صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور دھول اور مٹی سے مکمل پاک کیسا نظر آئے گا؟ اور ایسا کم از کم کتنے وقت میں ہو سکتا ہے؟ اس شہر کے باسیوں کے لیے شائد ایسا سوچنا تھوڑا مشکل ہو کیونکہ لاہور کو دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے، اور اس کی ایک بڑی وجہ گرد وغبار بھی ہے۔تاہم پنجاب حکومت شہر لاہور کو ’ڈسٹ فری‘ بنانے کا ایک منصوبہ لا رہی ہے۔ 25 جون کو لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) کے ہیڈکوارٹر میں ہونے والے ایک اعلٰی سطح کے اجلاس میں سیکریٹری ہاؤسنگ اینڈ اربن ڈویلپمنٹ نورالامین مینگل کی صدارت میں اس منصوبے کی منظوری دی گئی ہے۔
ایل ڈی اے حکام کے مطابق شہر کو مٹی اور گرد سے پاک کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے جس پر فوری طور پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔
نورالامین مینگل کا کہنا تھا کہ ’ہم ترقیاتی کاموں کے لیے یکساں معیار اپنائیں گے اور تعمیراتی ایس او پیز کو سخت کریں گے۔ کمرشل عمارتوں کے بیرونی ڈیزائن کے لیے قانون سازی بھی کی جائے گی تاکہ لاہور کو صاف ستھرا بنایا جا سکے۔‘
منصوبے کی تفصیلاتایل ڈی اے ہیڈکوارٹر میں ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ لاہور کو پاکستان کا پہلا ’ڈسٹ فری شہر‘ بنانے کے لیے جامع حکمت عملی اپنائی جائے گی۔ایل ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل طاہر فاروق نے ترقیاتی منصوبوں پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ شہر میں گرد و غبار کے بنیادی ذرائع، تعمیراتی سرگرمیاں، غیرمنظم کچرے کا ڈسپوزل، اور سڑکوں پر مٹی، کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں گے۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام تعمیراتی منصوبوں کے لیے سخت معیارات نافذ کیے جائیں گے، جیسے کہ سائٹس پر واٹر سپرنکلنگ اور ڈسٹ کنٹرول بیریئرز کا استعمال ہو گا۔ اسی طرح واٹر اینڈ سینی ٹیشن ایجنسی (واسا) لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی (ایل ڈبلیو ایم سی) اور دیگر محکموں کو ایک ہی معیار پر کام کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ کمرشل عمارتوں کے بیرونی ڈیزائن کو یکساں کرنے کے لیے نئے قوانین متعارف کیے جائیں گے تاکہ شہر کی خوبصورتی اور صفائی برقرار رہے۔
ایل ڈبلیو ایم سی کے مطابق شہر میں روزانہ پانچ ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے، جس کا ایک بڑا حصہ سڑکوں پر گرد کی شکل میں پھیلتا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
لاہور کا گرد و غبارایک کروڑ 30 لاکھ کی آبادی والا شہر لاہور طویل عرصے سے فضائی آلودگی اور گرد و غبار کے مسائل سے دوچار ہے۔ مون سون کے دوران واٹر لوگنگ اور باقی سال تعمیراتی سرگرمیوں کی وجہ سے سڑکوں پر مٹی جمع ہوتی ہے۔
ایل ڈبلیو ایم سی کے مطابق شہر میں روزانہ پانچ ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے، جس کا ایک بڑا حصہ سڑکوں پر گرد کی شکل میں پھیلتا ہے۔عالمی ادارہ صحت کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق لاہور کی ہوا میں خطرناک ذرات کی مقدار اکثر خطرناک سطح پر ہوتی ہے، جو سانس کی بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔’ڈسٹ فری لاہور‘، کیا یہ ممکن ہے؟ماہرین اس منصوبے کو ایک مثبت قدم قرار دیتے ہیں، لیکن اس کی کامیابی پر سوالات بھی اٹھاتے ہیں۔ ماحولیات کے استاد ڈاکٹر کاشف امجد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لاہور کو ڈسٹ فری بنانا ایک بڑا ہدف ہے، اور اس کے لیے مستقل پالیسی اور عمل درآمد ضروری ہے۔ تعمیراتی سائٹس سے اڑنے والی گرد، غیرمنظم کچرے کے ڈھیر اور گاڑیوں کے اخراج اس شہر کے سب سے بڑے مسائل ہیں۔‘’ایل ڈی اے کا منصوبہ اگر واٹر سپرنکلنگ، گرین بیلٹس، اور کچرے کے موثر ڈسپوزل پر فوکس کرے، تو نتائج مل سکتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے شہریوں کی شمولیت اور مقامی بلدیات کی صلاحیت بڑھانا لازمی ہے۔‘
ایک کروڑ 30 لاکھ کی آبادی والا شہر لاہور طویل عرصے سے فضائی آلودگی اور گرد و غبار کے مسائل سے دوچار ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
انجینیئر احمد خان جنہوں نے شہری منصوبہ سازی میں ڈگری لے رکھی ہے، کا کہنا تھا کہ ’کمرشل عمارتوں کے ڈیزائن اور تعمیراتی ایس او پیز کو یکساں کرنا اچھا خیال ہے، لیکن لاہور جیسے بڑے شہر میں اس پر عمل درآمد ایک بڑا چیلنج ہے۔ تعمیراتی کمپنیاں اکثر لاگت کم کرنے کے لیے معیارات کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ ایل ڈی اے کو جرمانوں اور نگرانی کے نظام کو مضبوط کرنا ہو گا، ورنہ یہ منصوبہ کاغذی شیر بن کر رہ جائے گا۔‘
ماہرین کے مطابق لاہور کو ڈسٹ فری بنانا کئی چیلنجز سے مشروط ہے۔ لاہور میں ہر برس ہزاروں نئے منصوبے شروع ہوتے ہیں، جن سے گرد و غبار کا اخراج بڑھتا ہے۔ سخت ایس او پیز نافذ کرنے کے لیے نگرانی کے موثر نظام کی ضرورت ہے۔ ایل ڈبلیو ایم سی کی صلاحیت محدود ہے، اور کچرے کے غیرمنظم ڈھیر گرد کی ایک بڑی وجہ ہیں۔اور سب سے اہم بات شہریوں کی طرف سے کچرا پھینکنے اور تعمیراتی ملبہ سڑکوں پر چھوڑنے کی عادت کو روکنے کے لیے آگاہی مہمات نہ ہونے کے برابر ہیں۔واسا اور ایل ڈبلیو ایم سی کے پاس سڑکوں کی دھلائی اور کچرے کے انتظام کے لیے ناکافی مشینری اور عملہ ہے۔ڈاکٹر کاشف امجد کے مطابق ’لاہور کو ڈسٹ فری بنانے کے لیے کم از کم تین سے پانچ برس کی مسلسل کوشش درکار ہے۔ اگر ایل ڈی اے شہری بلدیات، نجی شعبے اور شہریوں کو ساتھ ملا لے تو یہ ہدف حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘
ایل ڈی اے حکام کے مطابق شہر کو مٹی اور گرد سے پاک کرنے کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے جس پر فوری طور پر عمل درآمد شروع ہو چکا ہے۔ (فائل فوٹو: سوشل میڈیا)
خیال رہے کہ ماضی میں بھی لاہور کو ’ڈسٹ فری‘ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ سنہ 2023 میں نگران وزیراعلٰی محسن نقوی کے دور میں ایل ڈی اے نے سڑکوں کی صبح و شام دھلائی کا آغاز کیا تھا، لیکن واٹر لوگنگ اور ناکافی وسائل کی وجہ سے یہ منصوبہ محدود رہا۔
اسی طرح سنہ 2022 میں لاہور ہائی کورٹ نے فضائی آلودگی کم کرنے کے لیے تعمیراتی سرگرمیوں پر عارضی پابندی عائد کی تھی لیکن اس سے معاشی سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔