وہ لمحات جب انڈیا کی فضائیہ نے اپنے ہی شہریوں پر بم برسائے

28 فروری 1966 کو میزو نیشنل فرنٹ کے باغیوں نےانڈین سیکورٹی فورسز کو میزورم سے باہر نکالنے کے لیے 'آپریشن جیریکو' شروع کیا۔ اس مہم میں سب سے پہلے میزورم کے دارالحکومتآئیزول اور لنگلائی میں آسام رائفلز کی چھاؤنی کو نشانہ بنایا گیا۔

یہ 21 جنوری 1966 کی بات ہے اندرا گاندھی کے وزیر اعظم بننے میں ابھی تین دن باقی تھے۔

انڈیا کی سیاسی جماعت میزو نیشنل فرنٹ (ایم این ایف) کے رہنما لال ڈینگا نے انڈونیشیا کے صدر سوکارنو کو خط لکھا۔

اس خط میں انھوں نے انڈیا کی ریاست میزورمکی تاریخ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھاکہ ’برطانوی دور حکومت میں بھی ہم اس حالت میں رہ رہے تھے جو آزادی کے قریب تھی۔ سیاسی بیداری سے جنم لینے والی قوم پرستی اب یہاں پختہ ہوچکی ہے۔ہمارے لوگوں کی واحد خواہش ہے کہ ہماب اپنا علیحدہ وطن بنائیں۔‘

جب لال ڈینگا اس خط پر دستخط کر رہے تھے،عین اسی وقتباہر کھڑے دو لڑکے 'آڑو' اور 'انناس' کے بارے میں باترہے تھے جو انہوں نے جمع کیے تھے۔ آس پاس کھڑے لوگوں کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ پھلوں سے متعلق ان کی گفتگو میں ’آڑو‘ توپ کے گولوں کے لیے جبکہ ’انناس‘ دستی بم کے لیے بطور کوڈ ورڈ استعمالہو رہے ہیں۔

اسی خفیہ زبان میں جب میزو باغی بانس کے ڈنڈےکی بات کرتے تھے تو ان کا مطلب 3 انچ کا مارٹر بم ہوتا تھا۔ اور جب ان کی گفتگو میںلمبی گردن والے ٹڈے نما کیڑے یوفام کا حوالہ آتا تو اس سے ان کا مطلب ہلکی مشین گن ہوتا تھا۔ اور جب کہیںپہاڑی پرندے ٹوکلو' کی خوبصورتی کی باتکی جاتی تو کوڈ ورڈ میں وہ دراصل ٹامی گن کا ذکر کرتے تھے۔

عوام کا خزانہ لوٹا گیا

28 فروری 1966 کو میزو نیشنل فرنٹ کے باغیوں نےانڈین سکیورٹی فورسز کو میزورم سے باہر نکالنے کے لیے 'آپریشن جیریکو' شروع کیا۔ اس مہم میں سب سے پہلےمیزورم کے دارالحکومتآئیزول اور لنگلائی میں آسام رائفلز کی چھاؤنی کو نشانہ بنایا گیا۔

اگلے دن میزو نیشنل فرنٹ نےانڈیا سے آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ کچھ ہی دیر میں، انہوں نے آئیزول میں سرکاری خزانے پر جبکہ چمفائی اور لنگلائی میں واقعفوجی اڈوں پر قبضہ کر لیا۔

نرمل نبیدن اپنی کتاب 'میزورم: دی ڈیگر بریگیڈ' میں لکھتے ہیں، "گوریلوں کی ایک پلاٹون نے سب ڈویژنل آفیسر کو عملے سمیت یرغمال بنا لیا تھا۔ ایک اور گروہنے پی ڈبلیو ڈی کے دفتر کا سامان جیپوں میں لاد دیا۔

تاہم ان گروہوں کوباہر نکلنے سے روکنے کے لیے ان پر مسلسل فائرنگ کی جا رہی تھی۔

لنگلائی میں سرکاری خزانے پر چھاپہ مارنے کے بعد لوہے کے ڈبوں کو جیپوں پر لادا گیا، بعد میں پتہ چلا کہ ان ڈبوں میں 18 لاکھ روپے تھے۔

رابطے کاٹنے کے لیے ٹیلی فون کنکشن منقطع کیے گئے

آدھی رات کے وقت کیا جانے والا حملہ اس قدر شدید تھا کہ جوانوں کو اپنے ہتھیار لوڈ کرنے اور لنگلائی اور آئیزول کو اطلاع دینے کی مہلت بھی نہ مل سکی۔

جنگجو گوریلوں نے وہاں رکھا تمام اسلحہ لوٹ لیا۔ ان کے پاس چھ ہلکی مشین گنیں، 70 رائفلیں، 16 سٹین گنز اور چھ گرینیڈ فائر کرنے والی رائفلیں تھیں۔ اس حملے میں انھوں نےایک جونیئر کمیشنڈ آفیسر اور 85 جوانوں کو قید کر لیا۔

گوریلوں کے اس حملے کے دوران وہاں سے صرف دو سپاہی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے جنھوں نے بعد میں اس حملے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔

گوریلوں کے ایک گروپ نے ٹیلی فون ایکسچینج میں جا کر تمام رابطے منقطع کر دیے جس کی وجہ سے آئیزول کا رابطہباقی ملک سے منقطع ہو گیا۔

صبح ساڑھے تین بجے میزو نیشنل فرنٹ کے جنگجو لال ڈینگا اور ان کی کابینہ کے چھ ارکان کو آئیزول سے اٹھا کر پانچ میل دور جنوبی علاقےہلیمن میں لے گئے۔

انڈین فوج نے ہیلی کاپٹروں کے ذریعےاپنے فوجیوں اور ہتھیاروں کو وہاں پہنچانے کی کوشش کی تھی لیکن ایم این ایف کی طرف سے وقفے وقفے سے فائرنگ نے انھیں نیچے اترنے کی اجازت نہیں دی۔

ٹورنیڈو اور ہنٹر طیاروں نے بمباری شروع کر دی

انڈیا میں اندرا گاندھینے بطور وزیراعظم گزشتہ ماہ ہی ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ یہ حالات سامنے آنے پر ان کی حکومت پہلے تو ہکا بکا رہ گئیتاہم انھوں نے جوابی کارروائی کرنے میں ذرا بھی وقت نہیں لیا۔

5 مارچ 1966 کو صبح ساڑھے 11 بجے انڈین فضائیہ کے چار سٹارم ٹروپرز اور ہنٹر طیاروں کو آئیزول پر بمباری کی ذمہ داری سونپی گئی۔

ان طیاروں نے تیز پور، کُمبی گرام اور جورہاٹ سے اڑان بھرنے کے بعد پہلے دن مشین گنوں سے فائر کیا۔ اگلے دن وہ دوبارہ واپس آئے اور اس بار انھوں نے آگ لگانے والے بم گرائے۔

13 مارچ تک آئیزول اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر بمباری کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران وہاں کے رہائشیوں میں خوف کی لہر دوڑ گئی اور انھوں نے شہر سے بھاگ کر آس پاس کے پہاڑوں میں پناہ لی۔

کچھ باغیوں نے بھاگ کر میانماراور بنگلہ دیش کے جنگلوں میں پناہ لی جو اس وقت مشرقی پاکستان کہلاتا تھا۔

میزو نیشنل فرنٹ کے رکن تھنگسانگا ان لمحاتکو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

’ہمارے چھوٹے سے قصبے پر اچانک ہی چار طیاروںکی گھن گرج شروع ہو گئی۔ یہ طیارے گولہ بارود گرا رہے تھے جن سے کئی عمارتوں میں آگ لگ گئی۔ مکاناتتباہ ہو کر گر رہے تھے، چاروں جانب دھول مٹی اور دھواں ہی دھواں تھا اور لوگ چاروں جانب اِدھرسے اُدھر بھاگ رہے تھے۔‘

گاؤں کی کونسل کے ایک رکن رام روتا نے ان لمحات کے بارے میں بتایا۔

’ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ مرکزی حکومت اپنے ہی علاقے میں بمباری کر دے گی۔ ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جو حکومت چین کے اندر اپنے طیارے بھیجنے کی ہمت نہیں کر سکی، اس نے آئیزول پر بمباری کے لیے جنگی طیاروں کا استعمال کیا۔‘

اچھے طیارےبمقابلہ بپھرے ہوئے طیارے

معروف قانون ساز جی جی سویلے اور ریورنڈ کولس رائے کی سربراہی میں قائم انسانی حقوق کی کمیٹی کو ایک مقامی شخص نے بتایا کہ ’اس دن آئیزول کے اوپر دو طرح کے ہوائی جہاز اڑ رہے تھے، اچھے طیارے اور ناراض طیارے۔ اچھے طیارے وہ تھے جن کی رفتار نسبتاً دھیمی تھیاور ان سے آگ نہ ہی گولہ بارود کا دھواں نکل رہا تھا جبکہغصے سے بپھرے ہوئے طیارے وہ تھے جن کی رفتار آواز سے بھی ذیادہ ہی تھی اور وہ ہم پر آگ برسا کر نظروں میں آنے سے پہلے ہی غائب ہو جاتے تھے۔‘

میزو نیشنل آرمی کے ایک رکن سی زما نے ایک کتاب 'ان ٹولڈ سٹوری' لکھی تھی جس میں انہوں نے اس واقعے کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

انھوں نے لکھا، 'بمباری کے وقت میں اپنے دادا کے گھر کے قریب ایک درخت کے نیچے چھپا ہوا تھا۔ دھماکوں نے مجھے دہشت ذدہ کردیا تھا، میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے کان ڈھک لیے، جب بمباری بند ہوئی تو میں گھر چلا گیا جہاں کوئی نہیں تھا۔

انھوں نے مزید لکھا ’میرے گھر میںکوئی نہیں تھا، پھر میں جنگل کی طرف بھاگا، جنگل میںمجھے اپنی ماں ملیں۔انھوں نے میری چھوٹی بہن کو بازوؤں میں اٹھا رکھا تھا۔ میں نے دیکھا کہ ان کی کمر اور بازو سے خون بہہ رہا تھا۔‘

یہ بمآئیزول کے علاوہ خوازل، پکپوئی، ورٹیکائی، ملتھوم، سنگاؤ اور بنگھمن میں بھی گرائے گئے تھے۔

انڈیا
Getty Images
قانون ساز جی جی سویلے

ضلع بھر میں شناختی کارڈ تقسیم کئے گئے۔

لنگلائی کی طرف مارچ کرنے والے فوجیوں نے وہاں بھی بم گرانے کی دھمکی دی کیونکہ پورا قصبہ ایم این ایف کے زیر کنٹرول تھا۔

چونگسائیلووا اپنی کتاب ’میزورم': 20 تاریک سالوں کے دوران‘ میں لکھتی ہیں، ’چرچ کے رہنماؤں نے ایم این ایف سے شہروں کو چھوڑنے کی درخواست کی تا کہ معصوم شہریوں کو بمباری سے ہونے والے جانی و مالی نقصان سے بچایا جا سکے۔‘

’جب 13 مارچ کو انڈین فوج وہاں داخل ہوئی تو انھیں وہاں کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ لیکن نام نہاد میزو حکومت نے اس علاقے میں رہنے والے تمام ایسے لوگ، جن کا تعلق میزو سے نہیں تھا، انھیں 17 اگست 1967 تک علاقہ چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔

اس نوٹس میں کہا گیا تھا کہ ’تمام ایسے افراد جو غیر میزو کی انتظامیہ میں کام نہیں کر رہے، انڈیا کی سرکار میں کام کرنے والے ملازمین اور ہندو مذہب کے ماننے والے افرادیکم ستمبر 1967 تک میزورم چھوڑ دیں۔‘

حکومت نے آئیزول اور لنگلائی میں مرکزی سڑک کے دونوں طرف 10 میل کے علاقے کو محفوظ علاقہ قرار دیا۔باغیوں اور مقامی لوگوں میں فرق کرنے کے لیے ضلع بھر میں شناختی کارڈ تقسیم کیے گئے اور ایسے افراد کو فوری گرفتار کرنے کا حکم جاری کیا گیا جو اس کارڈ کو طلب کرنے پر انکار کرتے۔

حکومت کی خاموشی۔

اس بمباری سے آئیزول شہر کو کافی نقصانپہنچا تاہم قابلِ غور بات یہ ہے کہ اسپورے واقعے میں صرف 13 شہری مارے گئے تھے۔انڈین حکومت اور فضائیہ کی جانب سے اس معاملے پر یا تو مکمل خاموشی اختیار کی گئی یا پھر اس کی تردید کی گئی۔

اس واقعے کی تفصیلات کئی دہائیوں بعد اس وقت سامنے آئیں جب کچھ عینی شاہدین نے اس کے بارے میں بیرونی دنیا کو بتانا شروع کیا۔

یہ پہلا اور واحد موقع تھا جب انڈیا میں اپنے ہی شہریوں پر حملہ کرنے کے لیے فضائیہ کا استعمال کیا گیا۔

کولکتہ سے شائع ہونے والے اخبار ہندوستان اسٹینڈرڈ نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے حوالے سے کہا کہ جنگی طیارے فوجیوں اور رسد کو گرانے کے لیے بھیجے گئے تھے لیکن پھر یہ سوال بھی اٹھایا کہ جنگی طیارے راشن گرانے کے لیے استعمال کیوں کیے گئے؟

اندرا گاندھی کے کردار پر سوال

اندرا گاندھی
Getty Images

اس سارے معاملے میں ایک سوال یہ بھی سامنے آیا کہکیا اندرا گاندھی نے میزو کے خلاف فضائی طاقت کا استعمال کرکے صحیح کام کیا؟ اس سے قبل پاکستان نے بلوچستان میں اپنے شہریوں اور لیبیا میں کرنل قذافی نے مخالفین کے خلاف فضائیہ کا استعمال کیا تھا۔

معروف صحافی اور 'دی پرنٹ' کے ایڈیٹر شیکھر گپتا نے 'ڈیلی' میں اپنے مضمون میں لکھا ’کیا اندرا گاندھی کا اپنے ہی ہم وطنوں کے خلاف فضائی طاقت کا استعمال کرنا درست تھا۔ اور اس پر میں نے انہیں تقریباً کلین چٹ دے دی ہے۔‘

شیکھر گپتا لکھتے ہیں، ’اپنے آپ کو اندرا گاندھی کی جگہ پر رکھو۔ وہ لال بہادر شاستری کی موت کے صرف چھ ہفتے بعد اقتدار میں آئی تھیں۔ پاکستان کے ساتھ انڈیا کی جنگ صرف چند ماہ پہلے ہی ختم ہوئی تھی، جس کا کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکلا تھا۔ دراوڑ تحریک جنوب میں زور پکڑ رہی تھی اور چین اور پاکستان کی کھلی حمایت سے علیحدگی پسند قوتوں نے ناگالینڈ میں سر اٹھا لیا تھا۔‘

1962 میں چین سے جنگ ہارنے کے بعد بھی انڈیا کی سرحد پر چین کا دباؤ کم نہیں ہوا۔ خشک سالی کے بعد انڈیا مشکل معاشی صورتحال سے گزر رہا تھا ایسے وقت میں لال ڈینگا نے بھی بغاوت کا علم بلند کر دیا تھا۔

شیکھرگپتا مزیدلکھتے ہیں، ’اس وقت میزورم میں انڈین فوجیوں کی تعداد کم تھی۔ صرف چند نیم فوجی دستے آسام رائفلز کے علاقے میں موجود تھے۔ آئیزول میں باغیوں نے سرکاری ہیڈ کوارٹر پر ایم این ایف کا جھنڈا لہرا دیا تھاایسے میں اندرا گاندھی نے، جنھیں رام منوہر لوہیا 'گونگی گڑیا' کہتے تھے، انڈینفضائیہ کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔

شیکھر گپتا
Getty Images

منصوبے میں راجیش پائلٹ اور سریش کلماڈی شامل تھے۔

اس وقت انڈین فضائیہ کے پاس مشرقی سیکٹر میں زیادہ جنگی صلاحیت نہیں تھی، اس لیے اس آپریشن میں پرانےہنٹر طیارے استعمال کیے گئے۔

شیکھر گپتا لکھتے ہیں، ’اس کا بنیادی مقصد باغیوں میں خوف اور انتشار پھیلانا تھا تا کہ انڈین فوجیوں کو وہاں پہنچنے کا وقت ملے۔ ان سست رفتار پرواز کرنے والے طیاروں کے پیچھے گولہ بارود لادا گیا تھا اور اسے آئیمول کے اوپر بے ترتیبی سے گرا دیا گیا تھا۔ ان ہوائی جہازوں میں دو پائلٹ تھے جنھوں نے بعد میں انڈین سیاست میں نام کمایا۔ ایک کا نام راجیش اور دوسرے کا نام سریش کلماڈی تھا۔ دونوں بعد میں مرکزی وزیر بنے۔‘

فضائیہ کے استعمال کے پیچھے خواہ کتنے ہی دلائل دیے جائیں لیکن اس نے میزو باغیوں کے ہاتھ میں پروپیگنڈے کا ایساہتھیار تھما دیا جسے انھوں نے انڈیا کے خلاف بھی خوب استعمال کیا۔

یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ بھارت اپنے لوگوں کی پروا نہیں کرتا اور ان کے خلاف بم گرانے سے بھی دریغ نہیں کرتا

گاؤں والوں کی نقل مکانی کا متنازع منصوبہ

حکومت کی جانب سے سنہ 1967 میں ایک سکیم کے تحت دیہاتوں کو دوبارہ منظم کیا گیا تاہم یہ منصوبہ متنازع بن گیا۔

اس منصوبے کےتحت پہاڑوں پر رہنے والے میزو سے تعلق رکھنے والوں کو گاوں سے نکال کر مرکزی سڑک کے دونوں طرف آباد کیا گیا تا کہ انڈین انتظامیہ ان پر نظر رکھ سکے۔

ابھیک برمن اکنامک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے مضمون ’میزورم میں فضائی حملہ، 1966 اور ہمارا ڈرٹی لٹل سیکریٹ‘ میںلکھتے ہیں ’فوجی منصوبہ ہر جگہ سے دیہاتیوں کو اکٹھا کرنا اور اس سڑک کے دونوں طرف آباد کرنا تھا۔ میزو سے تعلق رکھنے والوں سے کہا گیا کہ وہ اپنے ساتھ صرف وہی سامان لے جا سکتے ہیں جو وہ اپنی پیٹھ پرلاد سکیں اور باقی کو وہ جللا دیتے تھے۔ اس اچانک ویرانی نے میزو کی زراعت کو بہت نقصان پہنچایا اور اگلے تین سال تک اس علاقے کو خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا۔

20 سال بعد امن

گاؤں والوں کو منتقل کرنے کا خیال برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے ایک اقدام کے بعد سامنے آیا تھا۔

20ویں صدی کے آغاز میں بوئر کی جنگ کے دوران انگریزوں نے اسی طرح سیاہ فام کسانوں کو بے گھر کیا تھا لیکن انگریز ان لوگوں پر یہ تجربات کر رہے تھے جو ان کے غلام تھے۔

لیکن یہاں حکومت ہند اپنے ہی شہریوں کو بے گھر کر کے مشکلات میں ڈال رہی تھی۔

میزورم کے کل 764 گاؤں میں سے 516 گاؤں کے مکینوں کو ان کی جگہ سے بے دخل کر دیا گیا۔ صرف 138 دیہاتوں کو ہاتھ نہیں لگایا گیا۔

انڈیا
Getty Images

یہ بھی پڑھیے:

وہ سڑک جس کی وجہ سے انڈیا پاکستان کے درمیان 65 کی جنگ چھڑی

جب ’انڈین فوجیوں کی لاشیں سڑکوں پر چھوڑ‘ دی گئیں: انڈیا کا گاؤں جہاں آج بھی جنگ کے سائے منڈلاتے ہیں

انڈیا پاکستان جنگ 1971: جب پاکستانی ٹینکوں کو نشانہ بناتے ہوئے انڈین پائلٹ خود نشانہ بن گیا

اس بمباری نے اس وقت میزوکیبغاوت کو توکچل دیالیکن میزورم میں اگلی دو دہائیوں تک بدامنی کا راج رہا۔

سنہ 1986 میں نئی ریاست کی تشکیل کے ساتھ ہی میزورم میں بدامنی کا خاتمہ ہوا۔ راجیو گاندھی کے ساتھ معاہدے کے بعد ایم این ایف کے سربراہ لال ڈینگا نے ریاست کے پہلے وزیر اعلی کے طور پر حلف لیا۔

انھوں نے اسی جگہ انڈیا کا پرچم لہرایا جہاں 20 سال قبل ایم این ایف کا جھنڈا لہرایا گیا تھا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.