کروڑوں ڈالر کے جرمانے، تنازعات اور چیلنجز: فیس بُک کماتا کیسے ہے اور کیا اس میں سب ٹھیک چل رہا ہے؟

فیس بک
Getty Images

صارفین کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’فیس بُک‘ اکثر تنازعات کی زد میں رہتا ہے۔

انٹرنیٹ سکیورٹی اور ڈیٹا پرائیویسی قوانین کی خلاف ورزی جیسے معاملات میں امریکا اور یورپی یونین نے فیس بُک پر بڑے جرمانے بھی عائد کیے ہیں مگر آج بھی لگ بھگ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی روزانہ فیس بُک استعمال کرتی ہے۔

آغاز

فیس بک
Getty Images

ہاورڈ یونیورسٹی میں ٹیکنالوجی اور میڈیا کیسیینئر محقق اور میڈیا ماہر جوڈٹ ڈوناتھ کہتی ہیں کہ ’ہاورڈ یونیورسٹی کے پانچ طالب علموں نے فیس بُک کا آغاز کیا، جس نے ڈرامائی طور پر سوشل میڈیا کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ یہ طلبا کی معلومات کی ایک پیپر ڈائریکٹری کے طور پر شروع ہوئی جس میں طلبا کی تصاویر اور سی ویز شامل تھیں اور اس ڈائریکٹری کا نام تھا، فیس بک۔ اور آگے چل کر اُن طلبا نے اپنے نئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کا نام بھی یہی منتخب کیا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’پیپر ڈائریکٹری میں لوگوں کو تلاش کرنا مشکل تھا اور آپ اس پر تبصرہ بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ان طلبا نے ایک ایسا پلیٹ فارم بنانے کی کوشش کی جس میں لوگوں کو تلاش کرنا آسان ہو۔‘

فیس بک کے سفر کے بارے میں جوڈٹ ڈوناتھ کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے اپنی یونیورسٹی سے شروعات کیں لیکن بعد میں اسے دوسری یونیورسٹیوں تک پھیلا دیا گیا۔ یہ ایک ایسی چیز تھی کہ جتنے زیادہ لوگ اس میں شامل ہوں گے، اتنا ہی فائدہ ہو گا۔ دوسری یونیورسٹیوں کے طلبا اس سے جڑے ہوئے، آگے سے اُن کے اپنے دوست اور نیٹ ورک تھا، پھر ان کے رشتہ دار بھی اس میں شامل ہو گئے اور یہ نیٹ ورک پھیلتا رہا۔‘

اور بلآخر سنہ2006میں فیس بک ایک بڑا سوشل میڈیا پلیٹ فارم بن گیا جس نے اس وقت موجود دوسرے پلیٹ فارمز کے ساتھ مقابلہ کرنا شروع کر دیا۔

اس وقت دیگر مقبول اور بڑے سوشل میڈیا نیٹ ورکس تھے جیسے ’مائی سپیس‘ اور ’فرینڈسٹر‘ جہاں لوگ اپنے جاننے والوں کے پروفائل دیکھ سکتے تھے اور اپنے دوستوں کے بارے میں جان سکتے تھے۔

لیکن وہ ’جامد‘ ویب سائٹس تھیں اور وقت کے ساتھ وہاں کچھ زیادہ نہیں بدلا جبکہ دوسری جانب فیس بک نے اس جمود کو توڑنے کے لیے اپنے پلیٹ فارم پر نیوز فیڈ کا فیچر لانچ کر دیا۔

جوڈٹ ڈوناتھ کہتی ہیں کہ ’فیس بک نے نیوز فیڈ فیچر لانچ کیا اور اب لوگ اپنے دوستوں اور جاننے والوں کو اپنی روزمرہ کی سرگرمیوں کے بارے میں بتا سکتے تھے۔ ان کی زندگی میں کیا ہو رہا ہے، وہ کہاں جا رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔‘

اور جب یہ پہلی بار شروع ہوا تو لوگوں کے لیے یہ بالکل نئی چیز تھی۔

جوڈٹ ڈوناتھ کا خیال ہے کہ مارک زکربرگ نے فیس بک کا ابتدائی ڈیزائن بناتے وقت یہ محسوس کیا ہو گا کہ لوگ ایک دوسرے کے بارے میں جاننے کے لیے بہت بے تاب رہتے ہیں۔

اس بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ’کانٹیکٹ کوآپٹ‘ ایک تصور ہے جس کا مطلب ہے کہ ہم نہ صرف اپنے دوستوں کے بارے میں بلکہ آگے سے اُن کے دوستوں کے بارے میں بھی جاننا چاہتے ہیں۔

’بعض اوقات ہم ایک بات دوسروں سے نہیں کہتے جو ہم کسی خاص شخص سے کہنا چاہتے ہیں۔ لیکن فیس بک پر جو کہا جاتا تھا وہ اب ایک بڑے نیٹ ورک تک پہنچ رہا تھا،اس کی وجہ سے معلومات دینے کے طریقے کے ساتھ ساتھ باہمی تعلقات کی مساوات بھی بدلنے لگی۔‘

یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم بہت تیزی سے کامیاب ہوا۔ فیس بک نے چار سالوں میں اس وقت کے مقبول ترین ’مائی سپیس‘ کو پیچھے چھوڑ دیا۔ بعد میں سوشل نیٹ ورکنگ کی بہت سی سائٹیس آئیں لیکن فیس بک پھر بھی پہلے نمبر پر رہا۔

لیکن ایک بڑا سوال یہ ہے کہ فیس بک کیسے کماتی ہے؟

کلکس کے عوض کیش

فیس بک
Getty Images

ابتدا میں فیس بک ’فیس بک‘ نامی کمپنی کی ہی ملکیت تھی لیکن 2021 میں اس کی پیرینٹ کمپنی کا نام بدل کر ’میٹا‘ کر دیا گیا۔

بی بی سی نے برطانیہ کی کارڈف یونیورسٹی کے شعبہ میڈیا سٹڈیز کے سیینئر محقق ڈاکٹر مارلن کومورووسکی سے بات کی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس کا بنیادی کاروبار اشتہارات یعنی ایڈورٹائزنگ ہے۔ فیس بک کی کمائی کا 98 فیصد حصہ اشتہارات سے حاصل ہوتا ہے۔ اس پلیٹ فارم کو شروع سے ہی اشتہاروں کی حکمت عملی کی بنیاد پر بنایا گیا تھا۔ یعنی ہم جتنا وقت فیس بک پر گزارتے ہیں یہ کمپنی اتنا ہی کماتی ہے۔‘

لوگ اور کمپنیاں فیس بک پر اشتہارات لگاتی اور دیکھتی ہیں ۔لیکن اب میٹا نے واٹس ایپ اور انسٹاگرام جیسی بہت سی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس خرید لی ہیں۔

ڈاکٹر مرلن کا کہنا ہے کہ ’یہ تمام کمپنیاں اپنے سوشل میڈیا صارفین کے بارے میں معلومات اکٹھی کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر آپ اپنا فیس بک اکاؤنٹ بہت سی ویب سائٹس پر رجسٹر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ معلومات اشتہارات کے موثر استعمال کے لیے کارآمد ہوتی ہیں۔ اشتہاری کمپنیاں ان ویب سائٹس پر اشتہارات دیتی ہیں۔ اور اس کے لیے وہ فیس بک کو ادائیگی کرتی ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’فیس بُک پر کمپنیوں کے اشتہارات دیکھ کر لوگ اُن کمپنیوں کی ویب سائٹ پر جاتے ہیں اور اُن کی مصنوعات خریدتے ہیں۔ جتنے زیادہ لوگ ان اشتہارات پر کلک کرتے ہیں، فیس بک کو اتنا ہی زیادہ پیسہ ملتا ہے۔ یعنی اگر فیس بک پر ہر روز کم لوگ سائن اپ کرتے ہیں، تو اس کی کمائی بھی کم ہوتی ہے۔‘

اُتار چڑھاؤ اور کروڑوں کے جرمانے

فیس بک
Getty Images

سنہ 2022میں فیس بُک کی آمدنی مسلسل تین سہ ماہیوں تک گرتی رہی۔ لیکن چوتھی سہ ماہی میں اس نے 32 ارب ڈالر کمائے، جو تجزیہ کاروں کے اندازوں سے بہتر آمدن تھی۔

فیس بک نے 2022 میں کل ملا کر 116 ارب ڈالر کمائے۔ اربوں لوگ فیس بک استعمال کرتے ہیں لیکن حالیہ سروے کے مطابق 13 سے 19 سال کی عمر کے نوجوان اب اسے استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں جو مستقبل میں اس کی کمائی کے لیے بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔

ڈاکٹر مرلن کا کہنا ہے کہ ’فیس بک استعمال کرنے والے سب سے بڑے عمر کے گروپ میں 25 سے 34 سال کی عمر کے لوگ ہیں، جو اس کے صارفین کا ایک چوتھائی حصہ بنتے ہیں۔ لیکن 60 سال سے زائد عمر کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد بھی اسے استعمال کرتی ہے۔ دیگر سوشل میڈیا کے مقابلے اس عمر کے لوگ فیس بک پر سب سے زیادہ ہیں۔

لیکن کیا یہ اشتہاری کمپنیوں کے لیے اچھی چیز ہے یا بری چیز؟ ڈاکٹر مرلن بتاتی ہیں کہ ’یہ اس بات پر منحصر ہے کہ اشتہاری کمپنی کس عمر کے لوگوں میں دلچسپی رکھتی ہے۔ لیکن اگر نوجوان صارفین آپ سے رابطہ نہیں کر رہے ہیں، تو مستقبل میں آپ کی مطابقت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔‘

’دوسری بات یہ ہے کہ فیس بک کا انحصار صرف اشتہارات سے ہونے والی آمدنی پر ہے جو کہ کم یا زیادہ ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر گوگل فون کے ساتھ ساتھ متعدد فیچرز بھی فروخت کر رہا ہے کیونکہ آمدنی کے کسی ایک ذریعہ پر انحصار کرنا قدرے مشکل ہے۔‘

حالیہ دنوں میں میٹا نے اپنی کمپنی کی برانڈنگ تبدیل کر دی ہے۔ اس نے میٹاورس میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔میٹاورس کا مطلب ہے ایک ڈیجیٹل دنیا جس میں آپ معلومات سیکھنے، کھیلنے یا شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی ڈیجیٹل شکل میں ایک دوسرے سے جڑے ہوں گے۔ لیکن ایسا ہونے میں کافی وقت لگے گا۔

ڈاکٹر مرلن کا کہنا ہے کہ ’سنہ 2023 کے لیے میٹا کا ہدف کمپنی کو کفایت شعار بنانا ہے، اس لیے وہ اخراجات میں کمی کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارک زکربرگ نے گذشتہ سال کے آخر میں تیرہ ہزار افراد کو نوکری سے نکال دیا۔ کیا یہ صحیح طریقہ ہے یہ کہنا ابھی مشکل ہے۔‘

بی بی سی نے نیو ہیمپشائر یونیورسٹی کے شعبہ قانون میں اسسٹنٹ پروفیسر ٹفنی لی سے بات کی۔ پروفیسر ٹفنی کا خیال ہے کہ فیس بک بین الاقوامی سطح پر کئی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میرے مطابق سب سے بڑا کیس 2018 میں کیمبرج اینالیٹیکا کا تھا، جس میں کمپنی نے بہت سے تھرڈ پارٹی ڈویلپرز کو فیس بک صارفین کی ذاتی معلومات استعمال کرنے کی اجازت دی تھی تاکہ دوسری کمپنیاں اپنے اشتہارات ان لوگوں تک پہنچا سکیں۔‘

’کیمبرج اینالیٹیکا ایسا ہی ایک تھرڈ پارٹی ڈویلپر تھا اور اس نے یہ معلومات لوگوں کی اجازت کے بغیر اور فیس بک کے قوانین کے خلاف استعمال کیں۔‘

دراصل کیمبرج اینالیٹیکا ایک سیاسی مشیر کمپنی تھی جس کی خدمات ڈونلڈ ٹرمپ کی 2016 کی انتخابی مہم میں لی گئی تھیں۔ ٹرمپ نے یہ الیکشن جیتا تھا جس کے بعد 2018 میں یہ معاملہ سامنے آیا تھا۔

اس وقت یہ بات سامنے آئی تھی کہ ساڑھے آٹھ کروڑ سے زیادہ ووٹروں کی معلومات ان کی اجازت کے بغیر انتخابی مہم میں استعمال کی گئیں۔ اس کی بنیاد پر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کو تشہیری اشتہارات بھیجے گئے۔

ٹفنی لی کا کہنا ہے کہ ’اس سے عالمی سطح پر ایک تنازع کھڑا ہو گیا۔ کوئی نہیں چاہتا کہ ان کی معلومات ان ہی کے خلاف استعمال ہوں۔ خاص طور پر جب اسے استعمال کرنے والوں کی نیتیں ٹھیک نہ ہوں۔ اس کے علاوہ کئی اور مسائل بھی سامنے آئے۔ پرائیویسی کا مسئلہ، غلط معلومات پھیلانے اور انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے جیسے مسائل سامنے آئے، ساتھ ہی فیس بک اور اس کے دیگر پلیٹ فارمز پر بھی کورونا سے متعلق سازشی افواہیں پھیلائی گئیں، نفرت آمیز بیانات اور انٹرنیٹ پر لوگوں کو ہراساں کرنے کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔‘

اگر یہ کوئی عام کمپنی ہوتی تو شاید اتنا بڑا معاملے سامنے آنے کے بعد لیکن فیس بُک نہیں رُکی۔

ٹفنی لی کہتی ہیں کہ ’کیمبرج اینالیٹیکا سکینڈل کے بعد، بہت سی کمپنیوں نے فیس بک پر اشتہار دینا بند کر دیے۔ کچھ نے عوامی طور پر کہا کہ وہ ایسے پلیٹ فارم کو سپورٹ نہیں کر سکتے جو انتخابات کو غیر منصفانہ طریقے سے متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ لیکن سادہ کی بات یہ ہے کہ سارا دارومدار صارفین کے ہاتھ میں ہے، اگر صارفین اس پلیٹ فارم پر رہیں گے تو اشتہاری کمپنیاں بھی رہیں گی۔‘

گذشتہ برسوں کے دوران فیس بک نے قانونی معاملات کو طے کرنے کے لیے اربوں ڈالر کے جرمانے ادا کیے ہیں۔ دسمبر 2021 میں اس نے کیمبرج اینالیٹیکا کیس میں 700 ملین ڈالر سے زیادہ کا جرمانہ قبول کیا تاہم کوئی غلط کام کرنے کا اقرار نہیں کیا۔

اسی طرح یورپی یونین نے ڈیٹا پرائیویسی کی خلاف ورزیوں پر فیس بک اور انسٹاگرام پر 400 ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا۔

احتساب

فیس بک
Getty Images

لیکن اگر کوئی مسئلہ ہے تو وہ یہ کہ فیس بک کس کے سامنے جوابدہ ہو گا اور اس پر سوال کون کرے گا؟

اس موضوع پر ٹفنی لی کا کہنا ہے کہ بڑی ٹیک کمپنیوں کا کوئی احتساب نہیں ہوتا اور یہی بڑا مسئلہ ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’دنیا میں مختلف نظام ہیں۔ امریکہ میں ان کمپنیوں کو چلانے والے قوانین بہت نرم ہیں اور ان کمپنیوں کو بہت زیادہ آزادی حاصل ہے۔ یورپی یونین اور برطانیہ میں قوانین زیادہ سخت ہیں۔‘

’موو فاسٹ، بریک تھنگز‘

ابتدائی دنوں میں یہ رجحان تھا کہ بڑی کمپنیوں کے اپنے نعرے ہوتے ہیں جیسے فیس بک کا نعرہ تھا کہ ’موو فاسٹ، بریک تھنگز‘۔

ٹفنی لی کہتی ہیں کہ ’یہ سلیکون ویلی کا منتر ہے۔ اب وہ سمجھ گئے ہیں کہ یہ طریقہ کام نہیں کرے گا۔ جب ان کی کمپنی ترقی کر رہی تھی تو وہ بہت باتیں کرتے تھے لیکن اب وہ ایسا نہیں کر سکتے۔ اب انہیں قوانین کی پاسداری کرنا ہو گی تاکہ وہ صارفین کی حمایت کو برقرار رکھ سکیں۔‘

نیا دور نئے چیلنجز

فیس بک
Getty Images

گذشتہ چند سالوں میں بہت سی نئی سوشل میڈیا کمپنیاں مارکیٹ میں آئی ہیں جو فیس بک کے لیے نئے چیلنجز پیدا کر رہی ہیں۔ لیکن کیا فیس بک ان کمپنیوں کو شکست دے سکتی ہے؟

بی بی سی نے ڈیووس میں سینٹر فار اینالیسس آف سوشل میڈیا کے ریسرچ ڈائریکٹر کارل ملر سے بات کی۔

ان کا ماننا ہے کہ سوشل میڈیا کی دنیا میں فیس بک کو دوسرے پلیٹ فارمز سے سخت چیلنج کا سامنا ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔ مثال کے طور پر ویڈیو شیئرنگ ایپ ٹک ٹاک۔

وہ کہتے ہیں پچھلے سال اس ایپ کو زیادہ سے زیادہ بار یعنی تقریباً 700 ملین بار ڈاؤن لوڈ کیا گیا اور یہ نوجوانوں میں بہت مقبول ہے۔

تاہم ٹک ٹاک کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک چینی کمپنی کی ملکیت ہے اور کئی ممالک نے اس پر ڈیٹا پرائیویسی کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے۔

انڈیا نے اس پر پابندی عائد کی، امریکہ کی حکومت اور یونیورسٹی کیمپس سے جڑے کمپیوٹر اور موبائل فونز میں اس پر پابندی ہے۔ کئی ارکان پارلیمنٹ اس پر مکمل پابندی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔

کارل ملر کہتے ہیں ’حالیہ دنوں میں ٹیک کمپنیوں کے لیے امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین میں بہت سے اصول اور رہنما اصول یا تو آئے ہیں یا لائے جا رہے ہیں۔ ان ٹیک کمپنیوں کو اب ان قوانین کے دائرے میں رہ کر کام کرنا پڑے گا۔ نیا دور اور خلاف ورزی کرنے والے اصولوں سے نہ صرف جرمانے بلکہ کمپنی کے خلاف مجرمانہ الزامات بھی عائد ہوں گے۔‘

کسی بھی سوشل میڈیا ویب سائٹ کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارم پر کسے رہنے کی اجازت دے اور کس کو ہٹائے۔ لیکن غلط فیصلہ کرنے کے خطرات ہیں۔ اسی طرح کوئی فیصلہ نہ لینا بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔

میٹاورس کے سی ای او مارک زکربرگ برسوں سے حکومتوں سے انٹرنیٹ کی سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں، خاص طور پر رازداری، نقصان دہ مواد اور منصفانہ انتخابات کے سلسلے میں۔

کارل ملر کہتے ہیں کہ ’جیسے جیسے کمپنیاں بڑی ہوتی گئیں انھیں یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کیا صحیح ہے اور کیا نہیں۔ نفرت انگیز بیانات کیا ہیں، ان کی نوعیت کیا ہے؟ دہشت گرد تنظیمیں کیا ہیں؟ پہلے یہ فیصلے حکومتی مشینری کرتی تھیں۔ اب ان پر قابو پانے کے لیے ایسے قوانین لائے جا رہے ہیں جو عام لوگوں کے ساتھ ساتھ کمپنی کی حفاظت کے لیے بھی ضروری ہیں۔‘

لیکن ساتھ ہی کارل ملر کا یہ بھی کہنا ہے کہ درحقیقت امریکہ میں ہونے والے اگلے صدارتی انتخابات فیس بک کے لیے ایک امتحان ثابت ہو سکتے ہیں۔

انتخابی مہم میں ایک دوسرے پر الزامات لگائے جائیں گے اور ووٹرز کو صحیح یا غلط طریقے سے متاثر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے فیس بک کی تیاری پر کارل ملر کا کہنا ہے کہ ’فیس بک اس بار اس مسئلے کو 2016 کے امریکی صدارتی انتخابات کے مقابلے میں زیادہ سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ لیکن اس کی ٹیم درست طریقے سے کام کر رہی ہے یا نہیں، یہ کہنا مشکل ہے۔‘ اس نے پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ اپنے پلیٹ فارم پر ہونے والی سرگرمیوں کی نگرانی شروع کر دی ہے۔

کارل ملر کا کہنا ہے کہ فیس بک اپنے پلیٹ فارم پر غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کئی اقدامات کر سکتا ہے۔ ان میں ایسی چیزیں شامل ہو سکتی ہیں جیسے لوگوں کو محدود تعداد میں پوسٹ کرنے کی اجازت دینا اور صارفین کے بارے میں درست معلومات حاصل کرنا اور اس کی تصدیق کرنا۔

کیا فیس بک کے ساتھ سب کچھ ٹھیک ہے؟

فیس بک
Getty Images

سوشل میڈیا کی دنیا میں کسی کمپنی کے لیے 19 سال تک دوسروں سے آگے رہنا ایک بڑی کامیابی ہے۔

فیس بک ہماری روزمرہ کی زندگی کا ایسا حصہ بن چکا ہے کہ ہم مستقبل قریب میں اسے ترک کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔

لیکن فیس بک کے سامنے مشکلات ضرور ہیں۔ اس کا مستقبل انسانی فطرت اور رویے پر منحصر ہے جس کی پیشن گوئی کرنا مشکل ہے۔

کارل ملر کا کہنا ہے کہ ’لوگ کنفیوژن سے بھرے ہوئے ہیں۔ ایسی صورت حال میں ان کے رویے کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ دنیا میں خیالات اور غصے کو لے کر پولرائزیشن نظر آتی ہے اور فیس بک پر یہ الجھن واضح طور پر نظر آتی ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.