انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ کے وکیل اور ملیالم اداکار سی شکور نے اعلان کیا ہے کہ وہ خواتین کے عالمی دن اپنی بیوی شینا سے دوبارہ شادی کریں گے تاکہ موت کے بعد ان کی تینوں بیٹیوں کو پوری طرح وارثت منتقل ہوسکے۔
’یہ ہماری دوسری شادی ہے۔۔۔ میں اور شینا اپنے بچوں کے لیے دوبارہ شادی کر رہے ہیں۔‘
یہ اعلان انڈیا کی جنوبی ریاست کیرالہ کے رہائشی، وکیل اور ملیالم اداکار سی شکور نے 5 مارچ کو کیا اور کہا کہ وہ خواتین کے عالمی دن (آٹھ مارچ) کو اپنی اہلیہ شینا سے دوبارہ شادی کریں گے جن کے ساتھ ان کی شادی تقریباً تین دہائی پہلے ہوئی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی ’دوبارہ‘ شادی کی وجہ ان کی تینوں بیٹیوں کے لیے جائیداد کی وراثت یقینی بنانا ہے۔
دراصل معاملہ یہ ہے کہ ان کی ’پہلی‘ شادی ’مسلم پرسنل لا (شریعت) ایپلیکیشن ایکٹ 1937‘ کے تحت ہوئی تھی لیکن اب وہ انڈیا کے ’سپیشل میرج ایکٹ‘ کے تحت اسی خاتون سے دوبارہ شادی کریں گے کیونکہ یہ قانون مرد اور خواتین دونوں کو مساوی وراثت کی ضمانت دیتا ہے۔
مسلم پرسنل لا کی ایک شق کے تحت اگر کسی شخص کا بیٹا نہیں ہے اور صرف بیٹیاں ہیں تو باپ کے مرنے کے بعد اس کی جائیداد کا ایک تہائی حصہ اس کے بھائی کو جاتا ہے اور جائیداد کا صرف دو تہائی حصہ بیٹیوں میں تقسیم ہوگا۔
سی شکور کا کہنا ہے کہ ’ہمارے بچوں کو صرف اس لیے شدید امتیازی سلوک کا سامنا ہے کیونکہ وہ لڑکیپیدا ہوئی ہیں۔‘
سی شکور اور ڈاکٹر شینا شکور کا جوڑا پہلے سے ہی قانون کے پیشے سے جڑا ہوا ہے۔ سی شکور پیشے سے ایک وکیل ہیں اور ایک ملیالم فلم میں وکیل کا کردار بھی نبھا چکے ہیں۔ دوسری طرف شینا قانون کی پروفیسر ہیں اور کیرالہ کی کننور یونیورسٹی میں شعبہ قانون کی سربراہ ہیں۔
شینا نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو کہ دونوں کو گریجویشن کے دنوں سے پریشان کر رہا ہے۔
شینا کہتی ہیں کہ انھوں نے یہ فیصلہ ’اچانک نہیں لیا۔ ہم اپنے گریجویشن کے دنوں سے مسلمان لڑکیوں کے ساتھ ہونے والی اس طرح کی سنگین ناانصافی کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔‘
لیکن ان کی بیٹیوں کی مساوی وراثت کو یقینی بنانے کے لیے ان کی دوبارہ شادی کا فیصلہ اچانک اس لیے ہوا کیونکہ سی شکور حالیہ برسوں میں دو بار سنگین حادثات کا شکار ہوئے ہیں جب ’موت ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزری۔‘
اس بات نے انھیں اپنی تین بیٹیوں اور معاشرے میں اس طرح کی ناانصافی کے بارے میں مزید سوچنے پر مجبور کیا ہے۔
انھوں نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’اگر میں مر گیا تو بہت سے لوگ غمگین ہوں گے۔ فیس بک پر دوستوں کی پوسٹس نظر آئیں گی۔ تدفین اور دعا کے بعد رشتہ دار الگ ہو جائیں گے، اور آخر میں صرف خاندان ہی رہ جائے گا۔‘
کسی کی میت پر عام لوگوں کے ردعمل کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ پھر لوگ یاد کرنے کی کوشش کریں گے کہ ’کیا میں نے کسی سے قرض لیا تھا، پھر میری بچت (کو تقسیم کرنے) کا سوال آئے گا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ یہ ان کے بچوں کو جانا چاہیے۔
وہ پھر سوال کرتے ہیں ’لیکن کیا وہ انھیں ملے گا؟‘ اور پھر جواب میں لکھتے ہیں ’انھیں نہیں ملے گا۔‘
اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ اس کی وجہ ہے مسلم پرسنل لا (شریعت) ایپلیکیشن ایکٹ 1937۔
ایک وکیل کے طور پر وہ قوانین کے باریک نکات سے واقف ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ 1937 کا یہ قانون شریعت کی وضاحت نہیں کرتا لیکن عدالتوں نے اس مسئلے پر 1906 میں لکھے گئے ’محمڈن قانون‘ کے اصولوں کی بنیاد پر ایک نقطہ نظر اختیار کر لیا۔
اس کا بنیادی مطلب یہ ہے کہ ان کے مرنے کے بعد ان کی بیٹیوں کو میاں بیوی کی جائیداد کا صرف دو تہائی حصہ ملے گا اور باقی حصہ ان کے بھائیوں کو جائے گا۔

آخر کار انھوں نے سوچا کہ ایک جوڑے کے طور پر انھیں ایک مثال قائم کرنی چاہیے۔ شینا کہتی ہیں ’یہ قدم موجودہ مسئلے کا حتمی حل نہیں ہے، بلکہ یہ پہلا قدم ہے۔‘
سپیشل میرج ایکٹ میں روایتی قوانین کے تحت پہلے سے رجسٹرڈ ہونے والی شادیوں کو سیکولر طریقے سے دوبارہ رجسٹر کیا جا سکتا ہے۔ یہ قانون جوڑوں کو اپنے بچوں کا بھی پھر سے اندراج کرانے کی اجازت دیتا ہے۔
شینا کہتی ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ وہ ’سپیشل میرج ایکٹ‘ کے تحت ان تمام حقوق کے مستحق ہوں گے جو ’پرسنل‘ قوانین میں نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ اس قانون کے تحت رجسٹر ہونے سے وراثت کا عمل ’انڈین سکسیشن ایکٹ‘ کے تحت ہوگا۔‘
واضح رہے کہ وراثت کے یہ قوانین ہر فرقے میں یکساں نہیں ہیں کیونکہ مختلف فرقے جائیداد کی وراثت کے لیے قدرے مختلف قوانین پر عمل کرتے ہیں۔ لیکن عام طور پر یہ قوانین اکثر کسی نہ کسی شکل میں خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کرتے رہے ہیں۔
ابھے کمار، جنھوں نے انڈین مسلمانوں کے پرسنل لا کا مطالعہ کیا ہے، کہتے ہیں ’یہ پرسنل لا کا معاملہ صرف مسلمانوں کا ہی نہیں ہے بلکہ ہر برادری میں وراثت سے متعلق پیچیدگیاں موجود ہیں۔‘
لیکن معاشرے میں مذہب کی بنیاد پر بڑھتے ہوئے اختلافات کی وجہ سے اکثر بحث و مباحثہ کو ہندو مسلم تفریق میں دیکھا جاتا ہے۔
کمار، جو دہلی یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس پڑھاتے ہیں، کہتے ہیں کہ پرسنل لا بورڈ اور تمام کمیونٹیز کے روایتی قوانین میں اگر مسائل ہیں تو کئی ترقی پسند خیالات بھی موجود ہیں۔
وہ کہتے ہیں اسی طرح مسلم پرسنل لاز میں بھی بہت تنوع ہے اور پیچیدگیاں ہیں لیکن ’اسے کبھی بھی ہندو مسلم کے چشمے سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔‘
شکور اور شینا کے سپیشل میرج ایکٹ کے تحت ’دوبارہ‘ شادی کے فیصلے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کمار کہتے ہیں، ’اگر کسی کو لگتا ہے کہ ان کو سیکولر قوانین یا سپیشل میرج ایکٹ میں زیادہ اختیار مل رہا ہے تو سے خوش آمدید کرنا چاہیے۔
’لیکن عورتوں کے نکات عورتوں کے زاویہ سے دیکھا جانا چاہیے، ہندو مسلم کے زاویہ سے نہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ سماج کی ترقی کے لیے مثبت بحث و مباحثہ ہوتا رہنا چاہیے۔
شینا کہتی ہیں ’ہماری بیٹیاں اس مسئلے پر ہماری گفتگو سن کر بڑی ہوئی ہیں۔ ہر سال یوم خواتین پر ہم جا کر لوگوں میں عورتوں کی حق پر تقریریں کرتے ہیں اور خواتین سے صنفی مساوات کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ ہر جگہ خواتین اسی طرح کے مسائل لے کر ہمارے پاس آتی ہیں۔
’ہمارا یہ قدم معاشرے کے لیے ہے، ہمارے بچوں کے فائدے کے لیے نہیں۔ ہمیں اپنے اردگرد اس سے پریشان لوگوں کو ایک پیغام دینا ہے۔‘
ریاست کیرالہ اس لحاظ سے ملک میں منفرد ہے کہ اس کی آبادی کا 50 فیصد سے زیادہ حصہ ہندو، 25 فیصد سے زیادہ مسلمان اور تقریباً 20 فیصد مسیحی ہے۔
سی شکور بتاتے ہیں کہ یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ اسلام پر عمل کرنے والوں کے بچوں کو ایک ایسے ملک میں صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے آئین نے 1950 میں ذات پات، مذہب، طبقے اور جنس سے بالاتر ہوکر سب کے لیے برابری کی ضمانت دی تھی۔
’تو اس سے باہر نکلنے کا راستہ کیا ہے؟‘ وہ پوچھتے ہیں اور جواب دیتے ہیں کہ ’ہم مسلمانوں کے پاس موجودہ قانون کے نظام کے اندر اس بحران سے نکلنے کا واحد راستہ ہماری پارلیمنٹ کی طرف سے 1954 میں منظور کردہ سپیشل میرج ایکٹ ہے۔‘
وہ کہتے ہیں ’ہم نے اس میں پناہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
انھوں نے واضح کیا کہ ان کی اس کوشش کا مقصد کسی (شخص یا ادارے) کو چیلنج کرنا یا ناراض کرنا نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں ’اللہ تعالیٰ ہماری بچیوں کی عزت نفس اور اعتماد کو بلند کرے۔ اللہ کے سامنے اور ہمارے آئین کے سامنے سب برابر ہیں۔‘
وہ اپنی بات کو ختم کرتے ہوئے کہتے ہیں ’آپ سب کو یوم خواتین پیشگی مبارک ہو۔‘
شینا کہتی ہیں ’خواتین کے وقار کو آئین کے مطابق برقرار رکھا جانا چاہیے۔‘