پاکستانی بیلی ڈانسر یوشا حسین: ’گھاگھرا چولی پہنو گے تو کتنا برا لگے گا، تمھیں یہ سب کرتا دیکھ کر ہمیں شرم آئے گی‘

جب آپ یوشا کو ایک کراپ ٹاپ اور لانگ سکرٹ یا فراک پہننے اپنے کمر کو لچکاتے ہوئے رقص کرتا دیکھتے ہیں تو آپ صنف کی قید سے آزاد ہو کر انھیں داد دیے بنا نہیں رہ سکتے۔

’لہرا کے، بل کھا کے۔۔۔‘ ماضی کا یہ گانا شاید کراچی کے یوشا حسین کے تھرکتے قدموں اور بل کھاتی کمر پر فٹ بیٹھتا ہے۔

کیونکہ یوشا ایک مرد بیلی ڈانسر ہیں۔۔۔ جی ہاں آپ نے درست پڑھا، مرد بیلی ڈانسر۔ اور جب آپ انھیں ایک کراپ ٹاپ اور لانگ سکرٹ یا فراک پہننے اپنے کمر کو لچکاتے ہوئے رقص کرتا دیکھتے ہیں تو آپ صنف کی قید سے آزاد ہو کر انھیں داد دیے بنا نہیں رہ سکتے۔

اگرچہ بیلی ڈانس زیادہ تر عربی و خلیجی ممالک میں مقبول رقص ہے اور یہ زیادہ تر خواتین پیش کرتی ہیں۔ مگر یوشا کے لیے بھی اس رقص کو سیکھنا اور اسے پیش کرنا آسان نہیں تھا۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے یوشا گذشتہ دس برس سے رقص کے اس انداز کو اپنائے ہوئے ہیں۔

’لوگ طنز کرتے ہیں اور فقرے کستے ہیں‘

یوشا حسین
BBC

یوشا حسین نے بی بی سی کے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر دس برس کے سفر کو دیکھیں تو لوگوں نے مجھ پر بہت جملے کسے، کسی نے طنز کیا کہ ’ناچنی بننا ہے‘، تو کسی نے کہا کہ ’ڈانس اچھے لوگ نہیں کرتے، یہ ڈانس کیا چیز ہے۔‘

وہ اپنے فن کے سفر کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ ’تم بھانڈ ہوں، تم کیا کر رہے ہوں۔‘

یوشا حسین بتاتے ہیں کہ شروع میں گھر والوں نے بھی میرے اس شوق اور فن کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ میرے خاندان میں پہلے کسی نے ایسا رقص نہ کیا تھا نہ سیکھا تھا۔ ’بھائی کو موسیقی سے لگاؤ تھا جو بس گٹار بجا لیتا تھا۔‘

یوشا کا کہنا ہے کہ ’جب پہلے پہل میں نے یہ رقص شروع کیا تو میرے والدین نے کچھ عرصے تک مجھ سے بات تک نہیں کی۔‘

وہ کہتے ہے کہ ’امی ابو نے کہا تو گھاگھرا چولی پہنو گے، فراک پہنو گے۔۔۔ یہ کتنا برا لگے گا۔۔۔ ہمیں تمھیں یہ سب کرتا دیکھ کر شرم آئے گی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’وقت کے ساتھ ساتھ میں نے انھیں سمجھایا کہ آپ کو اور لوگوں کو یہ اچھا لگے گا۔ شرم نہیں آئے گی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’پھر آہستہ آہستہ میرے شوق و لگن کو دیکھتے ہوئے گھر والوں نے اسے تسلیم کر لیا اور مجھے بہت سپورٹ کیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اس سفر میں مجھے جو پیار، جو مدد میری بڑی بہن سے ملی میں اسے کبھی نہیں بھول سکتا ہوں۔ میری آپی نے مجھے ہر طرح سے سپورٹ کیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میرے گھر میں میرا بھائی میرے اس کام کو تسلیم نہیں کرتا، وہ کہتا ہے کہ کتنا اور کب تک اس کام کو لے کر چلو گے۔‘

یوشا کا کہنا ہے کہ اس سفر میں مشکلیں تو بہت آئی لیکن وہ کبھی ہمت نہیں ہارے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ مسئلہ پاکستانی معاشرے میں ڈانس کو بُرا سمجھا جانا اور خصوصاً لڑکے کے بیلی ڈانس سے متعلق تو بہت قدامت پسندی پائی جاتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ کہ ہمارے معاشرے میں اس بات کو تسلیم نہیں کیا جاتا کہ کوئی لڑکی لڑکے والا کام کر سکتی ہے یا لڑکا لڑکی کے کام کر سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ہماری اس فیلڈ میں مقابلہ بہت سخت ہے۔ لڑکا ہو یا لڑکی اسے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔

یوشا حسین
BBC

’میں نے لوگوں کے طنز کو اپنی طاقت بنایا‘

یوشا کا کہنا ہے کہ ’میں بھی اپنی دھن کا پکا تھا۔ لوگوں کی منفی باتوں اور تمسخر اڑانے والے جملوں کو میں نے اپنی طاقت بنایا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جو میں کر سکتا ہوں وہ کوئی اور نہیں کر سکتا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ا’ب دنیا مجھے دیکھ رہی ہے اور یہ ہی میرا اپنے ناقدین کو جواب ہے۔‘

’جب لوگوں نے پسند کیا تو اچھا لگا‘

یوشا کہتے ہیں کہ ’کچھ عرصہ قبل آرٹس کونسل میں یوتھ فیسٹول ہوا اور جب میں سٹیج پر گیا تو پہلے پہل لوگ مجھے فراک میں دیکھ کر ہنسے کہ یہ کیا کرے گا لیکن جب میں نے اپنا ڈانس ختم کیا تو وہاں موجود ہر کوئی مجھے دادا دے رہا تھا۔ ہر موبائل کی لائٹ آن تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی کنسرٹ ہو۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب بھی میں سٹیج پر جاتا ہوں تو پہلے تو لوگ مجھے دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں کہ ایک لڑکے نے کراپ ٹاپ اور فراک پہن رکھا ہے، یہ لڑکا ہے بھی کہ نہیں۔۔۔ یہ کیا کرے گا۔‘

’لیکن جب میں پرفارم کرتا ہوں تو انھیں پسند آتا ہے اور مجھے خوشی ہوتی ہے۔‘

یوشا حسین
BBC

’بیلی ڈانس میں میری انسپریشن انڈین ڈانسر ایشان ہلال ہیں‘

یوشا کا کہنا ہے کہ روایتی طور پر رقص کا یہ انداز عرب خصوصاً مصر میں زیادہ مقبول ہے اور اس کو ’رقص شرقی‘ کہا جاتا ہے۔ وہاں زیادہ تر خواتین رقص کے اس انداز کو اپناتی ہے۔

یوشا کہتے ہیں کہ ’اس رقص کی طرف میرا رجحان جنھیں دیکھ کر ہوا وہ انڈیا کے پہلے بیلی ڈانسر ایشان ہلال ہیں۔ اگرچہ میری آج تک ان سے ملاقات نہیں ہوئی لیکن میں انھیں استاد مانتا ہوں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ خواتین کے لیے بیلی ڈانس کرنا قدرے آسان ہوتا ہے کیونکہ ان کے جسم میں قدرتی لچک اور ان کے خدوخال اس کو بہتر کرتے ہیں جبکہ مردوں کے لیے بیلی ڈانس کرنا کچھ مشکل ہے کیونکہ ان کے جسم میں لچک کم ہوتی ہے اور انھیں اس کے ساتھ ساتھ قدرتی وجاہت پر بھی قابو پانا ہوتا ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ کراچی آرٹس کونسل میں ان کے استاد مانی چو اور خرم تال انھیں بہت سپورٹ کرتے ہیں۔

یوشا حسین
BBC

وہ کہتے ہیں کہ انھیں پتا ہے کہ اگر یوشا رقص کے اس انداز کو آگے لے کر آ رہا ہے تو اس کی نیت ٹھیک ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستانی معاشرے میں ایک لڑکا ہو کر لڑکی والا کام کرنا، یعنی کوئی نزاکت والے کام کرے تو اسے تسلیم نہیں کیا جاتا مگر اگر لڑکی لڑکوں والے کام کرے تو اسے شاباش دی جاتی ہے۔‘

یوشا کے مطابق ’میں سب کو کہتا ہوں کہ اپنی زندگی کو کھل کر جیو، زندگی کے رنگ دیکھو اور زندگی کو بھرپور انداز میں جیو اور ثابت کرو کہ آپ کچھ منفرد کر سکتے ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ میری خواہش ہے کہ میں مستقبل میں ایک کریوگرافر بن جاؤں اور رقص کی اس قسم کو پاکستان میں مزید فروغ دوں اور نکھاروں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.