ناقص خوراک، تناؤ اور شراب نوشی، وہ عوامل جو مردانہ بانجھ پن کی وجہ ہو سکتے ہیں

اگرچہ شواہد مضبوط نہیں ہیں لیکن اشارے ایسے ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی مردوں کی اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتی ہے۔
آلودگی
Getty Images

ڈاکٹر نے جینیفر ہیننگٹن سے کہا کہ ’ہم آپ کا مسئلہ حل کر سکتے ہیں اور ہم آپ کی مدد کر سکتے ہیں‘ اور پھر اُسی ڈاکٹر نے ان کے شوہر سیارن ہیننگٹنکی طرف مڑتے ہوئے کہا ’لیکن ہم آپ کے لیے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔‘

شمال مشرقی انگلینڈ کے شہر یارکشائر میں رہنے والا یہ جوڑا دو سال سے بچے کے لیے کوشش کر رہا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ ان کے لیے مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ جینیفر کو ’پولی سسٹک اوورین سنڈروم‘ (بیضہ دانی میں رسولی) تھی، ایسی حالت جو عورت کی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتی ہے۔

انھوں نے جس چیز کی توقع نہیں کی تھی وہ یہ کہ سیارن میں بھی کچھ ایسے مسائل تھے جو ان کی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کو متاثر کر رہے تھے۔

میڈیکل ٹیسٹوں نے ایسے مسائل کا انکشاف کیا جن سے پتا چلا کہ سیارن میں سپرم کی تعداد کم ہے۔ اس سے بھی بدتر بات یہ تھی کہ ان مسائل کا علاج جینیفر کے مقابلے میں زیادہ مشکل بلکہ شاید ناممکن سمجھا جاتا ہے۔

یہ جاننے کے بعد ہیننگٹن کو اب بھی اپنا ردعمل یاد ہے کہ ’مجھے صدمہ پہنچا۔ میں غمگین ہوا۔ میں نے اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ میں نے سوچا کہ ڈاکٹروں نے غلط سمجھا۔‘

وہ ہمیشہ ایک باپ بننے کی خواہش رکھتے تھے۔ ’مجھے ایسا لگا جیسے میں نے اپنی بیوی کو دھوکا دیا ہے۔‘

اس کے بعد کے برسوں کے دوران ان کی دماغی صحت خراب ہو گئی. انھوں نے زیادہ وقت اکیلے گزارنا شروع کر دیا، بستر پر رہنے اور اپنے سکون کے لیے اکثر اوقات شراب پینا ان کی عادت بن گئی۔ پھر انھیں گھبراہٹ کے دورے پڑنا شروع ہو گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں اپنی اس نفسیاتی بحرانی کیفیت کے نقطہِ عروج پر پہنچ گیا۔ میرے لیے یہ ایک تاریک وقت تھا۔‘

جوڑوں میں بانجھ پن میں تقریباً نصف کا سبب مردانہ بانجھ پن ہوتا ہے اور یہ مسئلہ کل آبادی کے سات فیصد مردوں میں ہوتا ہے تاہم خواتین کے بانجھ پن کے مقابلے میں مردوں کے بانچھ پن پر بہت کم بات کی جاتی ہے۔

اس کی ایک وجہ اس مسئلے سے متعلق سماجی اور ثقافتی رویے ہیں یا اسے مردوں کی شان میں بہت بُری بات سمجھا جانا ہے۔ اس مسئلے سے جڑی بدنامی کے داغ کی وجہ سے بہت سے لوگ اس پر بات نہیں کرتے ہیں اور خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ مسئلہ بڑھ رہا ہے۔ آلودگی سمیت کئی دیگر عوامل مردوں کی بچے پیدا کرنے کی صلاحیتکو متاثر کر رہے ہیں اورممکنہ طور پر متاثرہ افراد اور پورے معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

منی اور آلودگی
Getty Images

بانجھ پن کا پوشیدہ بحران

پچھلی صدی کے دوران عالمی انسانی آبادی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ صرف 70 سال پہلے زمین پر صرف ڈھائی ارب لوگ تھے۔ 2022 میں عالمی آبادی آٹھ ارب تک پہنچ گئی۔

بہرحال بنیادی طور پر سماجی اور اقتصادی عوامل کی وجہ سے آبادی میں اضافے کی شرح میں شدید کمی آئی ہے۔ دنیا بھر میں شرح پیدائش کا ریکارڈ کم ترین اضافے کی سطح کو چھو رہا ہے۔ دنیا کی 50 فیصد سے زیادہ آبادی ایسے ممالک میں رہتی ہے جہاں بچے پیدا کرنے کی شرح فی عورت دو بچوں سے کم ہے، جس کے نتیجے میں وہ آبادیاں جہاں تاریکِ وطن نہیں جا رہے ہیں، سکڑتی جا رہی ہیں۔

شرح پیدائش میں اس کمی کی وجوہات میں خواتین کی زیادہ مالی آزادی اور ان کی تولیدی صحت پر کنٹرول جیسی مثبت پیشرفت شامل ہے۔

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جن ممالک میں پیدائش کی شرح کم ہے، وہاں بہت سے ایسے جوڑے بھی ہیں جو دوسروں کی نسبت زیادہ بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ سماجی اور معاشی وجوہات، جیسے خاندانوں کے افراد کا ایک دوسرے سے کم تعاون کرنا وغیرہ کے سبب، زیادہ بچے پیدا نہیں کر پاتے۔

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ مردوں میں تولیدی مسائل کا پورا ایک ’سپیکٹرم‘ (یا مجموعہ) بڑھ رہا ہے، جس میں منی میں کمی، ’فوطیرون‘ (ٹیسٹوسٹیرون) کی سطح میں کمی اور عضو تناسل کی خرابی اور خصیوں کے کینسر کی بڑھتی ہوئی شرح جیسے مسائل شامل ہیں۔

تیرتے ہوئے خلیات

منی اور آلودگی
BBC

برطانیہ میں تولیدی ادویات کی کلینکل پروفیسر اور ماہر امراض نسواں، سارہ مارٹنز ڈا سلوا کہتی ہیں کہ ’سپرم خلیات کا ایک شاندار مظہر ہے۔ یہ بہت چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں، یہ تیرتے ہیں، یہ جسم کے باہر زندہ رہ سکتے ہیں۔ کوئی دوسرا خلیہ جسم سے باہر نکل کے زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔ یہ غیر معمولی مخصوص قسم کی صلاحیتیں ہیں۔‘

بظاہر ان میں یہ چھوٹی تبدیلیاں ان انتہائی مخصوص خلیوں پر بہت گہرا اثر ڈال سکتی ہیں، خاص طور پر مادہ انڈے سے مل کر بارآور ہونے کی صلاحیت پر۔

بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کے لیے اہم پہلو سپرم کی مؤثر طریقے سے حرکت کرنے کی صلاحیت، ان کی شکل اور سائز (مورفولوجی) اور منی کی دی گئی مقدار میں ان کی کتنی تعداد ہے (جسے سیمن شمار کہا جاتا ہے) وغیرہ ہے۔

جب کوئی مرد تولیدی صحت کی جانچ کے لیے ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے تو یہ وہ پہلو ہیں جن کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔

یروشلم کی ہیبریو یونیورسٹی میں ایپیڈیمولوجی کے پروفیسر ہاگائی لیوائنکہتے ہیں کہ ’عام طور پر جب آپ کے منی کے فی ملی لیٹر میں 4 کروڑ سے کم سپرم ہوتے ہیں تو آپ کو بچہ پیدا کرنے میں مسائل ہونے لگتے ہیں۔‘

لیوائن وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگرچہ سپرم کی تعداد زیادہ ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ عورت سے مباشرت کی صورت میں وہ ضرور حاملہ ہو جائے گی لیکن چار کروڑ فی ملی لیٹر کی حد سے نیچے حمل کا امکان تیزی سے کم ہو جاتا ہے۔

2022 میں لیوائن اور ان کے ساتھیوں نے سپرم کی گنتی میں عالمی رجحانات کا جائزہ شائع کیا۔

اس سے پتا چلتا ہے کہ 1973 سے 2018 کے درمیان سپرم کی تعداد میں اوسطاً 1.2 فیصد سالانہ کمی آئی، جو کہ 10.4 کروڑ سے 4.9 کروڑ فی ملی لیٹر تک ہوگئی ہے۔ سال 2000 سے یہ شرح سالانہ 2.6 فیصد سے زیادہ تک پہنچ گئی۔

’نہیں جانتے کہ صورتحال بہتر ہو سکتی ہے یا نہیں‘

لیوائن کا کہنا ہے کہ منی کی صلاحیت میں اس تیزی سے کمی ’ایپی جینیٹک‘ تبدیلیوں، یعنی جینز کے کام کرنے کے طریقے میں نسل در نسل تبدیلی، ماحولیاتی یا طرز زندگی کے عوامل کی وجہ سے ہوسکتی ہے۔

ایک علیحدہ تحقیق یہ بھی بتاتی ہے کہ ’ایپی جینیٹکس‘ سپرم میں تبدیلیوں اور مردانہ بانجھ پن میں کس قسم کا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ایسے اشارے ہیں کہ یہ نسل در نسل تبدیلیوں کے بعد وقوع پذیر ہوتا ہے۔‘

یہ نظریہ کہ ’ایپی جینیٹک‘ تبدیلیاں نسلوں میں وراثت میں چل سکتی ہیں اب خود متنازعہ ہو چکا ہے لیکن ایسے شواہد موجود ہیں جو تجویز کرتے ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے۔

لیوائن کہتے ہیں کہ ’شاید یہ (سپرم کی کم ہوتی تعداد) بنی نوع انسان کی خراب صحت کا کوئی اشارہ ہو۔ ہمیں صحت عامہ کے بحران کا سامنا ہے اور ہمیں نہیں معلوم کہ کیا یہ صورتحال بہتر ہو جائے گی یا نہیں۔‘

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ مردانہ بانجھ پن مستقبل میں صحت کے بارے میں پیش آنے والے مسائل کا اشارہ دے رہا ہے، حالانکہ اس کا دیگر معاملات سے صحیح ربط پوری طرح سے سمجھ میں نہیں آیا۔

ایک امکان یہ ہے کہ طرز زندگی کے بعض عوامل، بانجھ پن اور دیگر صحت کے مسائل دونوں، میں ان کا کوئی کردار ہو سکتا ہے۔

ڈا سلوا کہتی ہیں کہ ’بچے کی خواہش اور حاملہ نہ ہو پانے کا تجربہ غیر معمولی طور پر تباہ کن ہے، یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘

انفرادی طرز زندگی میں تبدیلیاں منی کے معیار میں کمی کو روکنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتیں۔ بڑھتے ہوئے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ ایک وسیع، ماحولیاتی خطرہ موجود ہے: یعنی زہریلی آلودگی۔

یہ بھی پڑھیے

مردوں میں باپ بننے کی صلاحیت میں کمی کیوں ہو رہی ہے؟

وہ مقبول مشروب جس کا تعلق کبھی جنسی طاقت سے جوڑا گیا

’مسئلہ میری بیوی میں نہیں مجھ میں ہے اور اب میں اس کا علاج کروا رہا ہوں‘

ایک ’زہریلی‘ دنیا

ریبیکا بلانچرڈ، ایک ویٹرنری استاد ہیں اور یونیورسٹی آف ناٹنگھم میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں جو برطانیہ میں مردانہ تولیدی صحت پر گھر کے اندر پائے جانے والے ماحولیاتی کیمیکلز کے اثرات پر تحقیقات کر رہی ہیں۔

وہ کُتوں کو ماڈل کے طور پر استعمال کر رہی ہیں یعنی ان کتّوں پر کیے گئے تجربات اور تحقیقات انسانی صحت کے لیے ایک قسم کا ابتدائی وارننگ الارم سسٹم کہلایا جائے گا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’کتا ہمارے ماحول کا حصہ ہے۔ یہ ایک ہی گھر میں رہتا ہے اور ہمارے ماحول جیسی ہی کیمیائی آلودگیوں کا شکار ہے۔ ہم کتے پر تحقیق سے یہ جان سکتے ہیں کہ انسان میں کیا ہو رہا ہے۔‘

ریبیکا کی تحقیق پلاسٹک اور عام گھریلو اشیا میں پائے جانے والے کیمیکلز پر مرکوز تھی۔ ان میں سے کچھ کیمیکلز پر پابندی عائد کر دی گئی ہے لیکن پھر بھی ماحول یا پرانی اشیا میں یہ پائے جاتے ہیں۔

تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ کیمیکل ہمارے ہارمونل نظام کو متاثر کر سکتے ہیں اور کتوں اور مردوں دونوں کی بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

بلانچرڈ کا کہنا ہے کہ ’ہمیں انسان اور کتے دونوں میں سپرم کی حرکت میں کمی کا پتا چلا ہے۔‘

منی میں تولیدگی مادہ یعنی سپرم، ڈی این اے کے ٹوٹنے کے عمل (فریگمنٹیشن) سے مراد سپرم کے جینیاتی مواد میں نقصان یا ٹوٹ جانا ہے۔

بلانچرڈ اس کی وضاحت کرتی ہیں کہ جیسے جیسے فریگمنٹیشن کی سطح میں اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح ابتدائی مدت کے اسقاط حمل کے واقعات بھی ہوتے ہیں۔

یہ نتائج دیگر تحقیقات کے ساتھ ملتے ہیں جو پلاسٹک، گھریلو ادویات، فوڈ چین اور ہوا میں پائے جانے والے کیمیکلز کی وجہ سے پہنچنے والے نقصان کو ظاہر کرتے ہیں۔

یہ مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور یہاں تک کہ بچے کو بھی متاثر کرتا ہے۔ بلیک کاربن، ہمیشہ برقرار رہنے والے کیمیکلز، یہ سبھی رحمِ مادر میں بچوں تک پہنچ چکے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی بھی منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ کئی جانوروں کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ سپرم خاص طور پر بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے اثرات کا شکار ہوتا ہے۔

مشاہدات میں یہ دیکھا گیا ہے کہ گرمی کی لہروں کی وجہ سے کیڑے مکوڑوں کے تولیدی مادے کو نقصان پہنچاتا ہے اور انسانوں میں بھی ایسا ہی اثر دیکھا گیا ہے۔

2022 کے ایک مطالعے سے پتا چلا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے، یا گرم ماحول میں کام کرنے کی وجہ سے درجہ حرارت کے مجموعی اور کافی دیر تک اضافے سے منی کا معیار منفی طور پر متاثر ہوتا ہے۔

ناقص خوراک، اعصابی تناؤ اور شراب

اِن ماحولیاتی عوامل کے ساتھ ساتھ انفرادی مسائل بھی نقصان پہنچا سکتے ہیں، جیسا کہ ناقص خوراک، سُستی یا بیٹھے بیٹھے کام کرنے کا طرز زندگی، اعصابی تناؤ، اور شراب اور منشیات کا استعمال، وغیرہ۔

حالیہ دہائیوں میں والدین بننے والے لوگوں کے انداز میں بعد کی زندگی میں ایک تبدیلی آئی ہے اور جبکہ خواتین کو اکثر ان کی ’حیاتیاتی زندگی‘ (بچہ پیدا کرنے کی عمر) کے بارے میں یاد دلایا جاتا ہے، یہ خیال کیا جاتا تھا کہ مردوں کے لیے ان کی عمر افزائشِ نسل کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تاہم اب یہ خیال بدل رہا ہے۔

مردانہ بانجھ پن کے بارے میں زیادہ سے زیادہ سمجھنے اور اس کی روک تھام، تشخیص اور علاج کے لیے نئے طریقوں کے ساتھ ساتھ آلودگی سے نمٹنے کی فوری ضرورت کے بارے میں آگاہی بڑھتی ہوئی ضروریات ہیں۔

اس کے علاوہ کیا کوئی فرد اپنی منی کی بہتر صلاحیت کو بچانے یا بڑھانے کے لیے کچھ کر سکتا ہے؟ ورزش اور صحت مند غذا اچھی شروعات ہوسکتی ہے کیونکہ ان کا تعلق منی کے بہتر معیار سے ہے۔

بلانچرڈ ’بی پی اے‘ (Bisphenol A)سے پاک نامیاتی خوراک اور پلاسٹک کی مصنوعات کے استعمال کی تاکید کرتی ہیں، جو مرد اور خواتین میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے وابستہ ایک کیمیکل ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’(یہ وہ) چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو آپ کر سکتے ہیں۔‘

اور ہیننگٹن کا کہنا ہے کہ خاموشی سے تکلیف نہ برداشت کریں۔

پانچ سال کے علاج اور ’آئی سی ایس آئی‘(Intracytoplasmic Sperm Injection) یعنی مرد کے سپرم کو عورت کے انڈوں میں مہین سے انجیکشن کے ذریعے داخل کرنے کے عمل کے تین مرحلوں کے بعد، آئی وی ایف بانچھ پن کے مسائل سے دوچار جوڑوں کو امید فراہم کر رہا ہے۔

آئی وی ایف (IVF) ایسا طبی طریقہ کار ہے جس کے ذریعے سپرم ایک ٹیسٹ ٹیوب میں یا جسم کے باہر کسی اور جگہ پر عورت کے انڈے سے ملایا جاتا ہے تاکہ بچے کی پیدائش کا عمل شروع ہو اور کچھ عرصے بعد اسے عورت کی بچہ دانی میں رکھ دیا جاتا ہے۔

اِس تکنیک سے سیارن ہننیگٹن اور ان کی بیوی کے ہاں دو بچے ہوئے۔ ایسے لوگوں کے لیے جنھیں علاج کے لیے خود ادائیگی کرنی پڑتی ہے یہ ایک مہنگا علاج ہے تاہم ایسا طریقہ کار فی االحال ارزاں قیمت پر نہیں مل سکتا۔

امریکہ میں، آئی وی ایف کی لاگت 30 ہزار ڈالر سے زیادہ ہو سکتی ہے اورآئی وی ایف کے لیے انشورنس کوریج امریکہ کی ہر ریاست میں مہیا نہیں۔

ہیننگٹن کا کہنا ہے کہ وہ آج بھی اپنی تکلیف کے ان دنوں کو محسوس کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہی کہ ’میں ہر روز اپنے بچوں کے لیے شکر اد کرتا ہوں لیکن آپ اس تکلیف کے وقت کو بھول نہیں سکتے پیں۔ یہ وقت ہمیشہ میری زندگی کا حصہ رہے گا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.