لندن سے آنے والی ایک کال پر لاکھوں کا مجمع سانس روک لیتا، پاکستان میں کسی سیاسی جلسے میں ایسا ڈسپلن کبھی نہیں دیکھا گیا جو الطاف حسین کے صرف ہیلو کہنے پر دیکھنے میں آتا۔
ایم کیوایم کے بانی الطاف حسین نے کراچی پر طویل عرصہ بلاشرکت غیرے راج کیا اور لاکھوں میل دور بیٹھ کر صرف فون پر ان کے احکامات پر کبھی ایم این ایز کو عام کارکنوں سے تھپڑ پڑتے تو کہیں علاقائی ذمہ دار اراکین اسمبلی کو کان پکڑوادیتے۔
قومی اسمبلی میں محدود نمائندگی کے باوجود ایم کیوایم ہر حکومت کیلئے مجبوری رہی اور ہر آنے والا وزیراعظم نائن زیرو پر ماتھا ٹیکنے ضرور جاتا لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ جب الطاف حسین کی رسی کھینچی گئی تو کوئی بھی ان کا نام لینے والا نہیں تھا۔
ان دنوں ایک بار پھر کراچی اور حیدرآباد میں الطاف حسین کے نام کی گونج سنائی دے رہی ہے، کیا الطاف حسین پر عائد پابندیاں ختم ہونے والی ہیں اور کیا ایک بار پھر ٹیلی فون پر ہیلو کی آواز گونجنے والی ہے۔آیئے دیکھتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست میں الطاف حسین جیسا رعب دبدبہ اور کارکنوں پر کنٹرول کسی اور لیڈر کے نصیب میں نہیں آیا، الطاف حسین کی واپسی کے بارے میں جاننے سے پہلے پابندیوں اور ایم کیوایم کے عروج و زوال پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
2015 میں عسکری اداروں پر تنقید کے بعد الطاف حسین کے بیانات اور تصاویر پر پابندی عائد کرکے بعد میں ایم کیوایم کو بھی دیوار سے لگادیا گیا۔
2015 سے پہلے کی بات کی جائے تو جولائی 1997ء میں ایم کیو ایم کا نام مہاجر قومی مومنٹ سے تبدیل کرکے متحدہ قومی مومنٹ رکھا گیا جس میں صرف مہاجر سیاست سے ہٹ کر تمام مظلوم طبقوں کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی بات کی گئی۔
1991ء میں الطاف حسین کے اوپر ہونے والے ایک ناکام قاتلانہ حملے کے بعد ایم کیو ایم کی قیادت اور کارکنوں نے انہیں برطانیہ بھیج دیا اس وقت سے الطاف حسین لندن میں ہی رہتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت کر رہے ہیں۔
2002ء کے انتخابات کے بعد الطاف حسین کی پارٹی نے مسلم لیگ ق کے ساتھ اتحاد کیا اور حکومت میں شامل ہوئی۔ پرویز مشرف کی نوازشات کی وجہ سے ایم کیوایم کے بہت سے جلاوطن رہنما وطن واپس آئے اور سندھ کے گورنر کا عہدہ بھی ایم کیوایم کے ڈاکٹر عشرت العباد کو ملا۔
2008ء کے انتخابات میں اپنی دیرینہ مخالف پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ان کا اتحاد ہوا۔ یوں الطاف زرداری بھائی بھائی کا نعرہ سامنے آیا۔
الطاف حسین پاکستانی سیاست کی ایک متنازع شخصیت ہیں جن کے چاہنے والے اور مخالفین دونوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ الطاف حسین فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہیں لیکن وہ جمہوری حکومت میں فوج کے محدود کردار کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ الطاف حسین جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی شدت سے مخالفت کرتے ہیں ۔
پاکستانی سیاست دانوں میں عمران خان الطاف حسین کے بڑے ناقد اور مخالف رہے ہیں جنہوں نے لندن جا کر الطاف حسین کے خلاف مقدمہ چلانے کی بھی کوشش کی تاہم وہ اپنے ان الزامات کو کسی بھی عدالت میں ثابت نہ کر سکے۔
پابندی سے پہلے الطاف حسین نے کئی مرتبہ اپنی تقاریر میں براہ راست پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو دھمکیاں دیں اور غیر ملکی عناصر سے کہیں مرتبہ پاکستان میں مداخلت کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
اگست 2015 میں الطاف حسین کی پاکستان کی سیاست میں جگہ ختم ہوگئی۔اس تقریر کے بعد نہ صرف ریاست کی جانب سے الطاف حسین کی تقاریر نشر و شائع کرنے پر پابندی عائد کردی گئی بلکہ خود اُن کی اُس ایم کیو ایم کے بھی ٹکڑے ہو گئے جو کسی زمانے میں ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہوتی تھی اور 1988 کے بعد وفاق میں قائم ہونے والی کسی بھی حکومت کا الطاف حسین کی حمایت کے بغیر قائم ہو جانا یا وجود برقرار رکھنا ناممکن سمجھا جاتا تھا۔
کراچی میں ایم کیوایم کے زوال کے بعد 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے بڑی تعداد میں سیٹیں حاصل کرکے ایم کیوایم کیلئے مزید مشکلات پیدا کردیں لیکن سانحہ نومئی کے بعد پاکستان کی سیاست میں پی ٹی آئی کا مستقبل زیادہ تابناک دکھائی نہیں دیتا جس کی وجہ سے ایک بار پھر الطاف حسین کی واپسی کی صدائیں سنائی دینے لگی ہیں۔
الطاف حسین پر پابندی کے بعد پاکستان کی تیسری بڑی جماعت سمجھی جانے والی ایم کیوایم صرف 5، 6 سیٹوں تک محدود ہوچکی ہے، عید پر الطاف حسین کے بینرز اور گزشتہ دنوں کراچی میں الطاف حسین کی حمایت میں سڑکوں پر ریلیاں بھی نکالی گئیں۔
عدالت میں الطاف حسین کی تقریر و تصویر پر پابندی ختم کرنے کی درخواست پر بھی سماعت جاری ہے جس میں جلد فیصلہ متوقع ہے جس کی وجہ سے الطاف حسین کےچاہنے والے ایک بار پھر کراچی میں ان کی ہیلو سننے کے منتظر ہیں۔