روس میں صدارتی انتخاب: پوتن کی ’یقینی فتح‘ کا تاثر، مگر پھر بھی یہ الیکشن اتنا اہم کیوں؟

بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ روس کے موجودہ صدر ولادیمیر پوتن ہی اپنی کامیابی کا دعویٰ کریں گے اور پانچویں بار ملک کے صدر بن جائیں گے۔ آخر اس سب کے باوجود کریملن انتخاب کا انعقاد کیوں کر رہا ہے اور اس سے ہمیں صدر پوتن کی حقیقی مقبولیت کے بارے میں کیا پتا چلتا ہے؟
پوتن
Getty Images

روس میں صدر کے انتخاب کے لیے تین روزہ عمل 15 سے 17 مارچ تک جاری رہے گا۔ بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ روس کے موجودہ صدر ولادیمیر پوتن ہی اپنی کامیابی کا دعویٰ کریں گے اور پانچویں بار ملک کے صدر بن جائیں گے۔

آخر اس سب کے باوجود کریملن انتخاب کا انعقاد کیوں کرا رہا ہے اور اس سے ہمیں صدر پوتن کی حقیقی مقبولیت کے بارے میں کیا پتا چلتا ہے؟

ولادیمیر پوتن نے سنہ 2000 سے روس کی باگ ڈور سنبھال رکھی ہے۔ اپنے پیشرو بورس یلسن کی جانب سے قائم مقام صدر بنائے جانے کے بعد پوتن پہلی بار مارچ سنہ 2000 میں الیکشن جیت کر صدر بنے۔

سنہ 2018 سے 2021 کے درمیان پوتن وزیراعظم بھی رہے لیکن اس کے باوجود انھوں نے ہر چیز پر اپنا مکمل کنٹرول رکھا۔ اس وقت روس کا آئین ایک صدر کو لگاتار صرف دو بار اس عہدے پر رہنے کی اجازت دیتا تھا لیکن پوتن کے اس اقدام نے انھیں دوبارہ الیکشن لڑنے کی اجازت دی۔

سنہ 2020 میں آئین میں تبدیلی کی گئی اور اب بڑے پیمانے پر توقع کی جاتی ہے کہ سنہ 2036 تک پوتن ہی ملک کے صدر رہیں گے۔

اس وقت تک پوتن اقتدار میں سب سے زیادہ لمبے عرصے تک رہنے والے حکمران بن جائیں گے۔

واضح رہے کہ پوتن سے پہلے کمیونسٹ رہنما جوزف سٹالن اور اٹھارویں صدی کی ملکہ کیتھرین، دونوں نے 30، 30 برس تک ملک پر حکمرانی کی۔

پوتن، روس یوکرین جنگ
AFP

حمایت کا اظہار

روس کے انتخابات میں کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ صورتحال سنسنی خیز ہو جائے لیکن یہ برسر اقتدار رہنے والوں کو قانونی حیثیت دینے اور یہ بتانے کے لیے اہم سمجھے جاتے ہیں کہ لوگوں کی رائے کو ملک میں اہمیت دی جاتی ہے۔

اس بار پوتن کے لیے صرف انتخاب جیتنا ہی اہم نہیں بلکہ پولنگ سیٹشنز پر ووٹرز کا زیادہ ٹرن آؤٹ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ملک ایک ایسی جنگ لڑ رہا ہے جس کے روس سمیت پوری دنیا پر اثرات مرتب ہوں گے۔

روس کے خبر رساں ادارے میڈوزا کے مطابق کریملن تقریباً 70 فیصد ووٹر ٹرن آؤٹ حاصل کرنا چاہتا ہے، جس میں 80 فیصد ووٹ پوتن کے ہوں گے۔

واضح رہے کہ سنہ 2018 میں پوتن کو 76.7 فیصد ووٹ ملے تھے۔

بی بی سی کی اپنی تحقیق میں بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ حکام ان نتائج کو حاصل کرنے کے لیے سرکاری ملازمیناور سرکاری کمپنیوں کو متحرک کریں گے، جن کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ الیکشن میں حصہ لیں اور موجودہ صدر کی حمایت کریں۔

روس میں تقریباً 11 کروڑ 23 لاکھ افراد کو ووٹ دینے کا حق حاصل ہے۔ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو یوکرین کے مقبوضہ علاقوں میں رہتے ہیں، جیسے کریمیا اور دونباس خطے کے کچھ علاقے جن پر روس نے سنہ 2014 میں غیر قانونی طور پر قبضہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ ایسے لوگ بھی ہیں جو یوکرین کے مشرقی اور جنوبی علاقوں میں رہتے ہیں اور روس نے فروری 2022 سے ان علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔

اس کے علاوہ بیرون ملک مقیم مزید 19 لاکھ روسی شہری بھی ووٹ ڈالنے کے لیے اہل ہیں، جن میں سے 12 ہزار پڑوسی ملک قزاقستان میں رہائش پذیر ہیں، جہاں روس نے اپنے خلائی مشن کے لیے ایک بیس ’بیکونور‘ کو کرائے پر لے رکھا ہے۔

Russia's President Vladimir Putin delivers a speech during the closing ceremony of the 2024 World Youth Festival
AFP
بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ روس کے موجودہ صدر ولادیمیر پوتن ہی پانچویں بار ملک کے صدر بن جائیں گے

جنگ اور الیکشن

پوتن اپنی انتخابی مہم کے دوران بہت سی تقریبات میں سامنے آئے اور روس کے مختلف علاقوں میں طلبہ اور کارکنوں سے ملاقات کی لیکن ان مواقع پر انھوں نے ’سپیشل ملٹری آپریشن‘ پر بات کرنے سے گریز کیا۔

اگر یوکرین کے ساتھ جنگ میں روس کے لاکھوں نہیں تو ہزاروں فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ روس کو بین الاقوامی پابندیوں کا بھی سامنا ہے۔

روس کے ہزاروں شہری، خاص کر کے نوجوان اور پڑھے لکھے افراد، نے گذشتہ دو برسوں کے دوران اپنا ملک چھوڑ دیا اور اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ وہ اس جنگ کی حمایت نہیں کرتے، یا وہ اس کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔

لہذا اس الیکشن میں زیادہ ٹرن آؤٹ اور صدر کے لیے حمایت، پوتن کے مستقبل کے فیصلوں کو قانونی حیثیت دینے میں اضافہ کرے گی، جن میں سے بہت سے فیصلے براہ راست یوکرین پر حملے سے منسلک ہوں گے۔

روس یوکرین جنگ
AFP
اس الیکشن میں زیادہ ٹرن آؤٹ اور صدر کے لیے حمایت، پوتن کے مستقبل کے فیصلوں کو قانونی حیثیت دینے میں اضافہ کرے گی

امیدوار کون ہیں؟

پوتن کے علاوہ تین اور امیدوار ہیں: قوم پرست اور قدامت پسند لیونڈ سلسکی، کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار نکولئی حیرتونوف اور کاروباری شخصیت ولادسلو داونکوف، ان کا تعلق حال ہی میں بننے والی پارٹی ’نیو پیپل‘ سے ہے۔ یہ جماعت روسی پارلیمان کے زیریں چیمبر میں انتہائی چھوٹے پیمانے پر نمائندگی رکھتی ہے۔

یہ تینوں امیدوار یوکرین پر روسی حملے اور صدر پوتن کی حمایت کرتے ہیں اور ان میں سے کوئی بھی بڑا خطرہ نہیں۔

پوتن کے حقیقی مخالفین یا تو جیل میں ہیں، مار دیے گئے یا پھر وہ ملک سے فرار ہو چکے ہیں۔ پوتن کے سخت ترین مخالف الیکسی ناوالنی فروری میں روس کی ایک ہائی سکیورٹی جیل میں وفات پا گئے۔

جب بی بی سی کے سٹیو روزنبرگ نے نکولئی حیرتونوف سے سوال کیا کہ کیا ان کے خیال میں وہ پوتن سے بہتر صدر بن سکتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ ’ووٹرز ہی ہر چیز کا فیصلہ کریں گے۔‘

نکولئی حیرتونوف سنہ 2022 سے مغربی پابندیوں کی زد میں ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

 نکولئی حیرتونوف
Getty Images
جب بی بی سی کے سٹیو روزنبرگ نے نکولئی حیرتونوف سے سوال کیا کہ کیا وہ پوتن سے بہتر صدر بن سکتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ ’ووٹرز ہر چیز کا فیصلہ کریں گے‘

لبرل ڈیموکریٹک پارٹی آف روس (ایل ڈی پی آر) کے رکن پارلیمان لیونڈ سلسکی کے اوپر جنسی ہراسانی کے متعدد الزامات ہیں۔ لیونڈ سلسکی نے ہی مقبوضہ کریمیا میں سرکاری دوروں کا انعقاد کیا اور وہ سنہ 2014 سے بین الاقوامی پابندیوں کی زد میں ہیں۔

ایک نئی پارٹی سے آنے والے ولادسلو داونکوف کی میڈیا میں موجودگی بہت کم رہی ہے۔ ایک کاسمیٹک کمپنی کے شریک بانی ولادسلو داونکو کو سنہ 2023 میں ماسکو کے میئر کے الیکشن میں صرف پانچ فیصد ووٹ ملے تھے۔

یوکرین کے ساتھ جنگ ​​میں ’امن اور مذاکرات‘ کی وکالت کے باوجود انھوں نے یوکرینی علاقوں کے الحاق کی حمایت میں ووٹ دیا، جس کے نتیجے میں انھیں بھی بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا ہے۔

جنگ مخالف صدارتی امیدوار بورس نادیزدن روسی حکام کی وجہ سے اپنا نام صدارتی امیدوار کے طور پر درج کرانے میں ناکام رہے۔

الیکسی ناوالنی کی آخری رسومات کے لیے ہزاروں افراد جمع ہوئے
Getty Images
پوتن کے نقاد الیکسی ناوالنی کی آخری رسومات کے لیے ہزاروں افراد جمع ہوئے

ووٹنگ کا طریقہ کار

صدارتی الیکشن کی تاریخ میں پہلی بار روسی شہری تین دن تک یعنی 15 سے 17 مارچ تک اپنے ووٹ کا استعمال کریں گے۔

یہ طریقہ کار پہلی بار سنہ 2020 کے الیکشن میں آزمایا گیا تھا تاکہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران لوگوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

حالیہ انتخابات کے لیے اب اس طریقہ کار کو دوبارہ اپنایا جا رہا ہے حالانکہ مبصرین تنقید کرتے ہیں کہ اس سے ووٹنگ کے عمل کی شفافیت کو یقینی بنانا پیچیدہ ہو گیا ہے۔

اس کے علاوہ پہلی بار آن لائن ووٹنگ کی سہولت بھی میسر ہو گی۔ یہ سہولت بنیادی طور ہر ان علاقوں میں دستیاب ہو گی جہاں حکام کو زیادہ ٹرن آؤٹ کے لیے خاصی محنت کرنا پڑتی ہے۔

اس الیکشن میں روس پر یوکرین کے زیر قبضہ علاقوں کو شامل کرنے پر بھی تنقید کی جا رہی ہے، جہاں سے مقامی افراد پر ووٹ ڈالنے کے لیے دباؤ کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔

ان انتخابات کے بعد کیا بدل سکتا ہے؟

روس میں رائے عامہ کا پتا لگانے کے کوئی آزاد ذرائع بھی نہیں اور زیادہ تر روسی شہری خبروں کے لیے سرکاری میڈیا کا استعمال ہی کرتے ہیں، جو پوتن اور ان کی پالیسیوں کے حق میں بہت زیادہ متعصب ہے۔

اس کے باوجود ماہرین کا ماننا ہے کہ زیادہ تر روسی شہری حکومت کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہیں لیکن وہ اس بارے میں بات کرنے سے بہت ڈرتے ہیں۔ حزب اختلاف کے لیے معمولی سی حمایت پر بھی سخت سزاؤں کے خوف سے وہ کھل کر اپنی مخالفت کا اظہار نہیں کرتے۔

الیکسی ناوالنی کی بیوہ یولیا نے اپنے ملک کے لوگوں سے ووٹنگ کا بائیکاٹ کرنے اور غیر ملکی حکومتوں سے اس الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔

اس الیکشن کا نتیجہ ممکنہ طور پر ولادیمیر پوتن کی یقینی فتح ہے، کم از کم کاغذ کی سطح پر تو لیکن اس انتخاب میں کم ٹرن آؤٹ کا مطلب یہ ہو گا کہ صدر کی حمایت کم ہو گئی ہے، جس کے نتیجے میں ریاستی کنٹرول مزید سخت ہو سکتا ہے اور روس میں خوف اور جبر کی فضا میں اضافہ ہو سکتا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.