برطانیہ میں گمشدہ فن پارے جو لاہور میں کباڑیے کی دکان سے ملے

برطانیہ میں فیشن کی ایک طالبہ جو یہ سوچ رہی تھیں کہ انھوں نے اپنے قیمتی سکیچز کھو دیے ہیں اس وقت حیرت زدہ رہ گئیں جب وہ انھیں پتا چلا کہ یہ تو پاکستان پہنچ چکے ہیں۔
Grace Hart, 20, with her mother Sonia
Grace Hart
گریس کی والدہ نے غلطی سے ان کی کتابیں خیراتی سامان کے ساتھ رکھ دیں

’آج سے ٹھیک دو سال پہلے میں ایک کباڑیے کی دکان پر گیا، جہاں سے مجھے تین سکیچ بکس ملیں جن میں ذہن کو جھنجھوڑ دینے والے فن پارے تھے۔ میں نے انھیں خرید لیا، صرف 200 روپے میں۔ جب میں گھر جا رہا تھا تو میں سوچنے لگا کہ کوئی اپنی اتنی محنت کیوں پھینک دے گا۔ ان تینوں کتابوں کے سرورق پر ایک ہی نام لکھا ہوا تھا اور وہ تھا گریس ہارٹ۔‘

یہ کہنا تھا لاہور سے تعلق رکھنے والے فیشن فوٹو گرافر تاجور منیر کا جنھوں نے اپنی انسٹا گرام پوسٹ میں برطانیہ کی ایک طالبہ کے کھو جانے والے فن پاروں کے ملنے اور پھر ان کی جانب سے اسے واپس برطانیہ بھیجنے کی دلچسپ کہانی شیئر کی۔

تاجور منیر نے مزید لکھا ’میں نے انسٹاگرام پر ان کا نام سرچ کیا اور انھیں ڈھونڈ لیا۔ میں نے انھیں میسج بھیجا کہ مجھے ان کا کام ملا ہے اور یہ حیرت انگیز ہے، میں یہ جاننے کے لیے متجسّس ہوں کہ انھوں نے اسے پھینک کیوں دیا۔‘

انھوں نے اپنی پوسٹ میں مزید لکھا کہ ’پھر گریس نے بتایا کہ یہ ان کا پورٹ فولیو ہے اور انھیں اندازہ نہیں یہ ان سے برطانیہ میں کیسے کھو گیا۔‘

تاجور منیر لکھتے ہیں کہ ’ہم دونوں کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ لاہور میں کیسے پہنچا۔ بعد میں گریس نے اپنا ایڈریس شیئر کیا اور میں نے انھیں واپس بھیج دیا۔‘

وہ اس واقعے پر لکھتے ہیں ’یہ بہت عجیب بات ہے کہ ہم کس طرح کسی کی کہانی کا حصہ بن سکتے ہیں اور آرٹ ہمیں مختلف طریقوں سے جوڑتا ہے۔‘

Artwork showing potraits of two women and a man
Grace Hart
یہ فن پارے گریس کا پورٹ فولیو تھے

’وہ کتابیں ہی میرے کام کا ثبوت تھیں‘

ادھر برطانیہ میں فیشن کی ایک طالبہ جو یہ سوچ رہی تھیں کہ انھوں نے اپنے قیمتی سکیچز کھو دیے ہیں اس وقت حیرت زدہ رہ گئیں جب انھیں پتا چلا کہ یہ تو پاکستان پہنچ چکے ہیں۔

20 سالہ گریس ہارٹ کو ڈر تھا کہ وہ یونیورسٹی میں داخلہ نہیں لے سکیں گی کیونکہ ان کی والدہ سونیا نے غلطی سے ان کا پورٹ فولیو کہیں پھینک دیا تھا۔

پھر گریس ہارٹ کو پتا چلا کہ ان کا فن چار ہزار میل دور لاہور کی ایک دکان میں فروخت ہو گیا۔ اس کے بعد، قسمت نے ایک اور عجیب موڑ لیا اور شہر کے ایک فوٹوگرافر نے ان کے ڈیزائنز انھیں واپس بھیجنے سے پہلے انھیں انسٹاگرام پر ڈھونڈ لیا۔

یہ سب اس وقت ہوا جب گریس ہارٹ مانچسٹر میٹروپولیٹن یونیورسٹی میں فیشن کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایک درخواست کے لیے اپنا پورٹ فولیو تیار کر رہی تھیں۔

ہوا کچھ یوں کہ ان کی آرٹ کی کتابیں ان چیزوں کے ساتھ گھل مل گئیں جو ان کے گھر والےایک خیراتی دکان پر بھیج رہے تھے۔

Sketches by Grace Hart
Grace Hart

خوش قسمتی سے 20 سالہ طالبہ کو اس کورس میں شامل کر لیا گیا کیونکہ وہ اس کام کی تصاویر بھیجنے میں کامیاب ہو گئیں جو انھوں نے کئی سال لگا کر بنایا تھا۔

لیکن نہ ہی گریس ہارٹ اور نہ ہی ان کی والدہ کو احساس ہوا کہ وہ سب گیا کہاں اور وہ مہینوں تک اسے یہاں وہاں تلاش کرتی رہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں بہت زیادہ ذہنی دباؤ میں تھی کیونکہ آرٹ کی وہ کتابیں ہی میرے پاس اس بات کا ثبوت تھیں کہ میں نے سکول میں یہ کام کیا تھا۔‘

ہارٹ کو یہ معمہ تب سمجھ آنا شروع ہوا جب تاجور منیر نامی شخص کا انسٹاگرام پیغام موصول ہوا۔ گریس ہارٹ نے کہا کہ انھوں نے شروع میں تاجور کے انسٹا گرام میسج کو دھوکہ سمجھا اور کوئی جواب نہیں دیا۔

Grace Hart, 20, and her mother Sonia
Grace Hart
گریس کی 52 سالہ والدن کہتی ہیں ’ہم نے ہر جگہ تلاشی لی تھی، میں پریشان ہو گئی تھی‘

’انسانیت پر ہمارا بھروسہ بحال ہو گیا‘

لیکن بعد میں بات کرنے اور بین الاقوامی ڈیلیوری کے لیے مہینوں انتظار کرنے کے بعد، آخر کار گریس کا کام ان کے پاس واپس پہنچ گیا۔

انھوں نے کہا کہ ’میں نے ہمیشہ اپنے فن پر بہت فخر کیا ہے، جب مجھے احساس ہوا کہ یہ غائب ہو گیا ہے تو یہ بہت پریشان کن تھا۔‘

ان کی والدہ نے کہانی کو ناقابل یقین قرار دیا اور منیر کا شکریہ ادا کیا۔ وہ کہتی ہیں ’ہم نے ہر جگہ تلاشی لی تھی، میں پریشان ہو گئی تھی۔‘

وہ کہتی ہیں ’گریس واقعی باصلاحیت ہے اور اس کا فن حیرت انگیز ہے۔ میں گھبرانے لگی اور سوچنے لگی، وہ یونیورسٹی کے لیے کیا کرے گی؟‘

وہ اب لوگوں پر زور دے رہی ہیں کہ وہ پھینکنے یا خیراتی اداروں کو سامان عطیہ کرنے سے پہلے اس کا جائزہ ضرور لیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہمیں یہ فن پارے واپس مل جائیں گے لیکن اس سے انسانیت پر ہمارا بھروسہ بحال ہو گیا ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.