اکثر آپ نے دیکھا ہوگا کہ مکہ مکرمہ کی عظیم الشان مسجد الحرام میں جب لوگ داخل ہوتے ہیں تو وہاں موجود سرمئی کبوتروں کا ایک جھنڈ اپنے پھڑپھڑاتے ہوئے پروں سے ان کا پُرتپاک استقبال کرتا ہے۔ گردنوں کے نزدیک نیلے یا سبز مائل پروں والے یہ کبوتر حرم مکی یا مقدس کبوتر کہلاتے ہیں، یہ خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔
ان کبوتروں کو خانہ کعبہ آنے والے زائرین ثواب کی نیت سے دانہ بھی ڈالتے ہیں، جبکہ عازمین حج و عمرہ ہوں یا کوئی اور کسی کو بھی ان کا شکار کرنے، بھگانے یا مارنے کی اجازت نہیں ہے۔ اور اگر کوئی ان کا شکار یا قتل کرتا ہے تو اس شخص پر فدیہ یا جرمانہ واجب ہے۔
ان کو مکی یا مقدس کبوتر کیوں کہا جاتا ہے؟
مکہ کی تاریخ میں مہارت رکھنے والے ایک محقق سمیر احمد برقہ کے مطابق، ان کبوتروں کو مقدس اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے مقدس مقام کے گرد منڈلاتے رہتے ہیں اور اس لئے بھی کہ انہیں یہاں اپنی حفاظت کا کس قدر یقین ہے۔
یہ کبوتر اتنے خاص کیوں ہیں؟
ان کبوتروں کو ان کی خوبصورت شکل، منفرد رنگ، بڑی بڑی آنکھیں اور لمبی گردنیں دیگر تمام پرندوں سے منفرد بناتی ہے۔ حرم مکی کے یہ کبوتر زائرین سے ڈرتے نہیں ہیں، چاہے یہاں کتنا ہی رش کیوں نہ ہو۔
کبوتر سے جڑی روایات:
سمیر احمد برقہ کے مطابق، اِن کبوتروں کا تعلق اُن کبوتروں کی نسل سے ہے جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے غارِ ثور میں قیام کے دوران غار کے دروازے پر گھونسلے بنائے تھے۔
انہوں نے ایک دوسری روایت کے مطابق بتایا کہ حرم مکی کے کبوتروں کی نسل کا تعلق اُن ابابیل پرندوں سے ہے جو سمندر کی جانب سے آئے تھے اور انہوں نے اپنے پنجوں میں پتھر اور کنکر تھام رکھے تھے تاکہ بیت اللہ کو منہدم کرنے کے ارادے سے آنے والے یمن کے بادشاہ ابرہہ الاشرم کو باز رکھا جائے۔
سمیر احمد برقہ کے مطابق اس حوالے سے ایک تیسری روایت میں مشہور طوفان کی کہانی بھی ملتی ہے اور حضرت نوحؑ نے اس پرندے کو زمین اور اس کی خشکی کو دریافت کرنے کے واسطے استعمال کیا تھا۔ اس طرح یہ پرندہ دنیا بھر میں امن کی علامت بن گیا۔
یہ کبوتر ذوالحجہ کے بعد کہاں چلے جاتے ہیں؟
یہ کبوتر ذوالحجہ کے ابتدائی پانچ دنوں میں جھنڈ کی صورت میں مکہ مکرمہ آتے ہیں اور پھر کچھ دن بعد مدینہ منورہ لوٹ جاتے ہیں۔ یہ کبوتر خانہ کعبہ یا اس کے اطراف میں رفع حاجت نہیں کرتے، جس کی وجہ سے انہیں ہر طرف سے پذیرائی ملتی ہے۔