چکڑ (کیچڑ)۔۔۔ ہمارے اپنے معاشرے میں درندگی اور بے حسی کی کہانی

image

چکڑ ( فلم ریویو)

چکڑ فلم کی اسٹوری کو کہانی کہا جائے یا نہیں کیونکہ اس طرح کے ہولناک واقعات بدقسمتی سے ہم سب کتنی بار دیکھ چکے ہیں جب اپنے مطلب، بدلے یا انتقام یہاں تک کہ اپنے جرم کو چھپانے کیلئے ایک سازش رچا کر کسی کو بھی نشانہ بناکر گھناؤنا، بڑا اور جھوٹا الزام لگا کر ہجوم کے حوالے کردیا جاتا ہے اور پھرغول خود ہی جج بھی بن جاتا ہے اور جلاد بھی۔

کچھ مارتے ہیں کچھ مارنے والوں کو بچاتے ہیں کچھ مارنے والوں کو مار کر اپنے گناہ چھپاتے ہیں لیکن ان دونوں سے بھی بڑے درندے اس صورتحال کا بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور کچھ خاموش رہ کر تماشا دیکھتے ہیں۔ یعنی کیچڑ کی اس حمام میں کتنے ننگے کتنے گندے؟

فلم بنانا ویسے بھی کوئی بچوں کا کھیل نہیں اوپر سے فلم کا موضوع اگر ”چکڑ“ جیسا ہو، فلم میں کوئی سپر اسٹار نہ ہو اور پھر فلم کو بنانا بھی یہاں ہو اور ریلیز بھی یہیں کرنا ہو۔

اپنی پہلی کمرشل فلم میں یہ ”جرات“ پہلے شعیب منصور نے فلم ”خدا کیلئے“ میں کی تھی لیکن اُس فلم کو بہت سے فوائد حاصل تھے جیسے کہ سب سے بڑا شعیب منصور اور شان (فواد اس وقت سپر اسٹار نہیں تھے)، فلم کا میوزک اور گانے اور نصیر الدین شاہ۔۔

پاکستان کی فلم انڈسٹری میں کسی بھی ڈائریکٹر کی پہلی ہی فلم کے مکمل معیار کے حساب سے”چکڑ“ کو ٹاپ فلموں کی فہرست میں رکھنا ہوگا، کیونکہ اس فلم میں انتہائی”حساس موضوع“ کو بغیر گانوں کی سپورٹ اور سپر اسٹارز کی بارات کے بغیر ”کریکٹرز“سے بُنا گیا ہے ۔

ہر کریکٹر میں ہر ایکٹر ایسا جیسے انگلی میں انگوٹھی اور انگوٹھی میں نگینہ۔ حالیہ برسوں میں کیک اور لال کبوتر وہ فلمیں تھیں جو پہلی فلم بنانے والے ڈائریکٹرز کی ذرا ہٹ کر تھیں لیکن چکڑ جیسی حساس نہیں۔

چکڑ ایک سوشل ڈرامہ اور مرڈر مسٹری ہے، فلم میں سسپینس اُتنا نہیں نہ ایکشن اور میوزک ہے لیکن فلم میں منفرد کامیڈی ہے اور زندگی کا تڑکہ بھی۔

فلم میں کامیڈی کا تڑکا انتہائی سادہ اور عام ہے جو مسکراہٹ، قہقہوں اور زندگی سے بھرپور ہے صرف ایک جگہ ہلکی سی ڈبل میننگ ہے لیکن وہ بھی انتہائی سلیقے اور قرینے سے پیش کی گئی ہے جو فیملی آڈینس کو بھی بری نہیں لگتی۔

پولیس افسر سردار یعنی علی شیخ کا پہلا ہی سین لوٹ پوٹ کردیتا ہے اس سین میں ایسے سوالات ہیں جن کا ہر شوہر کو گھر میں جواب دینا پڑتا ہے یعنی کہانی گھر گھر کی۔

بھٹی صاحب اس فلم میں ”ڈائریکٹ حوالدار“ ہیں۔ میرے خیال سے پہلی بار اسکرین پر صحیح انگریزی انتہائی سادگی سے پیش کر کے بہترین کامیڈی پیش کی گئی ہے۔

گاوں دیہات میں انگریزی کیا کیا گُل کھلاتی ہے اس بات کا گلدستہ بہترین انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ فلم میں رومانس بھی ہے اور وہ بھی ایسا جو کباب میں ہڈی بننے والے کی وجہ سے سب کو یاد رہ جاتا ہے۔

فلم میں باریک باتوں مثلا کنٹینیوٹی کا بہت خیال رکھا گیا ہے ایک لمبے سین میں پیچھے لگی گھڑی ایک منٹ کا بھی دھوکہ نہیں دیتی حالانکہ اس طرح کی غلطی ہالی وڈ والوں سے بھی ہوجاتی ہے۔

فلم میں ”سب ٹیکسٹ“ بہت آسانی سے سمجھ میں آتا ہے خود پولیس والے کا یہ کہنا کہ ناچ گانا تو اچھی بات نہیں اور اس کی رنگ ٹون بج جاتی ہے۔

کس طرح ”چائے کے اچھے کپ“ بھی لوگ استعمال نہیں کرتے اورماتحت پولیس کے ”واش روم“ کو نہ دکھا کر بھی گند سمجایا جانا قابل تعریف ہے۔ فلم میں ظاہر ہے ہماری نظر میں کچھ کمزوریاں، تشنگی یا غلطیاں بھی ہیں جن کا ذکر آگے تحریر میں ہوگا۔

فلم ایسی ہے جو دوبارہ دیکھنے پر اپنی شدت اور بڑھاتی ہے۔فلم میں کئی سین اور مکالمے ہیں جو دہلادیتے ہیں،چونکادیتے اور ہلادیتے ہیں۔

فلم کی کہانی ایک فنکارہ کے قتل کے گرد گھومتی ہے جس کو ہجوم ماردیتا ہے۔ یہ فنکارہ کون ہے؟ یہ قتل کیوں ہوتا ہے، اس قتل کے پیچھے کون لوگ ہوتے ہیں، ان کے مقاصد کیا ہوتے ہیں اور وہ کس طرح سسٹم کی کمزوریوں کی مدد سے قانون کو اپنی انگلیوں پر نچاتے ہیں؟ یہ سوالات آپ فلم دیکھ کر ہی جان پائیں گے۔

فلم دیکھ کر کچھ لوگوں کو یہ بھی یقین آجائے گا کہ صرف سوچنا ہی کافی نہیں ہوتا، آپ دوسروں کے بارے میں ذرا بھی سوچیئے وہ اچھا ہی سوچیے۔

فلم کے مکالموں پر بہت محنت کی گئی ہے، ٹریلر میں ”سب سے پرانا دو قومی نظریہ“ تو ہے ہی اس کے علاوہ سی ایس ایس کرنے والوں کیلئے قائد اعظم زندہ باد کی الجھن سلجھن بھی کھل کر بتائی گئی ہے۔

”آپ اتنی اچھی طرح بات کرتے ہیں کہ لگتا ہی نہیں پولیس والے ہیں“ اور ساون کی راو کیلئے ”رائے“ بھی فلم کے بعد آپ کے ساتھ آتی ہے۔

میڈیا کی بریکنگ نیوز اور ”یو ٹرن“ بھی فلم میں ہے۔ ”بعض معاشروں میں ہنستے ہوئے لوگ اچھے نہیں لگتے“ کا ڈائیلاگ تو جیسے دل چیر دیتا ہے۔ فلم کو ڈائریکٹر اور رائٹر نے ایسا بُنا اور پھر اداکاروں نے اسے اس طرح سجایا کہ لمبے سینز اور سنجیدہ موضوع کے باوجود فلم دیکھنے والوں کو گرفت میں رکھتی ہے۔

فلم کی عکاسی بھی سادہ ہے جہاں جو دکھانا ہے وہی دکھایا گیا ہے خوامخواہ کے اینگلز سے دیکھنے والوں کی آنکھوں کا امتحان نہیں لیا گیا۔ایس ایس پی سرمد زمان اور ملک کی پہلی میٹنگ میں بچے کا شطرنج کھیلتے ہوئے فریم اور زاویہ تھوڑی سی کہانی بھی کھول دیتا ہے۔

پولیس والا اسکرین پر دکھنا کوئی آسان کام نہیں کیونکہ سب کو دبنگ پولیس والے سلمان خان، اجے دیوگن، رنویر سنگھ، عامر خان اور اکشے کمار سے لیکر زنجیر کے امیتابھ بچن یاد آجاتے ہیں لیکن جو بات ”اندھیروں میں اجالا“ کرنے والے والے پولیس افسر ”قوی صاحب“ کی ہے وہ بات کسی اور میں کہاں۔

عثمان مختار کا سنجیدہ پولیس افسر کا کردار قوی صاحب اور راحت کاظمی کی یاد دلاتا ہے۔ کیس کو سلجھاتے ہوئے صرف اصولوں کی ماننے سے لیکر ماتحت افسران کو پولیس کا مطلب سمجھاتے تک،،، یہاں تک کہ میز پٹختے ہوئے عثمان مختار نے پولیس والے کا کردار بخوبی اور سنجیدگی سے نبھایا۔

عثمان اب مسلسل سنجیدہ کردار اتنا سیریس ہو کر نبھارہے ہیں کہ لگتا ہی نہیں انھوں نے جانان میں ہانیہ عامر کے منگیتر اور پھر شوہر کے کردار میں زبردست کامیڈی کی تھی۔

ویسے اسکرین پر اتنی زیادہ جگہ لینے والے کردار قسمت والوں کو ہی ملتے ہیں۔ اس فلم سے انھوں نے اپنی”مڈل کلاس“بھی بدل لی اب وہ ایک میگا اور مہنگے پروجیکٹ میں ”عیاری“ دکھائیں گے۔۔

عشنا شاہ اسکرین پر بہت اچھی لگیں انھوں نے بے ساختہ ایکٹنگ کی جو کامیاب اسپورٹس ایتھلیٹ کے ساتھ ایک بہت اچھی انسان کے طور پر دکھائی گئی ہیں۔

جو انصاف اور اپنے شوہر کی خاطر اپنے سب سے بڑے خواب کو بھی ٹھکرادیتی ہے۔ بچوں کی سیلفی، اپنے شوہر کے ساتھ کچھ پل اور بھٹی صاحب کے منانے والے سین میں وہ بہت نیچرل نظر آئیں۔۔

فلم کا مرکزی کردار فریال محمود جو اسکرین پر کم نظر آتا ہے لیکن جب آتا ہے تو سب کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔

فلم میں جب فریال کی آنکھیں انصاف مانگتی ہیں تو فلم دیکھنے والے بھی اپنے اپنے گریبان میں جھانکتے ہیں۔ویسے ہی جیسے ایس ایس پی اپنے یونیفارم پرلگا فریال کا خون دیکھتے ہیں۔۔

فلم میں ایس ایچ او جمال بھٹی کا کردار نعمان وحید قریشی نے نبھایا ہے یہ کردار پوری فلم کی سنجیدگی کو اپنی سادگی، انگریزی اور کامیڈی سے بیلنس کرتا ہے۔

یہ کردار سینما گھروں میں سب کو مسکراہٹ دیتا ہے اور بدلے میں تالیاں سمیٹتا ہے۔اگر اگلے سال کوئی ایوارڈز ہوئے توبہترین معاون اداکار کا ایوارڈ اس نیچر ل پرفارمنس کو ضرور ملنا چاہیے۔

نوشین شاہ نے سیاستدان اور وزیر کا پاورفل کردار ادا کیا جو پاور گیم کا حصہ ہے۔ انصاف سے دور اس کردار میں نوشین نے اپنی چال ڈھال لباس اور تاثرات سے اپنے کردار کے ساتھ بھرپور انصاف کیا اور اسکرین پر بھی پورا ”کریڈٹ“ لیا۔۔

پاکستانی فلموں کیلئے لازم و ملزوم سلیم معراج اور ٹیپو شاہ اس فلم کی بھی زینت بنے اور یہاں بھی کمال دکھاگئے۔

ان دونوں کے بارے میں کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانا ہے۔تھیٹر کے مالک تنویر سید اور اے ایس آئی مرید یعنی عاصم جمال بھی ایکٹنگ میں اپنی چھاپ چھوڑ گئے۔

فلم میں اور بھی بہت سے کردار ہیں لیکن جیسے یہی بات پہلے ہوئی کہ یہ فلم اداکاروں سے نہیں کرداروں سے دکھائی گئی اور ان کو چننے اور بُننے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔فلم کے ڈائریکٹر ظہیر الدین جو اس سے پہلے ایڈ ورلڈ میں تھے اس فلم سے سینما کی دنیا میں قدم جماچکے ہیں ان کو اس محنت اور کوشش پر شاباش۔۔۔

اب فلم کی کچھ کمزوریاں دیکھتے ہیں، جب فلم حقیقی کیسز سے متاثر ہو کر بنائی گئی ہو اور باریک باتوں کا بھی خیال رکھا گیا ہو جیسے تھیٹر مالک جو اصل میں جوانی میں ہیرو بننا چاہتا ہے اس کی اپنی جوانی کی تصویر بھی ٹیبل کی زینت ہوتی ہے تواس میں کچھ چیزیں رہ بھی جاتی ہیں۔

مثلا ، غالبا پاکستان میں خواتین کے ورلڈ کپ کیلئے ٹرائلز نہیں ہوتے، دوسرا ورلڈ کپ کلر کٹ میں ہوتا ہے وہاں پریکٹس سفید کپڑوں اورلال گیند سے ہورہی ہوتی ہے۔

ٹیپو شاہ کا کردار اور عشنا کا ورلڈ کپ ٹیم کا حصہ بننا یا نا بننا بہت زیادہ بِلڈ کیا گیا ہے لیکن دونوں کا انجام وضاحت کے ساتھ نہیں دکھایا گیا۔ میڈیا کے کردار پر تو محنت ہوئی لیکن جس طرح ٹی وی چینل اسکرین پر آتے ہیں وہ مزید بہتر ہوسکتا تھا۔

آخری بات یہ کہ فلم ”چکڑ“ میں جیسے مظلوم کے حق میں ہاتھ اٹھانے والوں کی تعداد بڑھتی ہے امید ہے اس فلم کو دیکھنے والوں کی تعداد بھی بڑھے گی کیونکہ یہ ہماری فلم ہے ہمارے لیے فلم ہے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.