ہندوستان کا سب سے خطرناک سلطانہ ڈاکو جو اپنے شکار کی تین انگلیاں کاٹ لیا کرتا تھا

image

آج سے  100 سال قبل سات جولائی 1924 کی صبح 10 بجے ہندوستان کے مشہور ترین لُٹیرے سلطانہ ڈاکو کو پھانسی دی گئی۔

سلطانہ ڈاکو کو کوئی مسلمان سمجھتا ہے تو کوئی اُسے ہندو کہتا ہے۔ انوراگ کشیپ کی فلم ’گینگز آف واسع پور‘ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ قریشی ڈاکو سلطانہ کی زندگی سے متاثر ہے جو کہ ریل گاڑیوں کو لُوٹتا تھا اور جس میں پٹھانوں اور قریشیوں کے درمیان تسلط کی لڑائی دکھائی گئی ہے۔

تاہم بزنس سٹینڈرڈ میں بھوپیش بھنڈاری نے لکھا ہے کہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ واسع پور دھنباد (بہار اور جھارکھنڈ ریاستوں) کے علاقے میں آتا ہے جبکہ سلطانہ ڈاکو اتراکھنڈ اور اُترپردیش کے ترائی کے علاقے میں واردات انجام دیا کرتا تھا۔

سلطانہ ڈاکو سے متاثر اور اُن کے بارے میں بہت سے اردو میں ڈرامے اور ناول شائع ہو چکے ہیں اور سب نے اُس کی داستان کی سچی پیش کش کا دعویٰ کیا ہے۔

بالی وڈ نے ’سلطانہ ڈاکو‘ کے نام سے اور اُن سے متاثر کئی فلمیں بنائی ہیں اور یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں میں سلطانہ ڈاکو کی کہانی یا اُن کا کردار کتنا مقبول تھا۔

محمد صادق نے ’بجنور کا شیر: سلطانہ ڈاکو‘ کے نام سے ایک ڈرامہ تحریر کیا ہے جس میں اُس کی زندگی کی ابتدا سے لے کر پھانسی تک کی رُوداد کو بیان کیا ہے۔ اس کی سن اشاعت کتاب پر درج نہیں ہے۔

اسی طرح ’ضلع بجنور کا شیردل سلطانہ ڈاکو‘ نامی ایک ناول ایچ ایس منظر اکبر آبادی نے لکھا ہے جسے الیکٹرک ابوالعلائی پریس آگرہ سے شائع کیا گیا ہے لیکن اس میں بھی تاریخ اشاعت درج نہیں ہے۔

اس میں بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ناول سچی کہانی پر مبنی ہے۔ منظر اکبر آبادی کے مطابق ’سلطانہ ایک متوسط خاندان سے تعلق رکھتا تھا، اُس کا مزاج نہایت اکھڑ واقع ہوا تھا۔ گاؤں کے بچوں کے ساتھ جب وہ کھیلتا اور کسی بات پر لڑائی ہو جاتی تو وہ سب پر اکیلا ہی غالب آجاتا تھا۔‘

اس سلسلے میں سب سے مستند کتاب جو کافی تحقیق کے بعد لکھی گئی ہے وہ سجیت سراف کی بتائی جاتی ہے اور پینگوئن انڈیا نے اسے 2009 میں ’دی کنفیشن آف سلطانہ ڈاکو‘ کے نام سے شائع کیا۔

سلطانہ ڈاکو کو پکڑنے کے لیے انگریز حکومت نے اپنے افسر فریڈی ینگ کو بلوایا تھا (فائل فوٹو: سکرول ڈاٹ اِن)

اس میں چند ایک واقعات کے علاوہ دیگر تمام کوائف تقریباً سچ مانے جاتے ہیں۔ اس کتاب کے مطابق سلطانہ کا تعلق دراصل جرائم پیشہ قبیلے بھنٹو سے تھا۔

اس قبیلے نے بیسویں صدی کے اوائل میں یونائیٹڈ پروونس (اس وقت اُترپردیش کو اسی نام سے جانا جاتا تھا) کو دہشت زدہ کر رکھا تھا۔

یہ قبیلہ میواڑ کے 16ویں صدی کے حکمران مہارانا پرتاپ کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جس پر مغل شہنشاہ اکبر کے ہاتھوں شکست اور سلطنت کھونے کے بعد بُرا وقت آن پڑا تھا۔

بھنٹو لوک کہانیوں کا کہنا ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب اُن کا کوئی رہنما ایک دن انہیں میواڑ واپس لے جائے گا۔

انگریزوں نے اس قبیلے کو ’جرائم پیشہ قبیلہ‘ قرار دیا اور اس پر گہری نظر رکھی جانے لگی۔ سلطانہ نے اپنے گھوڑے کا نام ’چیتک‘ رکھا تھا جو کہ مہارانا پرتاپ کے گھوڑے کا نام تھا جس سے یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ وہ اپنا تعلق رانا کی نسل سے سمجھتے تھے۔

ویسے بھنٹو قبیلے کا سب سے بڑا چور اور تمام چوروں میں سب سے زیادہ ’ہُنرمند‘ گلفی کہلاتا تھا۔ سلطانہ کے دادا بھی مشہور چور تھے اور کہا جاتا ہے کہ گلفی نے سلطانہ کے رُوپ میں نیا جنم لیا تھا۔

سلطانہ بھی اپنے آباؤاجداد کے مطابق چور تھا۔ ایک روایت کے مطابق جاسوسی ناول نگار اور اپنے زمانے کے مشہور پولیس افسر ظفر عمر نے انہیں ایک بار گرفتار کیا تھا۔ 

سلطانہ ڈاکو کی کہانی کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بالی وڈ نے اِس نام سے کئی فلمیں بھی بنائیں (فائل فوٹو: یوٹیوب)

انہیں سلطانہ کو گرفتار کرنے پر پانچ ہزار روپے کا انعام بھی ملا تھا۔ ظفر عمر کی بیٹی حمیدہ اختر حسین رائے پوری نے اپنی کتاب ’نایاب ہیں ہم‘ میں لکھا ہے کہ ظفر عمر نے سلطانہ ڈاکو کو ایک پولیس مقابلے میں گرفتار کیا تھا۔

اس وقت سلطانہ پر چوری کے علاوہ کسی بڑے جُرم کا الزام نہیں تھا اس لیے اسے صرف چار سال کی سخت قید کی سزا سنائی گئی اور یہ کہ ظفر عمر کا پہلا ناول ’نیلی چھتری‘ کا مرکزی کردار سلطانہ ڈاکو ہی تھا۔

ایک روایت کے مطابق جب وہ قید سے رہا ہوا تو اس کے بعد وہ چور نہیں رہا بلکہ سفاک ڈاکو بن گیا۔ سلطانہ ڈاکو کی دہشت امیروں اور رائے بہادروں میں سب سے زیادہ تھی۔ اگر کہا جائے کہ وہ ہندوستان کا پہلا ’رابن ہڈ‘ تھا تو بے جا نہ ہوگا۔

اُس کو پکڑنے کی تمام کوششیں اس لیے ناکام رہتی تھیں کہ غریب اُس کی مدد کیا کرتے تھے اور اُس کے مخبروں کا جال بہت پھیلا ہوا تھا۔

اُس کی واردات کا انوکھا طریقہ ہوتا تھا۔ وہ بہت عمدہ منصوبہ بندی کے بعد ہی ڈاکہ ڈالتا تھا اور یہ کہ وہ ڈاکے سے پہلے پیشگی اطلاع دیتا تھا۔

اُسے پکڑنے کے لیے انگریز حکومت نے اپنے نہایت ہوش مند لیکن ’موٹے افسر‘ فریڈی ینگ کو بلوایا تھا۔ جب فریڈی ینگ سلطانہ ڈاکو کو پکڑنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور کئی ناکام کوششوں کے بعد لوٹے ہی تھے کہ اُن کے ایک مخبر نے انہیں ایک رُقعہ دیا جس میں سلطانہ ڈاکو نے کسی مادھو سنگھ کو دھمکی بھیجی تھی۔

سلطانہ ڈاکو اتراکھنڈ اور اُترپردیش کے ترائی کے علاقے میں واردات انجام دیا کرتا تھا (فائل فوٹو: وِکی پیڈیا)

اس رُقعے میں لکھا تھا کہ وہ 20 تاریخ کو رات کے 12 بجے اُس کے گھر آئے گا۔ اگر وہ اپنی جان کی خیر چاہتا ہے اور اُسے سلطانہ کی قوت کا اندازہ ہے تو اپنے سارے روپے اور مال ایک گٹھڑی میں باندھ کر رکھے اور اس کے آنے پر اس کے حوالے کر دے۔

’سلطانہ کسی کو نقصان پہنچائے بغیر وہاں سے مال لے کر چلا جائے گا اور اگر اسے اس کی قوت سے انکار ہے تو پھر پولیس کو خبر دے دے اور جو چاہے انتظام کر لے لیکن اپنی جان کو خطرے میں سمجھو۔‘

پولیس نے اسے مادھو سنگھ کو نہیں بلکہ خود کو دیا جانے والا چیلنج سمجھا۔ منظر اکبر آبادی کے مطابق پولیس وہاں سادہ کپڑوں میں موجود رہی لیکن 20 تاریخ گزر گئی اور ڈاکہ نہ پڑا۔ 

پھر 21 تاریخ کو مسٹر ینگ کو اطلاع ملی کہ قریبی گاؤں میں سلطانہ نے ڈاکہ ڈال دیا ہے۔ مسٹر ینگ اپنے تمام سپاہی لے کر اس گاؤں کی طرف بھاگے اور سلطانہ اُن کے جاتے ہی مادھو سنگھ کے گھر پہنچ گیا جہاں مادھو سنگھ سے مال لے لیا لیکن اُس کی منت سماجت کے بدلے اُسے زندہ چھوڑ دیا۔

مسٹر ینگ کو ایک بار پھر چوٹ پڑ گئی تھی اور انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اُن کی ٹیم میں بھی سلطانہ ڈاکو کے جاسوس موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سلطانہ ڈاکو جس کو قتل کرتا تھا اُس کے ہاتھ کی تین انگلیاں بھی کاٹ لیا کرتا تھا۔

100 سال قبل جولائی 1924 کی صبح 10 بجے سلطانہ ڈاکو کو پھانسی دی گئی (فائل فوٹو: آئی سٹاک فوٹو)

تاہم بالآخر جب ایک پولیس مخبر کی دھوکہ دہی کے بعد سلطانہ پکڑا گیا تو اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی۔ اس دوران اسے نیپال کی سرحد کے قریب واقع ہلدوانی جیل میں رکھا گيا۔

سوجیت سراف کے مطابق ’پھانسی سے قبل سلطانہ ڈاکو کا دِل بدل گیا اور اس نے لیفٹیننٹ کرنل سیموئل پیئرس سے درخواست کی کہ وہ کچھ اعتراف کرنا چاہتا ہے۔‘

پیئرس نے بھی اسے پکڑنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ہندوستانی ثقافت سے متعلق پُرجوش رہنے والا وہ افسر ہمیشہ اپنے ساتھ کاغذ اور پنسل تیار رکھتا تھا۔

اس نے اپنے قبیلے والوں، خاص طور پر اپنے بیٹے کے لیے پیغام چھوڑا کہ وہ اپنی مجرمانہ زندگی کے تمام اُتار چڑھاؤ کے دوران کیسا محسوس کرتا ہے اور سوچتا ہے۔

محمد صادق اپنے ڈرامے کے آخر میں اس کے ماہیتِ قلب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’دوستو! میں نے خون ریزی کی، ڈاکے ڈالے، لوگوں کو لُوٹا، گھر جلائے، دولت میری ٹھوکروں میں پڑی رہی۔‘

’بادشاہوں کی طرح حکومت بھی کی لیکن خدا کی قسم غم و فکر سے ایک لمحہ بھی خالی نہیں رہا، ہر وقت گرفتاری کا اندیشہ رہتا تھا۔ ڈاکو کا پیشہ نہایت ذلیل اور خطرناک ہے۔ مجھے دیکھ کر میری حالت کو دیکھ کر عبرت حاصل کرو۔‘

کہا جاتا ہے کہ اس نے انگریز افسر سے اپنے بیٹے کو تعلیم دلانے کا وعدہ لیا تھا۔ کہیں کہیں بیٹے کی جگہ بھتیجے کا ذکر ہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ انگریز افسر نے وعدہ نبھایا اور اُس کے بیٹے کو پڑھا لکھا کر پولیس افسر بنایا۔

 


News Source   News Source Text

عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts