گیا، برف ہٹائی، اور وہاں یانیک زمین پر لیٹا ہوا تھا، برف میں جما ہوا۔‘
اوزیئک دوبارہ یاسکو کے پاس گیا تاکہ مدد لے سکے۔ جب وہ واپس آئے تو یاسکو نے تصدیق کی کہ لڑکا مر چکا ہے۔ اس کے بعد اُس نے فیصلہ کیا کہ اوزینککو اپنے خاندان کے پاس واپس لے جائے۔
اگرچہ اوزینک کے لیے حالات کچھ بہتر ہو گئے، لیکن وہ یانیک کے انجام پر شدید احساسِ جرم میں مبتلا رہے۔
’وہ اپنی مرضی سے دریا میں نہیں گیا تھا۔ وہ اس کو لے کر گیا تھا۔ میں یانیک کے قتل کا مجرم تھا اور یہ خیال میرے ذہن سے کبھی نہیں نکلا۔ لیکن ہم نے ایک (بچی کی) زندگی بچائی لیکن اس کے بدلے میرا دوست نہیں بچا۔‘
اس کہانی پر ’دی بوائے ان دی ووڈز‘ کے نام سے ایک فلم بھی بنائی گئی ہے’مجھے بغیر کسی وجہ کے چھوڑ دیا گیا‘
یاسکو کو معلوم تھا کہ سوویت فوج جرمنی کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے۔ جولائی 1944 میں سوویت اہلکار بُچزچ پہنچے اور شہر کو نازیوں سے آزاد کروایا۔ لیکن اوزیئک کے لیے یہ آزادی کسی مثبت تبدیلی کا باعث نہ بنی۔
’مجھے عجیب سی صورتحال میں چھوڑ دیا گیا۔ وہاں کھانا تھا، سکول تھے، کپڑے تھے، لوگوں کے پاس گھر تھے، لیکن میرے پاس کچھ نہیں تھا۔ اور کوئی مجھے نہیں جاننا چاہتا تھا۔‘
14 برس کی عمر میں اوزیئک بُچزچ واپس آئے اور وہاں انھیں معلوم ہوا کہ وہ اپنے خاندان کے واحد زندہ بچ جانے والے فرد ہیں۔
ان کے خاندان کے کُل 62 افراد قتل کر دیے گئے تھے، اور شہر میں موجود تقریباً آٹھ ہزار یہودیوں میں سے صرف 100 باقی بچے تھے۔
اگلے برسوں میں اُوزینک نے اپنی بقا کی جنگ جاری رکھی، اس بار صرف جنگل میں نہیں بلکہ بلیک مارکیٹ میں چھوٹے موٹے کام کر کے۔ اوزیئک ایک پروگرام میں شامل ہوا جس کے تحت یہودی یتیم بچوں کو کینیڈا بھیجا جا رہا تھا۔ وہاں وہ ایک فوسٹر فیملی کے ساتھ رہے اور انھوں نے سنہ 1948 میں اپنا نام بدل کر میکسویل سمارٹ رکھ لیا۔
بعد میں وہ ایک کاروباری شخصیت بنے، شادی کی، اُن کے ہاں بچے ہوئے۔ آج وہ مونٹریال میں دو آرٹ گیلریوں کے مالک ہیں۔
انھوں نے دہائیوں تک اپنے ماضی کے بارے میں بات کرنے سے انکار کیا۔ لیکن سنہ 2019 میں اُن سے ایک دستاویزی فلم Cheating Hitler کی ٹیم نے رابطہ کیا، جو اُن یہودیوں کے بارے میں تھی جو دوسری عالمی جنگِ کے دوران نازی محاصرے سے معجزانہ طور پر زندہ بچے تھے۔
اس ٹیم نے یانیک کے رشتہ داروں کو تلاش کیا، اُس لڑکے کے خاندان کو جو اوزیئک کے ساتھ جنگل میں رہا تھا، جن میں اُس کی خالہ بھی شامل تھیں۔
’اس خاندان سے ملنا بہت خوشی کی بات تھی۔ ہم روئے اور یانیک کو یاد کیا۔ انھوں نے مجھے کہا کہ مجھے احساسِ جرم نہیں ہونا چاہیے۔ ’تم نے اُسے کُھلایا، اُس کے ساتھ رہے، اُس کی دیکھ بھال کی،۔‘
دستاویزی ٹیم نے میکسویل کے لیے ایک اور حیرت انگیز لمحہ تیار کیا۔ وہ اُسے اسرائیل لے گئے جہاں اُس کی ملاقات تووا سے ہوئی، اُس بچی سے جسے اُس نے اور یانیک نے برفیلے دریا کے کنارے سے بچایا تھا۔ نرسنگ ہوم میں اُس کی خالہ اور ماموں نے اُسے پالا تھا، جو خود بھی نازی محاصرے سے زندہ بچے تھے۔
’ہم سب رو رہے تھے۔ وہ مجھے یاد نہیں کر سکتی تھی، ظاہر ہے، کیونکہ میں اُس وقت بچہ تھا۔ لیکن وہ بار بار میرا ہاتھ سہلاتی رہی اور دہراتی رہی: ’سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘
سنہ 2022 میں میکسویل سمارٹ نے اپنی زندگی کی کہانی پر مبنی کتاب The Boy in the Woods شائع کی۔ اگلے سال یہ کتاب فلم کی صورت میں ڈھالی گئی، جس میں مرکزی کردار رچرڈ آرمٹیج نے ادا کیا۔