مگر مسئلہ صرف راشد خان کا نہیں ہے: سمیع چوہدری کا کالم

بطور کپتان شاہین آفریدی کو بھی ابھر کر یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ان کی قیادت کا تمام تر جادو صرف راشد خان پہ ہی منحصر نہیں ہے۔ پڑھیے سمیع چوہدری کا کالم
shaheen
Getty Images

یہ تو طویل بحث ہے کہ ایک کامیاب کرکٹ کپتان کے اجزائے ترکیبی کیا ہوتے ہیں مگر پی ایس ایل کا رواں سیزن شاہین آفریدی کی قائدانہ صلاحیتوں پہ امتحان بن کر اترا ہے۔

حال ہی میں جب انھیں پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی قیادت تھمائی گئی تو اس کی تائید میں بنیادی دلیل ہی ان کا قلندرز کو یکے بعد دیگرے دو پی ایس ایل ٹائٹلز دلوانا تھا جو بجائے خود ایک اچھوتا واقعہ تھا کہ اس سے پہلے پی ایس ایل کی تاریخ میں کوئی بھی فرنچائز ٹائٹل کے دفاع میں کامیاب نہیں رہی تھی۔

اگرچہ ان دو ٹائٹل فتوحات میں شاہین کا کردار بھی نمایاں تھا مگر جو چیز صرفِ نظر کا شکار ٹھہری، وہ راشد خان کا کردار تھا جو مڈل اوورز میں مخالف بلے بازوں کے ہاتھ پاؤں باندھے رکھا کرتے تھے اور یوں رنز بٹورنے کا اہم ترین مرحلہ ان کی مشّاقی کی نذر ہو جایا کرتا۔

راشد خان کے اس کردار کی بدولت نہ صرف شاہین آفریدی اور دیگر پیسرز کے حصے کا بوجھ کم پڑ جاتا بلکہ بطور کپتان بھی آفریدی کی مشکلات آسان ہو جاتی تھیں کہ باقی ماندہ سولہ اوورز میں دفاع کرنے کو بہتیرے رنز مہیا ہوا کرتے تھے۔

مگر اس بار قلندرز کو راشد خان کی خدمات دستیاب نہیں ہیں اور اسی سبب یہ خدشات بھی تقویت پکڑ رہے ہیں کہ نہ صرف ٹرافی کا دفاع ممکنات سے پرے ہوا جاتا ہے بلکہ قلندرز کی حالیہ کارکردگی اسے پی ایس ایل کے اوائل سیزنز کی طرف دھکیلتی نظر آتی ہے۔

ٹی ٹونٹی میں کامیابی کی کلید بہترین بلے باز اور شاطر پیسرز تو ہوتے ہی ہیں مگر اہم ترین کردار سپنرز کا ہوتا ہے جو مڈل اوورز کے دقیق مرحلے میں اپنی مہارت سے میچ کی سمت متعین کرتے ہیں۔

psl
Getty Images

راشد خان کی غیر موجودگی میں قلندرز کو جو وسائل دستیاب ہیں، وہ کسی بھی اعتبار سے مسابقت میں راشد کے ہم پلّہ نہیں ہیں۔ سلمان فیاض کا کریئر ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور ان سے راشد جیسا کردار نبھانے کی توقع جوڑنا بجائے خود زیادتی ہو گی۔

سکندر رضا اگرچہ انٹرنیشنل کرکٹ کے چنیدہ آل راؤنڈر ہیں مگر ان کی بیٹنگ مہارت بولنگ سے سوا ہے اور وہ بطور جز وقتی سپنر تو کام میں لائے جا سکتے ہیں مگر پانچویں باقاعدہ بولر کے طور پہ ویسے مؤثر ثابت نہیں ہو سکتے۔

مگر جارج لنڈا کی آمد سے ایک امید ضرور پیدا ہوئی ہے کہ بہرحال وہ ایک آزمودہ بولر ہیں اور فرنچائز کرکٹ کا بھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ملتان سلطانز کے خلاف میچ میں بھی ان کی بولنگ متاثر کن تھی۔

مگر وہاں شاہین کی قائدانہ صلاحیتیں آشکار ہوئیں اور دباؤ کے ہنگام فیصلہ سازی یوں مفقود ہوئی کہ افتخار احمد سے نمٹنے کو وہ زمان خان اٹیک میں لے آئے۔ حالانکہ کرکٹنگ دانش سے ماسوا اعدادوشمار بھی یہ واضح کرنے کو کافی تھے کہ حارث رؤف افتخار احمد کے لیے بہتر جوڑ ثابت ہو سکتے تھے۔

اس کے علاوہ قلندرز کی تینوں ناکامیوں میں ایک بڑی وجہ فیلڈنگ بھی رہی ہے۔ افتتاحی میچ میں ایک اچھا ہدف ترتیب دینے کے بعد قلندرز شاداب خان کے کیچز ڈراپ کرتے چلے گئے تاآنکہ وہ ایک بہترین اننگز کھیل کر میچ کو ان کی دسترس سے کھینچ لے گئے۔

سلطانز کے خلاف میچ میں بھی عین اوائل میں ہی قلندرز نے محمد رضوان کا کیچ ڈراپ کر دیا اور اسی کے طفیل بیٹنگ کو نہایت دشوار وکٹ پر وہ ایک لمبی اننگز کھیل گئے جو میچ کے نتیجے میں نہایت فیصلہ کن ثابت ہوئی۔

اگرچہ حالیہ ایڈیشن میں کسی بھی ٹیم کی فیلڈنگ مثالی نہیں رہی اور ہر میچ کئی ایک ڈراپ کیچز سے مزیّن رہا ہے مگر تاحال قلندرز کے ڈراپ کئے گئے کیچز ہی ان کے نتائج میں زیادہ فیصلہ کن رہے ہیں۔

رواں سیزن میں تاحال رائلی روسو اور محمد رضوان بہترین قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ نمایاں رہے ہیں اور یہی ان کی فتوحات میں بھی جھلک رہا ہے۔ بابر اعظم اور شان مسعود ابھی تک اپنا بہترین ٹیم بیلنس ڈھونڈنے میں مصروف ہیں جبکہ شاداب خان غیر ضروری تجربہ سازی کا شکار نظر آ رہے ہیں۔

اب اگر قلندرز کو اپنی حالیہ مہم جوئی ماضی کے کسی پست ترین ایڈیشنز کی سمت بڑھنے سے روکنا ہے تو سپن ڈیپارٹمنٹ کی قبلہ نمائی کے ساتھ ساتھ فیلڈنگ میں بھی خاص دھیان برتنے کی ضرورت ہو گی۔

بطور کپتان شاہین آفریدی کو بھی ابھر کر یہ ثابت کرنا ہو گا کہ ان کی قیادت کا تمام تر جادو صرف راشد خان پہ ہی منحصر نہیں ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.