افغانستان ایشاء کا وہ ملک ہے جہاں ہر آنے والے دور میں افرا تفریح کا عالم ہوتا ہے۔ امن و سکون کی خواہش رکھنے والے اس ملک نے کبھی ترقی کا چہرہ نہیں دیکھا بلکہ بدقسمتی سے موت، دہشت گردی، تباہ کن صورتحال سے دو چار رہا ہے۔
افغان شہری بھی ہمیشہ سے ہی ملک میں امن کے خواہشمند رہے ہوں مگر عالمی طاقتوں کی جانب سے ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔
لیکن وہیں ایک اور بڑی اور حیران کن وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر بڑی بڑی طاقتیں ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، سوویت یونین سمیت دنیا کی تمام بڑی طاقتیں افغانستان کو فتح کرنے میں کیوں ناکام ہوئیں۔
سلطنتوں کے قبرستان سے مشہور افغانستان کی تاریخ اور اس کے جغرافیائی محل و وقوع میں چند اہم راز پوشیدہ ہیں۔
سب سے پہلے 19 ویں صدی میں برطانوی سلطنت، جو اس وقت کی سب سے مضبوط اور طاقتور سلطنت مانی جاتی تھی،انہوں نے پوری طاقت کا مظاہر کر کے افغانستان کو فتح کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی کا منہ دیکھنا پرا اور 1919 میں برطانیہ کو بالآخر افغانستان چھوڑ کر جانا پڑا اور افغان شہریوں کو آزادی دینی پڑی۔
دوسری بار سوویت یونین سامنے آئی جس کا نام آج بھی جانا جاتا ہے اور یہ بھی بڑی سلطنتوں میں سے ایک تھی۔انہوں نے سنہ 1979 میں افغانستان پر حملہ کیا۔ ان کا ارادہ یہ تھا کہ سنہ 1978 میں بغاوت کے ذریعے قائم کی گئی کمیونسٹ حکومت کا تختہ گرنے سے بچایا جائے۔ لیکن انھیں یہ سمجھنے میں 10 سال کا عرصہ لگا لگے کہ وہ یہ جنگ کسی صورت نہیں جیت پائیں گے۔
برطانوی سلطنت اور سوویت یونین کے مابین ایک قدر مشترک ہے۔ جب دونوں سلطنتوں نے افغانستان پر حملہ کیا تو وہ اپنی طاقت کے عروج پر تھے۔ لیکن اس حملے کے ساتھ آہستہ آہستہ دونوں سلطنتیں اپنی اصلی طاقت کھو بیٹھی تھیں۔
بعد ازاں امریکہ نے سنہ 2001 میں افغانستان میں اپنے پنجے گاڑنے کی کوشش کی وہ تقریبا دو دہائی افغانستان میں قابض رہے۔ اور کئی سالوں تک جاری رہنے والی جنگ میں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے۔ اس حملے کے 20 سال بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے اپنی فوج کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا۔
یہ ایک متنازعہ فیصلہ تھا جس پر پوری دنیا میں شدید تنقید کی گئی۔ اس ایک فیصلے کے باعث طالبان نے افغان دارالحکومت کابل پر انتہائی تیزی سے قبضہ کیا ہے جو پوری نے دیکھ لیا۔
بائیڈن نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ امریکی شہریوں کو 'ایسی جنگ میں نہیں مرنا چاہیے جسے افغان خود لڑنے کے لیے تیار نہ ہوں۔
بائیڈن نے افغانستان کی 'سلطنتوں کے قبرستان' کے طور شہرت کو یاد کرتے ہوئے کہا: ' چاہے کتنی ہی فوجی قوت کیوں نہ لگا لیں ایک مستحکم، متحد اور محفوظ افغانستان کا حصول ممکن نہیں ہے۔'
حالیہ صدیوں میں افغانستان کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرنے والی دنیا کی طاقتور فوجوں کے لیے افغانستان ایک قبرستان ہی ثابت ہوا ہے۔
ابتدا میں ان حملہ آور لشکروں کو کچھ کامیابی ملی ہو لیکن آخر میں انھیں افغانستان چھوڑ کر بھاگنا پڑا ہے۔
افغانستان کی تاریخ پر 'افغانستان: سلطنتوں کا قبرستان' نامی کتاب لکھنے والے اور دفاع اور خارجہ پالیسی کے تجزیہ کار ڈیوڈ اسبی ، جنہوں نے بی بی سی منڈو کو بتایا: 'ایسا نہیں ہے کہ افغان کافی طاقتور ہیں۔ لیکن افغانستان میں جو کچھ ہوا ہے اس کی وجہ حملہ آور قوتوں کی غلطیاں ہیں۔'
بڑی طاقتوں کو شکست کیوں ہوئی؟
اسبی کا کہنا ہے کہ اگر غیرجانبداری کے ساتھ دیکھا جائے تو افغانستان ایک مشکل جگہ ہے۔ یہ ایک پیچیدہ ملک ہے جہاں انفراسٹرکچر کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے، بہت محدود ترقی ہے اور یہ خطہ ہر جانب زمین سے گھرا ہوا ہے۔
بہرحال اسبی کا کہنا ہے کہ 'سوویت یونین، برطانیہ یا امریکہ کسی بھی سلطنت نے افغانستان کے ساتھ لچیلے پن کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ وہ اپنی راہ جانا چاہتے تھے اور وہ گئے بھی، لیکن انھوں نے کبھی افغانستان میں موجود پیچیدگیوں کو نہیں سمجھا۔'
اکثر کہا جاتا ہے کہ افغانستان کو فتح کرنا ناممکن ہے۔ یہ ایک غلط بیان ہے: ایرانیوں، منگولوں اور سکندر نے افغانستان کو فتح کیا ہے۔
لیکن یہ بات یقینی ہے کہ یہ ایسی دلیری ہے جس کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ اور اس سے قبل کابل پر حملہ کرنے والی آخری تین بڑی سلطنتیں اپنی کوشش میں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں۔
بشکریہ بی بی سی نیوز۔