فلسطین کی مذہب، ثقافت، تجارت اور سیاست کے سنگم کے طور پر ایک لمبی اور ہنگامہ خیز تاریخ ہے۔ قدیم زمانے میں فلسطین پر وقفے وقفے سے متعدد آزاد سلطنتوں اور متعدد عظیم طاقتوں کے ذریعہ کنٹرول کیا جاتا رہا۔
1948 سے فلسطین اسرائیل، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں منقسم ہےاور یہاں کے مسلمانوں کی زمینوں پر قبضہ کرکے یہودیوں کی آباد کاری کا سلسلہ جاری ہے لیکن اس کے باوجود مسلمان اپنی املاک اور مذہبی مقامات کی حفاظت کیلئے سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں، ایسی ایک خاتون مریم ہیں جنہیں ان کا 20 میٹر کا گھر خالی کرنے کیلئے 3 ملین ڈالر ایک بلینک چیک کی پیشکش کی جاچکی ہے لیکن وہ خاتون اپنا چھوٹا سے گھر دینے کو تیار نہیں ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق فلسطینی خاتون مریم کا یہ گھر 3 کمروں پر مشتمل ہے اور بھاری قیمت کے باوجود اس چھوٹے سے گھر کو نہ بیچنے کی وجہ یہ ہےکہ جب وہ اپنے کمروں کی کھڑکیاں کھولتی ہیں انہیں مسجد اقصیٰ دکھائی دیتی ہے، اس لئے وہ خاتون کسی قیمت پر اپنا گھر دینے کو تیار نہیں ہیں۔
مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول اور خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔متعدد روایات کے مطابق خانہ کعبہ کے بعد دوسری عبادت گاہ الاقصیٰ تعمیر ہوئی تھی۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سفر معراج کے دوران مسجد حرام سے یہاں پہنچے تھے اور مسجد اقصیٰ میں تمام انبیا کی نماز کی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے سات آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے۔
قرآن مجید کی سورہ الاسرائیل میں اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
”پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کورات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لیے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائيں یقینا اللہ تعالٰی ہی خوب سننے والا اوردیکھنے والا ہے (سورہ الاسرائیل آیت نمبر 1)