بٹوارا گھر کا ہو یا ملکوں کا جو چیز جس کی بھی حدود میں آتی ہے وہ اسکی ملکیت بن جاتی ہے لیکن ہم آج اپکی ملاقات ایک ایسے درخت کیساتھ کروا رہے ہیں جو کہ نہ تو پاکستانی ہے اور نہی ہندوستانی ۔آیے جانتے ہیں کہ یہ درخت کہاں واقعہ ہے اور اس کی حقیقت کیا ہے؟
سب ہی جانتے ہیں کہ جب برصغیر کے 2 ٹکڑے انگریزوں نے کیے تو ایک پاکستان بن گیا تو دوسرا ہندستان بن گیا۔ لیکن اب تک ہندوستان اور پاکستان کے بارڈر پر ایک ایسا درخت بھی موجود ہے جو آدھا پاکستان میں ہے اور آدھا ہندوستان میں ۔یہ درخت پیپل کا درخت ہے۔ یہ درخت سیالکوٹ کے بارڈر پر واقع ہے۔
سیالکوٹ بارڈر پر ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں ڈھیر سارے پتھروں کو زمین پر رکھ کر دونوں ملکوں کی سرحد بنائی گئی ہے، پتھروں کی لائن کے درمیان ایک بہت پرانا پیپل کا درخت بھی موجود ہے۔ اس درخت کو اس لیے یہ کہا جا تا ہے کہ یہ درخت آدھا ہندوستان میں ہے اور آدھا پاکستان میں کیونکہ اس کے درمیان سے پتھروں کی یہ لائن گزر رہی ہے جو دونوں ملکوں کی حدود کا تعین کرتی ہے۔
اگر ہم یہاں سے بارڈر پار جاتے ہیں مقبوضہ کشمیر کا علاقہ شروع ہو جائے گا ۔اس بارڈر پر کہیں تو باڑ لگا دی گئی ، کہیں بڑے بڑے دروازے لگا دیے گئے اور کہیں یہ پتھروں کی لائن۔
لیکن ابھی تک یہ بات صحیح سے معلوم نہیں ہو سکا کہ اس بزرگ درخت نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود ہی اس لائن کو بھی اپنے پھیلاؤ میں لے لیا یا پھر جب بٹوارا ہوا تو یہ درخت ایک چھوٹا ساپودا ہو تو یہ پتھروں کی لائن اس کے بیچ میں سے خود اس وقت کی سرکار نے گزار دی ہو یہ سوچ کر کے آنے والے وقت میں یہ ایک طاقتور درخت بنے گا اور لوگوں کو سایہ فراہم کرے گا ۔ اس لیے اسے کاٹا نہ گیا ہو۔
واضح رہے کہ اس درخت کی شاخیں بھی دونوں ملکوں کی طرف ہیں جس کے باعث ہر ملک یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ درخت اس کی ملکیت ہے پر ابھی تک یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ آخر اس درخت کو کس ملک کی ملکیت سمجھا جائے۔ لیکن انسانی سوچ کے مطابق یہ درخت تو دونوں ہی ملکوں کی ملکیت ہے کیونکہ دونوں ملکوں کی سرحدوں پر واقع ہے۔