جابر آمر یا اصلاح پسند بادشاہ: یورپ پر راج کرنے والے نپولین کا ہٹلر سے موازنہ کرنے پر فرانسیسی سیخ پا کیوں ہوئے؟

نپولیئن کون تھا اور اس کی شخصیت اتنی متنازع کیوں ہے؟

ڈائریکٹر رڈلے سکاٹ کی فلم ’نپولین‘ میں فرانس کے بادشاہ نپولین بونا پارٹ اور ان کی اہلیہ جوزفین کے تعلقات پر خصوصی طور پر توجہ دی گئی ہے۔ تاہم سکاٹ رڈلے کی جانب سے ایک حالیہ تبصرے کی وجہ سے، جس میں انھوں نے نپولین کا موازنہ سکندر اعظم، ہٹلر اور سٹالن سے کیا، یہ فلم ریلیز ہونے سے قبل ہی بحث کا موضوع بن گئی ہے۔

ایک فلم میگزین کو دیے جانے والے انٹرویو میں سکاٹ کے اس موازنے کے بعد فرانسیسیوں نے جواب دینے میں دیر نہیں کی۔

نپولین فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر پیئر برانڈا نے برطانوی اخبار ٹیلی گراف کو بتایا کہ ’ہٹلر اور سٹالن نے تباہی کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔ نپولین نے ایسی چیزیں بنائیں جو آج تک موجود ہیں۔‘

نپولین فاونڈیشن کے ہی ایک اور عہدیدار نے اسی مضمون میں کہا کہ ’نپولیئن نے فرانس یا یورپ کو تباہ نہیں کیا۔‘

تو آخر سچ کیا ہے؟ نپولین کی شخصیت اتنی متنازع کیوں ہے؟

شاندار عروج

نپولین ایک بہترین عسکری کمانڈر تھے جو فرانسیسی انقلاب کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی عدم اسحتکام کے نتیجے میں سنہ 1799 میں ملک کے سربراہ بنے۔

نپولین کے مداحوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے فرانس کو ایک ایسے ملک میں بدل دیا جہاں میرٹ پر کام کیا جاتا تھا۔

نپولین نے حکومت کی تشکیل نو اور بینکاری کی تنظیم نو کی، تعلیمی نظام کو بہتر بنایا اور ’نپولینک کوڈ‘ رائج کیا جس کی مدد سے ملک کا نظام انصاف دنیا کے کئی ممالک کے لیے مشعل راہ بن گیا۔

لیکن دوسری جانب نپولین نے یورپ میں خونیں جنگوں کا سلسلہ چھیڑ دیا جن کا مقصد ایک وسیع سلطنت کا قیام تھا جو اپنے عروج پر سپین سے ماسکو تک پھیلی ہوئی تھی۔

سنہ 1812 میں یورپ کے چند ہی حصے نپولین کے تابع نہیں تھے۔ ان میں برطانیہ، پرتگال، سویڈن اور سلطنت عثمانیہ شامل تھے۔

سنہ 1815 میں آخرکار برطانیہ کی سربراہی میں نپولین مخالف اتحاد نے ان کو ’واٹر لُو‘ کی جنگ میں شکست دی اور یوں نپولین کی سلطنت کا خاتمہ ہوا۔

نپولیئن
Getty Images
ایک وقت میں برطانیہ، پرتگال، سویڈن اور سلطنت عثمانیہ کے علاوہ پورا یورپ نپولین کے تابع تھا

لیکن نپولین کی شخصیت تاریخ میں اور ان کا نام ادب میں زندہ رہا۔ جارج اورویل کے ناول ’اینیمل فارم‘ میں ڈکٹیٹر بن جانے والے جانور کو نپولین کا نام دیا گیا۔ لیکن کیا نپولین کو ایک آمر قرار دینا منصفانہ طرز عمل ہو گا یا دیگر آمروں سے ان کا موازنہ درست ہے؟

آمر یا اصلاح پسند؟

آسٹریلیا کے مؤرخ اور پروفیسر فلپ ڈوائیر کہتے ہیں کہ ’اگر یہ بحث ہو گی کہ نپولین ایک آمر اور جابر حکمران تھا یا نہیں تو میں شاید اس بات کی حمایت کروں کہ وہ ایک جابر آمر تھا لیکن یقیناً وہ ہٹلر یا سٹالن جیسا نہیں تھا جنھوں نے اپنے ہی لوگوں پر مظالم ڈھائے اور لاکھوں افراد کی اموات کی وجہ بنے۔‘

چند لوگوں کا ماننا ہے کہ نپولین کی سلطنت حقیقت میں ایک پولیس ریاست تھی جس میں خفیہ مخبر عوامی رائے عامہ پر کڑی نظر رکھتے تھے۔

فلپ کہتے ہیں کہ ’بہت کم لوگ، جن میں کچھ صحافی بھی شامل تھے، نپولین کی مخالفت اور اس کی حکومت گرانے کے الزام میں مارے گئے۔ اگر ہم کسی سے نپولین کا موازنہ کر سکتے ہیں تو فرانسیسی بادشاہ لوئی سے کر سکتے ہیں جس نے ایسی غیر ضروری جنگیں چھیڑیں جن میں لاکھوں افراد بے وجہ مارے گئے۔‘

’یہ سچ ہے کہ نپولین نے جنگیں چھیڑیں اور لاکھوں افراد مارے گئے لیکن یہ امر قابل بحث ہے کہ یہ جنگیں ضروری تھیں یا غیر ضروری۔‘

فرانسیسی صحافی این الزبتھ بھی اس نکتے سے اتفاق کرتی ہیں کہ نپولین کا موازنہ ہٹلر یا سٹالن کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔

’نپولین نے اقلیتوں کا قتل عام نہیں کیا۔ ہاں، اس کے دور میں پولیس بہت سخت تھی، لیکن عام لوگ اپنی زندگیاں اپنی مرضی سے گزار سکتے تھے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’فرانسیسی لوگ نپولین کو ایک اصلاح پسند کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس کے پاس ایک غیرمعمولی دماغ تھا جس نے ان قوانین اور اداروں کی بنیاد رکھی جن کے تحت ہم آج زندگیاں گزار رہے ہیں۔‘

’ہماری سوچ یہ ہے، اور یہ بلکل غلط نہیں ہے، کہ بہت سے لوگ فرانس کے زیر اثر رہتے ہوئے بہت خوش تھے۔‘

لیور پول یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر چارلس اسڈیل نے نپولین پر کافی کتابیں تحریر کی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں نپولین کو ایک عسکری رہنما کے طور پر دیکھتا ہوں جس کے لیے اس کا ذاتی مقصد اہم تھا۔ اس کے پاس ایک واضح منصوبہ تھا کہ وہ کیسا فرانس چاہتا ہے اور یورپ کو کیسا بنانا چاہتا ہے۔‘

’لیکن یہ تصور کہ اس نے لوگوں کو آزادی دلوائی، کہ وہ مستقبل سے تعلق رکھنے والا شخص تھا، قصے کہانیوں کا ہی حصہ ہو سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’نپولین کی سلطنت میں پراپیگینڈا بہت طاقتور ہتھیار تھا جس نے جنگ کی ذمہ داری برطانیہ کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ پیغام دیا گیا کہ فرانس کی کوئی غلطی نہیں تھی اور باقی سب مل کر فرانس کے خلاف ہو چکے تھے۔ یہ ایک طاقتور تصور ہے جو آج تک باقی ہے اور اسی کی وجہ سے نپولین کی شخصیت بھی زندہ ہے۔‘

رڈلے سکاٹ
Reuters
’رڈلے سکاٹ گلیڈی ایٹر جیسی فلمیں بنا چکے ہیں اور اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کسی فلم کی پروموشن کیسے کرنی چاہیے‘

تاہم وہ بھی نپولین اور ہٹلر یا سٹالن کے درمیان موازنے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ’نپولین کی شخصیت میں بہت سی خامیاں تھیں لیکن اس کے دور حکومت میں نسلی امتیاز کی کوئی پالیسی نہیں تھی۔‘

’نپولین نے قتل عام نہیں کیا۔ اگر انصاف کی بات کی جائے تو اس کے دور میں سیاسی قیدیوں کی تعداد بہت محدود تھی۔ ان کا موازنہ ہٹلر یا سٹالن سے کرنا تاریخی اعتبار سے بکواس بات ہے۔‘

یاد رہے کہ فلم کے ڈائریکٹر رڈلے سکاٹ گلیڈی ایٹر جیسی فلمیں بنا چکے ہیں اور اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کسی فلم کی پروموشن کیسے کرنی چاہیے۔ عین ممکن ہے کہ ان کو اس بات کا اندازہ ہو کہ ان کے اس بیان کی وجہ سے فلم کی تشہیر ہو گی اور انھوں نے اسی مقصد سے یہ بیان دیا ہو۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.