آئنسٹائن اور قرآن کی دو آیتیں ۔۔ قرآن نے البرٹ آئنسٹائن کے سوال کا جواب کون سی سورہ میں دے دیا تھا؟ دیکھیے

image

سوشل میڈیا پر مشہور سائنسدان آئنسٹائن سے متعلق ایسی کئی معلومات ہیں جو کہ سب کی توجہ حاصل کر لیتی ہیں۔

ہماری ویب ڈاٹ کام کی اس خبر میں آپ کو اسی حوالے سے بتائیں گے۔

مشہور سائنسدان البرٹ آئنسٹائن کی ایک تحقیق بھی قرآن مجید سے ثابت ہوئی ہے، وہ تحقیق جس کے بارے میں قرآن مجید نے کئی سو سال پہلے ہی بتا دیا تھا، 20 ویں صدی کے سائنسدان نے اپنے دور اس بات پر تحقیق کر کے ثابت کیا۔

سوشل میڈیا پر قرآن مجید اور مشہور سائنسدان کی تحقیق کا مشاہدہ کیا گیا تھا، جس میں دلچسپ بات سامنے آئی۔

آئنسٹائن کی Theory Of Relativity میں وقت اور خلاء آزاد نہیں ہیں بلکہ ان کے مطابق اسپیڈ آف لائٹ ہی آزاد ہے۔

ان کے درمیان تعلق اصل میں ہے کیا؟ آئنسٹائن کی تحقیق کو کچھ اس طرح سمجھنے کی کوشش کریں ایک اسٹک کو زمین پر رکھ دیں، جس کا ایک کونا زمین کے کونے سے لگا ہو۔

اسی دوران ایک لائٹ اوپر کی طرف لگا دیں اور دوسری لائٹ سامنے کی طرف لگا دیں۔ یہ اسٹک 1 میٹر کی ہے، جبکہ اس کی پرچھائی بھی زمین پر ہی لگ رہی ہے، جیسے ہی اس اسٹک کو ایک کونے سے اٹھائیں گے۔

اسی دوران یہ بھی دیکھیں گے کہ زمین پر جو پرچھائی اس اسٹک کی بن رہی ہے وہ اسی اسٹک کے سائز کی ہے، تاہم دیوار پر بننے والی پرچھائی کافی کم ہے۔ لیکن جیسے ہی اسٹک کو دیوار کے برار کھڑا کر دیں گے تو زمین والی پرچھائی کم ہو جائے گی اور دیوار والی پرچھائی اسٹک کے برابر ہو جائے گی۔

یہی بات تو آئنسٹائن کی تحقیق کہتی ہے کہ کسی بھی چیز کی اسپیڈ اگر بڑھتی ہے، تو اُس کی لمبائی چھوٹی ہو جاتی ہے جبکہ Time Interval بڑھ جاتا ہے۔

قرآن مجید سے ثابت:

اب آپ کو بتاتے ہیں کہ قرآن مجید میں جو کہ البرٹ آئنسٹائن سے کئی سو سال پہلے نازل ہوا تھا، اس میں اسی تحقیق کا ذکر موجود ہے، جبکہ قرآن میں موجود مثال کو ہی سائنسدان بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

قرآن کی سورہ الفرقان کی آیت نمبر 45 اور 46 میں بھی یہی بتایا گیا ہے، آیت کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ

بلکہ تم نے اپنے پروردگار (کی قدرت) کو نہیں دیکھا کہ وہ سائے کو کس طرح دراز کر (کے پھیلا) دیتا ہے۔ اور اگر وہ چاہتا تو اس کو (بےحرکت) ٹھیرا رکھتا پھر سورج کو اس کا رہنما بنا دیتا ہے ﴿۴۵﴾ پھر اس کو ہم آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں ﴿۴۶﴾

ان آیات میں بھی یہ بتایا گیا ہے کہ کس طرح ایک سائے کو بڑھایا گیا یا دراز کیا گیا، اگر وہ (رب ذوالجلال) چاہتا تو اسے بے حرکت یعنی ایک جگہ ٹھرا دیتا۔

اسی طرح سورج کے حوالے سے بھی بتایا گیا ہے جو کہ سورج رہنمائی کرتا ہے اور لمبائی کو کم کرتا ہے جو کہ وقت کی جانچ کو محسوس کرتا ہے۔

یہی وہ تھیوری تھی، آئنسٹائن کی جو کہ کئی سو سال پہلے قرآن مجید میں بتائی گئی، جسے رب ذوالجلال نے بہترین مثال دے کر سمجھایا ہے۔


About the Author:

Khan is a creative content writer who loves writing about Entertainment, culture, and Politics. He holds a degree in Media Science from SMIU and has been writing engaging and informative content for entertainment, art and history blogs for over five years.

مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.