ڈرامہ کے ہدایتکار مہمت بوزداع نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ مجھے کم عمری ہی سے لکھنے لکھانے کا شوق تھا۔ ہر وقت کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا تھا۔
ایک رات مَیں نے صوفی بزرگ، مفکّر و محقّق ابن العربی کو خواب میں دیکھا اور بس اس خواب کے بعد میری زندگی کا رخ ہی بدل گیا۔ مَیں باقاعدہ طور پر لکھنے لگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بعد ازاں ایک دوست کے ساتھ مل کر ایک کمپنی قائم کی، جس کے پلیٹ فارم سے دستاویزی فلمیں تیار کرنا شروع کیں اور یوں اس فیلڈ میں آگے بڑھتا چلا گیا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہ جب ہم نے یہ ڈرامہ سیریل بنانے کا ارادہ کیا، تو سب کا یہی خیال تھا کہ اِسے ضرور پسند کیا جائے گا لیکن جب نشر ہوا، تو کوئی خاص ریسپانس سامنے نہیں آیا، مگر مجھے یقین تھا کہ اگر ہم ڈرامے کی کہانی صحیح طریقے سے سمجھانے اور پیش کرنے میں کامیاب ہوئے تواسے ملکی ہی نہیں، بین الاقوامی سطح پر بھی پسند کیا جائے گا لیکن اس قدر مختصر مدّت میںیہ اس قدر مقبول ہو جائے گا، یہ نہیں سوچا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ خاص طور پر پاکستان میں اس ڈرامے کی شہرت و مقبولیت تو ہمارے لیے بہت حیران کن ہے۔