میں نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ شوہر مارتا ہے میں ساتھ نہیں رہ سکتی لیکن پھر بھی ۔۔ جانیں زرقا گل کی درد ناک کہانی جس کے شوہر نے اس کی ناک کاٹ دی

image

اس دنیا میں ایسے ایسے دل سوز واقعات دیکھنے اور سننے میں آتے ہیں کہ جس کی جتنی مذمت کی جائے اتنا کم ہے۔ تشدد بھرے گھریلو واقعات دنیا کے ہر حصے میں ہوتے رہتے ہیں لیکن جس طرز کا اور افسوسناک گھریلو تشدد کا واقعہ آج ہم آپ کو بتانے جا رہے ہیں، شاید ہی آپ نے پہلے کبھی سنا ہوگا۔

افغانستان میں گھریلو ناچاقی کے واقعات بالکل عام ہیں۔ وہاں خواتین کی عزت اور احترام کو پیروں تلے روند دیا جاتا ہے۔ وہاں بے یار و مدد گار خواتین مظالم کا ظلم کا نشانہ بنتی رہتی ہیں اور ان کی مدد کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔

افغانستان کے شمال مغربی صوبے فریاب میں ایک شخص اپنی بیوی کی ناک کاٹ دیتا ہے۔

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق صوبہ فریاب کے ضلع گھورمچھ کی ایک 20 سالہ خاتون رضا گل کو اتوار کو زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا جبکہ خاتون کا شوہر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد موقع پر فرار ہوجاتا ہے۔

یہ واقعہ سال ٢٠١٦ میں پیش آیا تھا جب درندہ صفت شوہر نے اُن کے چہرے پر چاقو سے وار کر کے ان کی ناک کاٹ دی تھی۔

رزقا کے شوہر نے اپنی جیب سے چاقو نکال کر زرقا کی ناک بھی کاٹ دی تھی۔

زرقا کی شادی کو دس سال ہو چکے ہیں اور اُن کا چھ سال کا بیٹا بھی ہے۔

28 سالہ زرقا لگ بھگ روزانہ کی بنیاد پر شوہر کی جانب سے ہونے والی مار پیٹ کی عادی ہو گئی تھیں لیکن انھیں یہ بالکل معلوم نہیں تھا کہ بات اس حد تک بڑھ جائے گی۔

اکثر مختلف قسم کے الزامات لگا کر انھیں مارتا پیٹتا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ اُن کا شوہر انھیں بدکردار کہتا تھا اور وہ اسے کہتی تھیں کہ یہ درست نہیں ہے۔میرا شوہر ہر بات پر شک کرتا تھا۔

ان کی ناک کا آپریشن تین گھنٹے تک جاری رہا تھااور اس دوران زرقا ہوش میں تھیں اور اُن کے چہرے کو سُن کر دیا گیا تھا۔زرقا نے بی بی سی چینل کو بتایا کہ ’آج جب میں شیشہ دیکھتی ہوں تو میری ناک بالکل ٹھیک ہو گئی ہے۔

زرقا کا تعلق کابل سے 250 کلومیٹر دور پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ضلع خیر کوٹ کے ایک انتہائی غریب خاندان سے ہے۔ وہ ناخواندہ بھی ہیں۔

* ظالم شوہر اور اس کا ظلم

رزقا نے بتایا کہ اُن کا شوہر ان کا ہم عمر ہے اور گاؤں والوں کے مویشیوں کی دیکھ بھال کر کے روزی کماتا ہے۔

خاتون نے بتایا کہ ان کی منگنی بچپن ہی میں کر دی گئی تھی جب میں بہت چھوٹی تھی۔ اس وقت مجھے شادی اور زندگی کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا اور مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ اُس وقت میری کیا عمر تھی۔

*رزقا کی جان کو خطرہ

زرقا کی شادی کے ایک سال بعد ہی اُن کے شوہر نے کسی اور خاتون سے شادی کرنا چاہتے تھے۔

زرقا نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے شوہر نے انھیں بتایا کہ وہ انھیں پسند نہیں کرتے اور کسی اور سے شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ نئی دلہن کی قیمت ادا کر سکیں۔

اس بات پر زرقا کو اُن کے غصے اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے بتایا ان کا شوہر انھیں اتنا مارتا تھا کہ انھیں اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو گیا۔

انھوں نے کہا کہ جب ان کے شوہر نے بہت زیادہ مار پیٹ شروع کر دی تو وہ بھاگ کر اپنے گھر (میکے) آ گئیں اور اپنے والد کی منتیں کیں کہ وہ انھیں اِس ظلم سے بچا لیں۔

انھوں نے گھر چھوڑنے سے پہلے اپنے شوہر سے اجازت نہیں لی تھی اور وہ انھیں ڈھونڈتا ہوئے ان کے گھر پہنچ گئے۔

میں نے ایک رات (اپنے شوہر کے) گھر سے باہر گزاری تو اگلی صبح وہ ایک بڑی سی چھری لے کر میرے والدین کے گھر پہنچ گیا۔ وہ میرے والد کو مجھے اپنے کے حوالے کرنے کو کہہ رہا تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ اُن کے والد اور بھائی نے شوہر سے کہا کہ جب تک وہ کوئی ضامن نہیں لائیں گے وہ انھیں حوالے نہیں کریں گے۔

اس بات پر زرقا کا شوہر ضامن لے آیا جنھوں نے زرقا کے تحفظ کی ضمانت دے دی۔ لیکن جب وہ اپنی سسرال واپس پہنچیں تو صورتحال اور زیادہ خراب ہو گئی۔

جب وہ اپنے گھر واپسی پہنچیں تو ان کے شوہر نے ان پر دوبارہ حملہ کر دیا اور ایک چھری نکال کر ان کی طرف دوڑا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ہمسائیوں کے گھر بھاگ گئیں کیونکہ وہ ان کی ناک کاٹنے کی دھمکی دے رہا تھا۔

ہمسائیوں نے بیچ بچاؤ کرایا، لیکن معاملہ کافی بگڑ چکا تھا۔

وہ ایک بار پھر انھیں گھر واپس لے گیا اور یہ وعدہ کیا کہ انھیں اُن کے والدین کے گھر بھیج دے گا لیکن یہ ایک دھوکہ تھا۔وہ مجھے کسی اور گھر لے گیا اور گھیسٹ کر دلان میں پہنچا دیا۔‘ زرقا نے بتایا کہ اس وقت ان کے شوہر کے پاس بندوق بھی تھی۔

’اس نے مجھے قابو کر کے کہا کہ کہاں بھاگتی ہو۔ یہ چھوٹا سا دلان تھا اور پھر اس نے جیب سے چاقو نکال کر میری ناک کاٹ دی۔‘

زرقا کے شوہر نے ان سے کہا کہ وہ ان کا چہرہ اس لیے بگاڑ رہا ہے کیونکہ وہ بغیر بتائے گھر چھوڑ کر چلی گئی تھی جس سے اس کی بے عزتی ہوئی ہے۔

ان کی ناک کاٹنے کے بعد وہ انھیں خون میں لت پت چھوڑ کر چلا گیا۔

واقعے کے بعد انھیں فوری طور پر ایک مقامی ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا جس نے کہا کہ ناک کو دوبارہ جوڑنا ممکن نہیں ہے۔

زرقا کے خون آلودہ چہرے کی تصویر سوشل میڈیا ویب سائٹس پرمتعددلوگوں نے دیکھی اور یہ تصویر ڈاکٹر زلمی تک بھی پہنچ گئی۔ پھرانھوں نے سوشل میڈیا پر زرقا کا مفت علاج کرنے کی پیشکش کی۔ انھوں نے چند مقامی لوگوں کے ذریعے ان سے رابطہ کیا۔

ان کی حالت بہتر ہونے کے بعد انھوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ رزقا کی ناک کا آپریشن کرنا شروع کیا۔

* رزقا کا علاج کیسے ہوا؟

ڈاکٹر زلمی نے بتایا کہ انھوں نے پہلے زرقا کی ناک کے درمیانی حصہ پر کام کا آغاز کیا جس کو چاقو سے کاٹا گیا تھا۔ہم نے ناک کے اردگرد سے ان کی کھال کے ٹشوز لیے اور ان کی مدد سے دوبارہ ناک جوڑ دی۔‘

ان کا آپریشن ان کا چہرہ سن کر کے کیا گیا تھا اور زرقا سارے آپریشن کے دوران ہوش میں تھیں اور انھیں پتا چل رہا تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ان کی ناک بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔ وہ دو ماہ سے یہ بات سننے کے لیے ترس رہی تھیں۔

ڈاکٹر زلمی ان کا مستقل معائنہ کر رہے ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو وہ لیزر سے ان کا علاج کریں گے اور دوسرے مرحلے میں سلیکون سے ناک کی شکل ٹھیک کریں گے۔

انھوں نے زرقا کو یقین دلایا ہے کہ ناک میں خون کا بہاؤ بالکل ٹھیک ہے۔

ڈاکٹر زلمی نے کہا کہ وہ عام طور پر اس طرح کا آپریشن کرنے کے دو ہزار ڈالر لیتے ہیں۔ نہ صرف انھوں نے زرقا کا آپریشن بالکل مفت کیا بلکہ پانچ سو ڈالر کی دوائیں بھی انھیں خرید کر دیں۔

انھوں نے کہا کہ وہ ان کا اعتماد بحال کرنے کے لیے نفسیاتی مدد فراہم نہیں کر سکتے۔

بشکریہ بی بی سی نیوز۔


About the Author:

عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts