سورج پر یہ بے حد انتشار کا وقت ہوتا ہے۔ اس میں سورج پُرسکون حالت سے طوفانی کیفیت میں تبدیل ہوتا ہے اور شمسی طوفانوں اور کورونل ماس ایجیکشنز (سی ایم ایز) یعنی آگ کے دیوقامت بُلبلوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوتا ہے جو سورج کی بیرونی پرت ’کورونا‘ سے پھٹ کر باہر نکلتے ہیں۔
ایک ’کورونل ماس ایجیکشن‘ سائز میں زمین سے کئی گنا بڑا ہو سکتا ہے خلا میں ’ادتیہ ایل ون‘ انڈیا کے پہلے شمسی مشاہداتی مشن کے لیے سنہ 2026 کی بڑی سرگرمیوں کا سال ہو گا۔
یہ پہلی بار ہے کہ یہ آبزرویٹری، جسے گذشتہ سال مدار میں قائم کیا گیا تھا، سورج کو اُس وقت دیکھ سکے گی جب وہ اپنی زیادہ سے زیادہ سرگرمی کے دور میں داخل ہو گا۔
ناسا کے مطابق یہ دور تقریباً ہر 11 سال بعد آتا ہے جب سورج کے مقناطیسی قطب الٹ جاتے ہیں: زمین کے تناظر میں یہ ایسے ہی ہو گا جیسے شمالی اور جنوبی قطب اپنی جگہیں بدل لیں۔
سورج پر یہ بے حد انتشار کا وقت ہوتا ہے۔
اس میں سورج پُرسکون حالت سے طوفانی کیفیت میں تبدیل ہوتا ہے اور شمسی طوفانوں اور کورونل ماس ایجیکشنز (سی ایم ایز) یعنی آگ کے دیوقامت بُلبلوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوتا ہے جو سورج کی بیرونی پرت ’کورونا‘ سے پھٹ کر باہر نکلتے ہیں۔
چارج شدہ ذرات پر مشتمل ایک سی ایم ای کا وزن ایک کھرب کلوگرام تک ہو سکتا ہے اور اُس کی رفتار 3,000 کلومیٹر فی سیکنڈ تک پہنچ سکتی ہے۔
یہ کسی بھی سمت میں سفر کر سکتا ہے، حتیٰ کہ زمین کی جانب بھی۔
اپنی زیادہ سے زیادہ رفتار پر، ایک سی ایم ای سورج اور زمین کے درمیان 150 ملین کلومیٹر کا فاصلہ 15 گھنٹوں میں طے کر سکتا ہے۔
انڈین انسٹیٹیوٹ آف ایسٹروفزکس (IIA) کے پروفیسر آر رمیش کہتے ہیں کہ ’عام یا کم سرگرمی کے دور میں، سورج روزانہ دو سے تین سی ایم ایز خارج کرتا ہے۔ اگلے سال، ہمیں توقع ہے کہ یہ تعداد روزانہ دس یا اس سے زیادہ ہو گی۔‘
پروفیسر رمیش ’ویزیبل ایمیشن لائن کوروناگراف‘، جو ادتیہ ایل ون پر موجود سات سائنسی آلات میں سب سے اہم ہے کے پرنسپل انویسٹیگیٹر ہیں اور اس کے ذریعے حاصل کیے گئے ڈیٹا کی باریکی سے نگرانی اور تشریح کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ سی ایم ایز کا مطالعہ انڈیا کے پہلے شمسی مشن کے اہم ترین سائنسی مقاصد میں سے ایک ہے۔
’ایک تو اس لیے کہ یہ دھماکے ہمارے نظامِ شمسی کے مرکز میں موجود ستارے یعنی سورج کے بارے میں سیکھنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور دوسرا اس لیے کہ سورج پر ہونے والی سرگرمیاں زمین اور خلا میں موجود انفراسٹرکچر کے لیے خطرہ بنتی ہیں۔‘
ارورہ بوریلس نے نومبر میں امریکہ پر آسمان کو رات میں اوقات میں روشن کر دیا تھاشمسی مادّے کے اخراج (CMEs) یا ایس ایم ایز انسانی زندگی کے لیے شاذ و نادر ہی براہِ راست خطرہ بنتے ہیں، لیکن یہ زمین پر موجود زندگی پر اثر ضرور ڈالتے ہیں کیونکہ یہ مقناطیسی طوفان پیدا کرتے ہیں جو خلا کے اس خطّے کے موسم کو متاثر کرتے ہیں جہاں تقریباً 11,000 سیٹلائٹس موجود ہیں، جن میں انڈیا کے بھی 136 سیٹلائٹس شامل ہیں۔
پروفیسر رمیش وضاحت کرتے ہیں کہ ’سی ایم ای کا سب سے خوبصورت مظہر شفقِ قطبی (Auroras) ہے، جو اس بات کی واضح مثال ہے کہ سورج سے آنے والے برق شدہ ذرّات زمین تک پہنچ رہے ہیں۔‘
’لیکن یہ سیٹلائٹس کی تمام الیکٹرانکس کو خراب بھی کر سکتے ہیں، پاور گرڈز کو گرا سکتے ہیں اور موسم و مواصلاتی سیٹلائٹس کو متاثر کر سکتے ہیں۔‘
تاریخ میں ریکارڈ ہونے والا سب سے طاقتور شمسی طوفان سنہ 1859 کا کیئرنگٹن واقعہ تھا، جس نے پوری دنیا میں ٹیلی گراف لائنیں ناکارہ بنا دی تھیں۔ مزید حالیہ واقعات میں سنہ 1989 کا طوفان شامل ہے، جس نے کیوبیک کے پاور گرڈ کے ایک حصے کو تباہ کر دیا اور 60 لاکھ افراد نو گھنٹے تک بجلی سے محروم رہے۔ نومبر 2015 میں شمسی سرگرمی نے فضائی ٹریفک کنٹرول کو متاثر کیا، جس کے نتیجے میں سویڈن اور یورپ کے کچھ ہوائی اڈوں پر افراتفری پھیل گئی۔
فروری 2022 میں ناسا نے اطلاع دی کہ ایک سی ایم ای کی وجہ سے 38 تجارتی سیٹلائٹس تباہ ہو گئے۔
پروفیسر رمیش کہتے ہیں کہ ’اگر ہم سورج کے کورونا میں ہونے والی سرگرمی کو دیکھ سکیں، شمسی طوفان یا شمسی مادّے کے اخراج کو حقیقی وقت میں شناخت کر سکیں، اس کے ابتدائی درجہ حرارت کا اندراج کریں اور اس کی سمت کا مشاہدہ کریں، تو یہ ہمیں پیشگی وارننگ دینے میں مدد دے سکتا ہے، تاکہ پاور گرڈز اور سیٹلائٹس کو وقت پر بند یا محفوظ مقام پر منتقل کیا جا سکے۔‘
سورج کا کورونا صرف مکمل سورج گرہن کے وقت دکھائی دیتا ہے سورج پر نظر رکھنے کے لیے دیگر شمسی مشن بھی موجود ہیں، مگر کورونا (Corona) کا مشاہدہ کرنے کے معاملے میں آدتیہ-ایل ون کو دوسروں پر برتری حاصل ہے، جن میں ناسا اور یورپی خلائی ایجنسی (ایسا) کا مشترکہ مشن سولر اینڈ ہیلیوسفیرک آبزرویٹری بھی شامل ہے۔
پروفیسر رامیش کہتے ہیں کہ 'آدتیہ-ایل ون کا کوروناگراف بالکل ایسے حجم کا ہے کہ یہ تقریباً چاند کی نقل کرتا ہے، سورج کے فوٹوسفیئر کو مکمل طور پر ڈھانپ لیتا ہے، اور اسے سال کے 365 دن، دن کے 24 گھنٹے، یہاں تک کہ گرہن کے دوران بھی کورونا کے تقریباً پورے حصے کا بلا تعطل مشاہدہ کرنے دیتا ہے۔‘
پروفیسر رامیش وضاحت کرتے ہیں کہ دوسرے الفاظ میں، کوروناگراف ایک مصنوعی چاند کا کردار ادا کرتا ہے جو سورج کی چمکیلی سطح کو روک کر سائنس دانوں کو اس کے مدھم بیرونی کورونا کا مسلسل مشاہدہ کرنے دیتا ہے، ایک ایسا کام جو حقیقی چاند صرف سورج گرہن کے دوران انجام دیتا ہے۔
’مزید یہ کہ یہ واحد مشن ہے جو مرئی روشنی میں ہونے والے ان اخراجات (eruptions) کا مطالعہ کر سکتا ہے، جس کے ذریعے یہ سی ایم ای کے درجہ حرارت اور حرارتی توانائی کو ناپ سکتا ہے، ایسے اہم شواہد جو بتاتے ہیں کہ اگر کوئی سی ایم ای زمین کی طرف بڑھے تو وہ کتنا طاقتور ہو گا۔‘
اگلے سال کے زیادہ سے زیادہ شمسی سرگرمی کے دور کے لیے تیاری کرتے ہوئے، آئی آئی اے (IIA) نے ناسا کے ساتھ تعاون کیا تاکہ اُن بڑے ترین سی ایم ایز میں سے ایک کے ڈیٹا کا مطالعہ کیا جا سکے، جنھیں آدتیہ-ایل ون نے اب تک ریکارڈ کیا ہے۔
پروفیسر رامیش کے مطابق، یہ 13 ستمبر 2024 کو 00:30 جی ایم ٹی پر وجود میں آیا۔ اس کا کمیت 270 ملین ٹن تھی جبکہ ٹائٹینک کو ڈبونے والا برفانی تودہ 1.5 ملین ٹن تھا۔
ابتدائی مقام پر اس کا درجہ حرارت 18 لاکھ ڈگری سیلسیس تھا، اور اس کی توانائی 2.2 ملین میگا ٹن ٹی این ٹی کے برابر تھی، مقابلتاً ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے جوہری بم بالترتیب 15 کلو ٹن اور 21 کلو ٹن کے تھے۔
اگرچہ یہ اعداد و شمار اسے ناقابلِ یقین حد تک بڑا ظاہر کرتے ہیں، پروفیسر رامیش اسے ’درمیانے درجے‘ کا قرار دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ جس شہابِ ثاقب نے زمین سے ڈائنوساروں کا خاتمہ کیا، اس کی توانائی 100 ملین میگا ٹن تھی اور سورج کے زیادہ سے زیادہ سرگرمی کے دور میں ہم اس سے بھی زیادہ توانائی رکھنے والے سی ایم ایز دیکھ سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’میری رائے میں جس سی ایم ای کا ہم نے جائزہ لیا، وہ سورج کی نارمل سرگرمی کے مرحلے میں ہوا تھا۔ اب یہی وہ معیار بنے گا جس کی مدد سے ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ زیادہ سے زیادہ سرگرمی کے دوران کیا کچھ ہونے والا ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اس تحقیق سے ملنے والی معلومات ہمیں ایسے حفاظتی اقدامات تیار کرنے میں مدد دیں گی جنھیں خلا کے نزدیک موجود سیٹلائٹس کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنایا جا سکے۔ اس سے زمین کے قریب خلائی ماحول کی بہتر سمجھ بھی حاصل ہو گی۔‘