جی بی روڈ کی دلدل میں پھنسی کم عمر سیکس ورکرز: ’روزانہ 12 سے 15 گاہکوں کو سنبھالنا پڑتا تھا‘

جی بی روڈ پر کام کرنے والی ایک سیکس ورکر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جو عورت ایک بار یہاں آ جائے اس کے لیے یہاں سے نکلنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے۔
BBC
BBC
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں تقریباً 10 لاکھ خواتین سیکس ورکرز ہیں جبکہ غیر سرکاری تنظیموں کے اندازے کے مطابق یہ تعداد تقریباً 30 لاکھ ہے

انتباہ: اس خبر میں شامل کُچھ تفصیلات بعض قارعین کے لیے تکلیف کا باعث بن سکتی ہیں۔

دلی کی جی بی روڈ کو انڈیا کے سب سے بڑے ریڈ لائٹ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے جہاں خستہ حال عمارتوں میں تقریباً ڈھائی ہزار خواتین سیکس ورکرز رہتی ہیں اور روزانہ تشدد اور استحصال کا سامنا کرتی ہیں۔

رخسانہ کی عمر اُس وقت تقریباً 13 سال تھی جب ان کے شوہر نے انھیں جی بی روڈ پر بیچ دیا تھا۔

رخسانہ یاد کرتی ہیں کہ شروع میں کئی دنوں تک انھیں ایک چھوٹے سے اندھیرے کمرے میں بند رکھا جاتا تھا تاکہ وہ کہیں بھاگ نہ سکیں۔

یہ بات کرتے وقت رخسانہ کی آواز بھر آتی ہے اور آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ رخسانہ کہتی ہیں کہ ’ماہواری کے دوران بھی کام کرنا پڑتا تھا۔‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں تقریباً 10 لاکھ خواتین سیکس ورکرز ہیں جبکہ غیر سرکاری تنظیموں کے اندازے کے مطابق یہ تعداد تقریباً 30 لاکھ ہے۔

ان خواتین کی زندگیوں میں استحصال، روزمرہ کی تشدد اور کبھی نہ ختم ہونے والا سماجی امتیاز شامل ہے۔

’20 سے زیادہ اسقاطِ حمل‘

BBC
BBC
دلی کی جی بی روڈ کو انڈیا کے سب سے بڑے ریڈ لائٹ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے

رخسانہ بتاتی ہیں کہ ابتدا میں جب کوئی لڑکی کسی مرد کے ساتھ جانے سے انکار کرتی ہے تو اس کے پانی میں نشہ آور گولی ملا دی جاتی ہے۔

رخسانہ نے اگلے 14 سال شدید نشے کی لت، روزانہ مارپیٹ، 20 سے زیادہ اسقاطِ حمل اور نہ ختم ہونے والے استحصال میں گزرے۔

تاہم یہ سب کچھ سہنے والی رخسانہ اکیلی نہیں ہیں۔ جی بی روڈ پر موجود زیادہ تر خواتین کی کہانیاں تقریباً ایک ہی جیسی معلوم ہوتی ہیں۔

جیوتی کو ان کے گاؤں کی ہی ایک خاتون نے ملازمت کا لالچ دیا تھا۔ اس وقت جیوتی کی عمر صرف 14 سال تھی۔ جیوتی کہتی ہیں کہ ’جس خاتون نے میرا سودا کیا اس کے شوہر نے سب سے پہلی بار ریپ کیا تھا۔‘

اس کے بعد وہ کئی دن تک بیمار رہیں۔ پھر جیوتی کو جی بی روڈ پر بھیج دیا گیا۔

جیوتی کہتی ہیں کہ ’جب میں ان دنوں کو یاد کرتی ہوں تو لگتا ہے کہ۔۔۔ کسی کو بھی ایسے دن نہ دیکھنے پڑیں۔ اتنی کم عمر میں روزانہ 12 سے 15 گاہکوں کو سنبھالنا پڑتا تھا۔‘

’انکار کرنے پر مارپیٹ، کھانا نہ دینا۔۔۔ یہ سب باتیں عام تھیں۔ چند سال گزرے تو بچہ پیدا کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے لگے۔ حمل کے آخری مہینے تک مجھ سے کام کروایا گیا۔‘

’ڈیلیوری کے چند ہی دنوں بعد مالکن بچے کو اس کی ماں سے الگ کر دیتی ہے تاکہ خواتین دوبارہ وہی سب کچھ شروع کر دیں اور اپنے بچے کی محبت میں برسوں تک اُلجھی نہ رہیں۔‘

’جی بی روڈ‘ کی دلدل

آج رخسانہ اور جیوتی دونوں جی بی روڈ سے آزاد ہو چکی ہیں لیکن ایسی آزادی ہر عورت کے مقدر میں نہیں ہوتی۔ جی بی روڈ پر کام کرنے والی ایک سیکس ورکر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ جو عورت ایک بار جی بی روڈ آ جائے اس کے لیے یہاں سے نکلنا بے حد مشکل ہو جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ایک تو اتنی سخت نگرانی ہوتی ہے کہ آپ باہر نہیں نکل سکتیں۔ اگر کسی طرح نکل بھی جائیں تو سڑک کے ہر کونے پر آپ پر نظر رکھنے والے بیٹھے ہوتے ہیں جو آپ کو پہچان کر دوبارہ یہاں لے آتے ہیں۔‘

’جی بی روڈ کا داغ لگ جائے تو خاندان والے بھی ہم سے تعلق ختم کر دیتے ہیں اور یہی سمجھتے ہیں کہ ہم مر چُکے ہیں۔‘

’آپ کی ہر دستاویز میں پتے کے خانے میں جی بی روڈ لکھا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے نہ صرف آپ کو بلکہ آپ کے بچوں کو بھی نفرت بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔‘

نتیجتاً خواتین برسوں تک تشدد اور استحصال کی اس دلدل میں دھنستی چلی جاتی ہیں اور کئی بار اپنی جان بھی گنوا بیٹھتی ہیں۔

این سی آر بی کے مطابق سنہ 2023 میں انڈیا میں تین لاکھ 24 ہزار سے زیادہ خواتین لاپتہ ہوئیں، 2,189 خواتین سیکس ٹریڈ کے لیے ٹریفک ہوئیں اور 12 نابالغ لڑکیاں جسم فروشی کے لیے بیچ دی گئیں۔ ان میں سے 3,038 خواتین کو بچایا گیا جبکہ رضاکار تنظیمیں کہتی ہیں کہ اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

سیکس ورک اور تشدد

BBC
BBC
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے ایک مطالعے کے مطابق انڈیا میں 50 فیصد خاتون سیکس ورکرز ماضی میں کسی نہ کسی شکل کے تشدد کا سامنا کر چکی ہیں

دو ایک سال پہلے جی بی روڈ پر چند گاہکوں نے فائرنگ کی تھی جس میں 30 سالہ سیکس ورکر کی موت ہو گئی تھی۔ جبکہ سنہ 2025 میں غازی آباد کے سین وہار علاقے کے ایک نالے سے ایک خاتون سیکس ورکر کی لاش برآمد ہوئی تھی۔ پولیس کے مطابق خاتون کو کسی نے قتل کیا تھا۔

اقوامِ متحدہ کے ادارے یو این ایڈ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران ہر پانچ میں سے ایک خاتون جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہوئی تھی۔

دوسری جانب اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے ایک مطالعے کے مطابق انڈیا میں 50 فیصد خاتون سیکس ورکرز ماضی میں کسی نہ کسی شکل کے تشدد کا سامنا کر چکی ہیں۔

مطالعے میں یہ بھی سامنے آیا کہ پولیس چھاپوں کے دوران پکڑی جانے والی کئی سیکس ورکر خواتین کو مارپیٹ اور جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

غازی آباد سول لائنز کی اے سی پی پریاشری پال کہتی ہیں کہ ’پولیس کی جانب سے استحصال کا کوئی معاملہ میرے علم میں نہیں آیا لیکن اسے مکمل طور پر رد بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘

’تعصب اور پیشگی خیالات کی وجہ سے کئی لوگوں کو ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہوگا لیکن جب ہم سنہ 2026 کی طرف بڑھ رہے ہیں تو ہمیں امید ہے کہ ’مشن شکتی‘ اور دیگر پروگراموں کے ذریعے معاشرے کے کمزور طبقات، خاص طور پر خواتین کی حالت میں بہتری آئے گی۔‘

اصل مسائل اور وجوہات

BBC
BBC
پرگیا بسیریا جی بی روڈ پر کام کرنے والی خواتین کے حقوق اور تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'کٹ کتھا' میں فیلڈ مینیجر کے طور پر کام کرتی ہیں

حکومت کی سکیموں اور کوششوں کو رضاکار تنظیمیں ناکافی قرار دیتی ہیں۔ سیکس ورکرز کے حقوق کے لیے طویل عرصے سے کام کرنے والی مینا شیشو کا کہنا ہے کہ ’مشن شکتی‘ کے تحت وہ سیکس ورک کو مکمل طور پر ختم کرنا چاہتے ہیں نہ کہ سیکس ورک کے دوران ہونے والے تشدد کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’اس مشن کے تحت وہ خواتین کو اس دلدل سے نکال کر محفوظ مقامات پر لے جانا چاہتے ہیں، لیکن ان کے بچوں کا کیا ہوگا؟ ان کے اخراجات کون اٹھائے گا؟ بہت سی خواتین غربت کی وجہ سے اس پیشے میں آتی ہیں، تو کیا آپ انھیں باقاعدہ روزگار دیں گے؟ ان کے خاندان کی ذمہ داری اٹھائیں گے؟ صرف خواتین کو سکل ٹریننگ دینا کافی نہیں ہے۔‘

پرگیا بسیریا جی بی روڈ پر کام کرنے والی خواتین کے حقوق اور تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’کٹ کتھا‘ میں فیلڈ مینیجر کے طور پر کام کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ کہنا درست نہیں کہ حکومت اور این جی اوز نے کوشش نہیں کی لیکن جو بھی اقدامات کیے جاتے ہیں ان میں طویل مدتی بحالی کی منصوبہ بندی شامل نہیں ہوتی۔‘

پرگیا بسیریا مزید کہتی ہیں کہ ’اگر آپ سیکس ورکرز کو مرکزی دھارے میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو ان کی ذہنی صحت سے لے کر بچوں کی دیکھ بھال، روزگار کے مواقع، رہائش جیسی تمام ضروریات کو مدنظر رکھنا ہوگا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مثال کے طور پر ہم نے ’ڈریم ولیج‘ بنایا ہے تاکہ اگر خواتین جی بی روڈ چھوڑ کر ہمارے ساتھ آئیں تو انھیں رہنے کے لیے چھت ملے، کھانے پینے کی سہولت ہو اور ہم انھیں 10 ہزار روپے کی مالی مدد بھی فراہم کرتے ہیں۔‘

BBC
BBC
کئی خواتین سکل ٹریننگ اور روزگار کے مواقع کے باوجود غربت کی وجہ سے واپس اس پیشے میں آ جاتی ہیں

جی بی روڈ پر کام کرنے والی خواتین کو معاشرتی اور اقتصادی طور پر شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ کئی خواتین سکل ٹریننگ اور روزگار کے مواقع کے باوجود غربت کی وجہ سے واپس اس پیشے میں آ جاتی ہیں۔

کوٹھے کی مالکن زیادہ پیسوں کا لالچ دے کر انھیں واپس بلا لیتی ہیں اور انھیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ باہر کی دنیا ان کے لیے نہیں ہے اور یہاں انھیں کبھی عزت نہیں ملے گی۔

انڈیا میں جسم فروشی خود غیر قانونی نہیں لیکن غیر اخلاقی جسم فروشی روکنے کا قانون آئی ٹی پی اے 1956 کے تحت کوٹھا چلانا، نابالغوں کو کام پر رکھنا اور عوامی جگہوں پر گاہک تلاش کرنا جرم ہے۔

سنہ 2022 میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے پہلی بار سیکس ورک کو پیشے کا درجہ دیا اور کہا کہ خواتین کو عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہے مگر حقیقی زندگی میں یہ حق اکثر سیکس ورکرز تک نہیں پہنچتا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US