دنیا بھر میں خواتین بڑھتی مہنگائی کا کیسے مقابلہ کر رہی ہیں؟

دنیا بھر میں کم سے کم اجرت حاصل کرنے متعدد خواتین نے سال 2022 میں روز بروز بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے ایسی بہت سی چیزوں کا استعمال بند کر دیا ہے جو پہلے ان کی زندگی کا لازمی حصہ تھیں۔
inflation
Getty Images

دنیا بھر میں کم سے کم اجرت حاصل کرنے متعدد خواتین نے سال 2022 میں روز بروز بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے ایسی بہت سی چیزوں کا استعمال بند کر دیا ہے جو پہلے ان کی زندگی کا لازمی حصہ تھیں۔

ان میں نئے کپڑے، صابن اور ناشتے میں استعمال ہونے والا دلیہ جیسی چیزیں بھی شامل ہیں۔

ہم نے مختلف ممالک کی خواتین سے بات کی جنھوں نے بڑھتی ہوئی مہنگائی اور گھریلو بجٹ کے درمیان ایڈجسٹمنٹ کرنے کے لیے تبدیلیاں کی ہیں۔

جن خواتین سے ہم نے بات کی ان میں ایک خاتون ایسی بھی ہیں جنھیں حکومت کی پالیسیوں میں تبدیلی کا فائدہ ملا ہے اور ان کی تنخواہ میں اضافہ ہوا ہے لیکن پھر بھی ان کے لیے اخراجات پورے کرنے میں مشکل ہو رہی ہے۔

odisha
Getty Images

’300 دن کام کی گارنٹی‘

اوڈیشہ کی رہائشی 40 سالہ فاربانی چھورا یومیہ 333 روپے کماتی ہیں۔ اوڈیشہ میں ایک غیر ہنر مند کسان مزدور کے لیے یہ کم سے کم اجرت ہے۔

یہ رقم بہت زیادہ نہیں ہے لیکن یہ ان کے اور ان کے شوہر کے لیے باقاعدہ روزگار کی ضمانت ہے۔

فاربانی چھورا 'مہاتما گاندھی نیشنل رورل ایمپلائمنٹ گارنٹی' سکیم سے استفادہ حاصل کر رہی ہیں۔ اس سکیم کے تحت سال میں 100 دن کام ملنے کی گارنٹی ہے۔

اوڈیشہ کی ریاستی حکومت نے اس تعداد کو بڑھا کر 2020 میں 200 دن اور جولائی 2022 میں 300 دن کر دیا ہے تاکہ فاربانی کے علاقے سے لوگوں کی نقل مکانی کو کم کیا جا سکے۔

اس سکیم کے تحت انڈیا بھر میں 10 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو کام دیا جا رہا ہے۔

اوڈیشہ کا بالانگر ضلع جہاں فاربانی رہتی ہیں اور اس کے علاوہ چار مغربی اضلاع کے کچھ حصوں میں اب 300 دن کے کام کی ضمانت ہے۔

فاربانی کہتی ہیں کہ ’میں دیکھ رہی ہوں کہ پچھلے چھ مہینوں میں بازار میں سبزیوں اور دالوں کی قیمتیں بہت بڑھ گئی ہیں لیکن اب ہمارے پاس کام ہے، اس لیے ہم اب بھی خریدنے کی سقت رکھتے ہیں۔‘

فاربانی نے مزید کہا کہ اب انھیں اپنے دادا کے لیے دوائی خریدنے کے لیے کسی مائیکرو فنانس بینک سے قرض نہیں لینا پڑے گا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’زیادہ اجرت کے ساتھ ہم قرضوں کی ادائیگی میں بھی کامیاب ہو گئے ہیں۔‘

detergent
Getty Images

برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں رہنے والی جوسارا باکیلو کہتی ہیں کہ ایک سال پہلے خریداری سے واپسی پر اگر وہ اپنے بیگ کا موازنہ آج کی خریداری سے کریں تو ان کا بیگ ’صرف آدھا بھرتا ہے۔‘

انھوں نے گھریلو صفائی کے سامان کی خریداری میں کمی کر دی ہے۔ وہ اب صفائی کے لیے استعمال ہونے والا ڈٹرجینٹ نہیں خریدتیں۔

انھوں نے کھانا پکانے میں استمعال ہونے والا جلے ہوا تیل پھینکنا بند کر دیا ہے۔

وہ کہتی ہیں ’میں تیل میں پکاتی ہوں اور جب تیل استعمال کے قابل نہیں رہتا، تو میں اسے پلاسٹک کی بوتلوں میں محفوظ کر لیتی ہوں اور اپنے پڑوسیوں کو دیتی ہوں جو اس سے صابن بناتے ہیں۔‘

ان کے پڑوسی نے دراصل ایک ری سائیکلنگ کمپنی میں کام کرتے ہوئے صابن بنانے کا طریقہ سیکھا تھا۔  

وہاں تیل کو سب سے پہلے چپس پکانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، پھر اسے الکوحل، کاسٹک سوڈا اور بازار سے خریدے گئے دیگر کیمیکلز میں ملایا جاتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ان کے پڑوسی خوشبو دار چیزیں ڈالتے ہیں تاکہ کاسٹک سوڈا کی بدبو ختم ہو سکے۔

جوسارا ایک انجینئرنگ فرم میں کلینر اور باورچی کے طور پر کام کرتے ہوئے ماہانہ 225 ڈالر کی کم از کم اجرت حاصل کرتی ہیں۔

ایک سال پہلے وہ اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کے ساتھ کبھی کبھار فلم دیکھنے جاتی تھیں اور عادتاً اپنے ہینڈ بیگ میں کھانا لے کر بے گھر افراد کو عطیہ کرتی تھیں۔ 

تاہم اب وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو انھیں خود کھانے کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘

corn
Getty Images

’دلیہ خریدنے کے قابل نہیں‘

نائیجیرین ٹیچر ربیکا اوگبونا سات ماہ سے اپنے بچوں کو ان کا پسندیدہ ناشتہ نہیں کھلا سکی ہیں۔

نائجیریا میں خوراک کی افراط زر کا تخمینہ اکتوبر میں 23 فیصد لگایا گیا تھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جو چیزیں میں ایک ہزار نیرا میں خریدتی تھی اب ان کی قیمت تین ہزار یا اس سے زیادہ ہے۔‘

اس وجہ سے اب وہ مکئی کا دلیہ ’گولڈن مارن‘ نہیں خرید سکتیں، جسے ان کے بچے سکول جانے سے پہلے کھاتے تھے۔ 

ربیکا اب یہ گھر میں خود بناتی ہیں۔ ربیکا نے کہا کہ ’میں مکئی، پھلیاں لے کرانھیں پیس لیتی ہوں یا بھگو دیتی ہوں۔‘

ان کے بچوں کو وہ ناشتہ پسند نہیں ہے جو ربیکا مکئی اور پھلیاں سے بناتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں نے بچوں کے لیے یہ ناشتہ بنانا شروع کیا تو انھیں یہ پسند نہیں آیا۔ انھوں نے کہنا شروع کر دیا کہ انھیں یہ پسند نہیں ہے اور وہ اسے نہیں کھا سکتے لیکن مجبوری ہے انھیں یہ کھانا ہے۔‘

ربیکا ایک ٹیچر ہیں۔ وہ ماہانہ 4,500 نیرا کماتی ہیں، جو نائیجیریا میں کم سے کم اجرت سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔ پھر بھی، یہ آمدنی ان کے خاندان کی بقا کے لیے کم ہے۔

clothes
Getty Images

’نئے کپڑے خریدنا بھی مشکل‘

ایک سال پہلے، جیسیکا ریکم نے لندن کے ایک آن لائن ریٹیل گودام میں کام کر کے ساڑھے نو پاؤنڈ فی گھنٹہ کمائے تھے۔

تاہم اب وہ طویل گھنٹوں کی شفٹس سے تنگ آ چکی ہیں لیکن کچھ کر نہیں سکتیں۔

اس بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ’ان کے پاس کام کرنے کے لیے کافی لوگ نہیں ہیں۔ انھوں نے میری شفٹ کو دگنا کر دیا اور مجھے اسے قبول کرنا پڑا کیونکہ ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے۔

’میں 15 یا 16 گھنٹے کام کرتی ہوں، آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ میرے لیے کتنا تھکا دینے والا ہے۔‘

گھر میں آرام کرنا بھی ان کے لیے آسان نہیں ہے۔ پرانے گدے سے ان کی کمر میں درد ہوتا ہے لیکن وہ پرانے کو بدل کر نیا گدا نہیں خرید سکتیں۔

جیسکا کہتی ہیں کہ ’پچھلے سال تک وہ کریڈٹ پر چیزیں خرید سکتی تھیں اور چھوٹی قسطوں میں ادا کر سکتی تھیں، لیکن اب ان کی آمدنی گھر کے کرائے اور گروسری پر خرچ ہو رہی ہے۔‘

وہ نئے کپڑے بھی نہیں خرید سکتیں۔ ان کے مطابق، زیادہ کام اور تناؤ سے متعلق مسائل کی وجہ سے وہ ایک سے زیادہ بار کریش ہوئیں اور انھیں ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ میں رہنا پڑا۔

اس کے بعد انھیں نوکری تبدیل کرنے کا مشورہ دیا گیا لیکن ان کی عمر میں ایسا کرنا آسان نہیں ہے۔

korea
Getty Images

29 سالہ دا وون جیونگ، جو ایک سپر مارکیٹ میں کام کرتی ہیں اب تک اپنے والدین سے ملنے اپنے گاؤں نہیں جا سکیں۔

جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیئول سے بس اور ٹرین کے ذریعے سفر کرنے کے لیے 115 ڈالر کی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے اور یہ ان کی پہنچ سے باہر ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں اپنی اور اپنے والدین کی سالگرہ اکٹھے منانا چاہتی تھی لیکن میں ایسا نہیں کر سکی اور مجھے اس پر دکھ ہوتا ہے۔‘

قیمتوں میں اضافے سے نہ صرف ان کا بجٹ متاثر ہوا ہے بلکہ شرح سود میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے اپنے فلیٹ کی رقم جمع کروانے کے لیے قرض لیا تھا، اب اس کی ماہانہ قسط بھی بڑھ گئی ہے۔

جیونگ کہتی ہیں کہ ’اب میں صرف زندہ رہنے کے لیے کام کرتی ہوں۔ پہلے میں اپنے والدین کے لیے کچھ رقم بچاتی تھی لیکن اس سال میں نے اپنی ساری بچت روزمرہ کے اخراجات کے بلوں کی ادائیگی کے لیے خرچ کر دی۔‘

’یہ رقم میں نے ہنگامی حالات اور دیکھ بھال کے لیے بچائی تھی۔‘

وہ مزید کہتی ہیں ’حکومت نے 2022 میں کم از کم اجرت کو پانچ فیصد بڑھا کر6.80 ڈال فی گھنٹہ کر دی لیکن قیمتیں اس سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھی ہیں۔

’حکومت کو امیروں پر زیادہ ٹیکس لگانا چاہیے اور غریبوں کی مدد کرنی چاہیے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.