رکھما بائی: ہندوستان کی دوسری ڈاکٹر جن کی بچپن کی شادی ملکہ وکٹوریہ نے ختم کروائی

مراٹھی خاندان کی رکھما بائی کی عمر 11 سال تھی جب سنہ 1875 میں اُن کی شادی 19 سالہ دادا جی بھیکاجی سےکر دی گئی۔

بھیکا جی، رکھما بائی کے سوتیلے والد ڈاکٹر سکھارام ارجن کے ایک غریب رشتے دار تھے۔

سدھیر چندر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ رکھما بائی کی شادی میں یہ شرطرکھی گئی کہ بھیکا جی گھر داماد ہوں گے اور وہ سسرال ہی کے خرچ پر تعلیم حاصل کر کے ’ایک اچھا انسان‘ بنیں گے۔ اگرچہ شادی تو ہو گئی مگر رخصتی نہیں کی گئی۔ اور چھ ماہ بعد جب رکھما بائی کی بلوغت کا آغاز ہوا تو اصلاحی رجحانات رکھنے والے ان کے والدڈاکٹر ارجن نے اتنی کم عمری میں رخصتی کو انکی صحت کے لیے نقصان دہ جان کر اس کی اجازت نہ دی۔

بھیکا جی، جو اب 20 سال کے تھے اپنے سسر کے اس فیصلے پر شدید خفا ہوئے کیونکہ وہ پہلے ہی اس شادی کے بدلے تعلیم دیے جانے اور ’ایک اچھا انسان‘ بنانے کی کوششوں پر ناراض تھے۔

اسی دوران بھیکاجی کی والدہ کی وفات ہو گئی اور وہ ڈاکٹر ارجن کے مشورے کے خلاف، اپنے ماموں نارائن دھرما جی کے ہاں رہنے لگے۔

ماموں دھرما جی کے گھر کے ماحول نے بھیکا جی کو مزید سستی اور بے راہ روی کیطرف دھکیل دیا اور انھوں اس امید میں خود پر قرض چڑھا لیا کہ رکھما بائی کو جہیز میں ملنے والی جائیداد کو بیچ کر وہ اس قرض کو چکا دیں گے۔

رکھما بائی
BBC

مگر دوسری جانب رکھما بائی نےدھرما جی کے ہاں ٹھہرے بھیکا جی کے پاس جانے سے انکار کر دیا اور اس فیصلے کی تائید ان کے سوتیلے والد نے بھی کی۔

مارچ 1884 میں بھیکا جی نے ڈاکٹر ارجن کو ایک قانونی نوٹس بھیجا کہ وہ رکھما بائی کو ان کے ہاں بسنے سے نہروکیں۔ ڈاکٹرارجن نے اپنے وکلا کے ذریعے رکھما بائی کے بھیکاجیکا گھر بسانے سے انکار کی وجوہاتبتائیں۔

سنہ 1885 میں بھیکاجی کا مقدمہ سنتے ہوئے جسٹس رابرٹ ہل پنہے نے قرار دیا کہ رکھما بائی کی شادی ان کے ’بے بس بچپن‘ میں ہوئی تھی اور وہ کسی نوجوان عورت کو مجبور نہیں کر سکتے۔ اس فیصلے کے کچھ ہی عرصے بعد جسٹس رابرٹ ریٹائر ہو گئے۔ اس فیصلے پر سماج کے مختلف طبقوں نے تنقید بھی کی۔

سنہ 1886 میں اسی مقدمے کیدوبارہ سماعت ہوئی۔ مؤرخ شومپا لاہِری کے مطابق کچھلوگوں نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ قانون ہندو رسم و رواج کے تقدس کا احترام نہیں کرتا۔ ایک اینگلو مراٹھی ہفتہ وار میگزین نے بھیکاجی کی حمایت کی۔ بال گنگادھر تلک نے پونے کے ایک ہفتہ وارمیںلکھا کہ جسٹس پنہے ہندو قوانین کی روح کو نہیں سمجھتے تھے اور انھوں نے ’جبری طور‘ پر قانون میں اصلاحات کی کوشش کی۔

مقدمے سے پہلے اور اس دوران ٹائمز آف انڈیا میں ’ایکہندو خاتون‘ کے مضامین بھی عوامی ردِعمل کا باعث بنے جن کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ یہ رکھما بائی نے لکھے تھے۔

انھوں نے لکھا ’میں ان بدقسمت ہندو خواتین میں سے ایک ہوں جنھیں کم عمری کی شادی کے رواج کی وجہ سے بے نام مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس برےعمل نے میری زندگی کی خوشیوں کو تباہ کر دیا ہے، یہ میرے اور اس چیز کے درمیان آتا ہے جسے میں سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہوں یعنی مطالعہ اور ذہنی نشوونما۔‘

4 مارچ 1887 کو جسٹس فرن نے ہندو قوانین کی تشریحات کا استعمال کرتے ہوئے رکھما بائی کو حکم دیا کہ وہ ’اپنے شوہر کے ساتھ رہیں یا چھ ماہ قید کا سامنا کریں۔‘ سدھیر چندر کے مطابق رکھما بائی نے جواب دیا کہ وہ فیصلے کو ماننے کے بجائے قید کا سامنا کریں گی۔ رکھما بائی کے اس فیصلے کے نتیجے میں مزید سماجی بحث چھڑ گئی۔

انتمام برسوں میں، رکھما بائی لائبریری سے کتابیں لے کر گھر پر پڑھتی رہیں۔رکھما بائی پر اپنی کتاب میں مصنفہ کویتا راؤ نے ان کے ان الفاظکا حوالہ دیا ہے: ’مجھے پڑھائی کا بہت شوق تھا جب کہ شادی شدہ زندگی سے بیزاری تھی، اور اگرچہ 11 سال کی عمر کے بعد سکول نہجا سکیلیکن میں نے سکول چھوڑنے کے بعد گھر پر انگریزی سیکھنا شروع کی۔ میں نے خواتین کی حالت پر سنجیدگی سے غور کرنا شروع کیا اورسوچا کہ ہمیں اپنے دکھوں کو دور کرنے کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔‘

پدما اناگول میکگین نے لکھا ہے کہمذہبی اور سماجی مصلحین کے ساتھ بھی ان کارابطہرہا اور وہ اپنی والدہ کے ساتھ، خواتین کے ’پرارتھنا سماج‘ اور ’آریا مہِلا سماج‘ کے ہفتہ وار اجلاسوں میں بھی باقاعدگی سے شرکت کرتی رہی تھیں۔

بال گنگادھر تلک لکھتے ہیں کہ رکھما بائی کی رسوم کی مخالفت انگریزی تعلیم کا نتیجہ ہے۔ دوسری طرف ماہرِسماجیات میکس مولر نے جواب میں لکھا کہ یہانکی تعلیم ہی تھی جس نے انہیں اپنی راہ خود چننے کا اختیار دیا تھا۔ یہ تبصرہ مولر نے 1887 میں ٹائمز کو لکھے ایک خطمیں رکھما بائی کے معاملے پر کیا۔ وہہندوستان میں بچوں کی شادی کے رواج کے بارے میں بہتفکر مند تھے۔

عدالتی مقدمات کے ایکسلسلے کے نتیجے میں اس شادی کی تصدیق ہوئی مگر رکھما بائی نے ملکہ وکٹوریہ سے اس کے خلاف اپیل کر دی۔

رکھما بائی
BBC

ڈیلی ٹیلی گراف کی15 جولائی 1887 کی اشاعت کے مطابقرکھما بائینے لکھاکہ ’ملکہ وکٹوریہ کی حکومتاگر ہندو عورت کو غلامی سے چھٹکارا نہیں دلا سکتی تو روئے زمین پر کون سی حکومت ہے جو ہند کی بیٹیوں کو ان کے مصائب سے نجات دلائے؟کیا ماں (ملکہ) اپنی لاکھوں ہندوستانی بیٹیوں کی پُر زور اپیل کو سُنے گی اور انھیں ہندو قانون میں تبدیلی کے چند آسان الفاظ عطا کرے گی کہ 'لڑکوں کی 20 اور لڑکیوں کی 15 سال کی عمر سے پہلے کی جانے والی شادیاں اگر عدالت میں لائی جائیں تو قانونی تصور نہیں ہوں گی۔‘

ہیلن ریپوپورٹ نے لکھا ہے کہ ملکہ وکٹوریہ نے عدالت کے فیصلےکو مسترد کر دیا اور اسشادی کو ختم کر دیا۔ تاہم اس کیس میں ملکہ وکٹوریہ کی براہ راست مداخلت کاکوئی دستاویزی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔

جولائی 1888 میں بھیکا جی کے ساتھ ایک سمجھوتا ہوا اور انھوںنے دوہزار روپے کے بدلےرکھما بائی پر اپنا دعویٰ چھوڑ دیا اور جرارڈ ولی کے مطابقاگلے سال نئی شادی کر لی۔

اسمقدمےنے ہندوستان اور انگلستان میں کافی بحث چھیڑ دی۔ اس میں روڈیارڈ کپلنگ جیسے ناموں کی صحافتی رائے اور خواتین کے رسالوں میں وسیع تر حقوق نسواں کے مباحث شامل تھے۔ ہیلن ریپوپورٹ نے لکھا ہے کہ اس تشہیر اور بحث کےزیرِاثر 1891 میں ’ایج آف کنسنٹ ایکٹ‘ کے نام سے قانون بناجس نے پورے برطانوی ہندوستان میں رضامندی کی عمر کو 10 سے 12 سال کر دیا جو بڑھتے بڑھتے اب 18 سال ہو چکی ہے۔

رکھما بائیکیتعلیم کے لیے فنڈ اکٹھا کیے گئے۔ سنہ 1889 میں وہبرطانیہمیں طب کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے روانہ ہو گئیں۔

1894 میں انھوں نے لندن سکول آف میڈیسن فار ویمن سے ڈاکٹر آف میڈیسن کی ڈگریحاصل کی۔ ڈاکٹر کدمبینی گنگولی اور آنندی گوپال جوشی پہلی ہندوستانی خواتین تھیں جنھوں نے 1886 میں میڈیکل کی ڈگریاں حاصل کیں۔ لیکن جوویتا اراھنا کہتی ہیں کہصرف ڈاکٹر گنگولیہی نےمیڈیسن کی پریکٹس کی، یوں رکھما بائی دوسری خاتون بن گئیں جنھوں نے میڈیکل ڈگری حاصل کی اور تین دہائیوں تک پریکٹس بھی کی۔

سنہ 1895 میں وہ ہندوستان واپس آئیں اور سورت میں خواتین کے ہسپتال میں کام کیا۔ سنہ 1918 میں انھوں نے ویمنز میڈیکل سروس میں تعیناتیکی پیشکش کو ٹھکرا دیا اور اس کے بجائے 1929 میں اپنی ریٹائرمنٹ تک راجکوٹ کے سرکاریزنانہ ہسپتال میں کام کرنے کا انتخاب کیا۔ انھوں نے راج کوٹ میں ریڈ کراس سوسائٹی بھی قائم کی۔

اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد، انھوںنے ایک پمفلٹ شائع کیا جس میں دلیل دی گئی کہ نوجوان بیواؤں کو ہندوستانی معاشرے میں فعال طور پر حصہ ڈالنے کا موقع نہیں دیا جا رہا۔

رکھما بائی کا انتقال 90 سال کی عمر میں 25 ستمبر 1955 کو پھیپھڑوں کے کینسر سے ہوا۔سورت کے ایک ہسپتال کا نام ان کے نام پر رکھا گیا۔

اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ انھوں نے کبھی اپنے والد، سوتیلے باپ یابھیکا جی کا نام اپنے نام سے جوڑا ہو۔ بی ایچ بینٹ نے ان پر لکھی اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہدستخط میں وہ ’رکھما بائی‘ ہی لکھتیں اور طبی ماہرکے طور ان کی رجسٹریشن بھی صرف ’رکھما بائی‘ ہی کےنام سے ہوئی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.