لاہوری دوستوں کو اپنی ہیرامنڈی کا تشخص ’مسخ‘ ہونے کا قلق

نیٹ فلیکس کی ہیرا منڈی پر بیسیوں اعتراضات ہو رہے ہیں۔ پہلی بار میرے بہت سے لاہوری دوستوں کو اپنی ہیرامنڈیکا تشخص ’مسخ ‘ ہونے کا قلق بھی ہے۔ ہر طرح کی دوربین و خودردبین نکل آئی ہے۔ کچھ تبصرے تو اتنے دردناک ہیں گویا بھنسالی نے سٹیٹ بینک آف پاکستان سے دو ارب روپے کا قرضہ لے کے اس ’غیر مستند‘ فلم پر ضائع کر دیا ہو۔

آپ بھلے اتفاق کریں کہ اختلاف۔ راج کپور کے بعد اِس وقت پدم شری سنجے لیلا بھنسالی ہندی فلم انڈسٹری کا سب سے نمایاں شو مین ہے۔ ہر شے کو مبالغہ آرائی کی حد تک گرینڈ سکیل پر بنانا اِس کا شوق اور شناخت ہے۔ اس کی پہلی اور آخری ترجیح یہ ہے کہ پردے پر ہر ہر فریم کتنا پُرشکوہ لگے گا اور کون کون سے بڑے ستاروں کو جمع کر کے خالص کمرشل انٹرٹینمنٹ تخلیق کرنا ہے (میں نے انٹرٹینمنٹ لکھا ہے انفوٹینمنٹ نہیں)۔

سکرپٹ میں مکالماتی مصالحہ تیز ہونا چاہیے۔ موسیقی کا تڑکا اوسط فلم سے زیادہ ہو۔ فلمی کیک پر حسن، شاعری، تجسس، چست فقرے اور ہوش ربا کاسٹیوم کی اضافی کریم ہو تو کیا کہنے۔ پروٹین اور چکنائی سے لبالب ایسی انٹرٹینمنٹ کا مقصد زندگی سے لڑ لڑ کے تھکے ہارے ناظر کو حقائق کی چلچلاتی دھوپ سے کچھ دیر کے لیے بچا کے ایک متبادل افسانوی طلسماتی دنیا کی سیر کرانا ہے اور بس۔

اب اس کھیل میں سکہ بند حقائق اور صحتِ تاریخ کی بحث کہاں سے آ گئی؟ جس شے کا وجود ہی نہیں اس پر تنقید کیسی؟ مگر لوگ اتنے سادے اور پیارے ہیں کہ وہ کسی بھی تخلیق کا غیر مشروط لطف لینے کے بجائے اس میں وہ وہ اجزا تلاشنے میں لگ جاتے ہیں کہ جن کا کہانی سے کوئی لینا دینا نہیں اور جب یہ اجزا نہیں ملتے تو پھر البرٹ پنٹو کو غصہ آ جاتا ہے۔

اس تناظر میں سنجے لیلا بھنسالی پرانا پاپی ہے۔ جیسے سنہ 2013 میں شیکسپئر کے ڈرامے رومیو جولیٹ کو جب اسنے رام لیلا کے نام سے فلمایا تو ادھم مچ گیا کہ فلم میں تو رام جی دور دور تک نہیں ہیں تو پھر رام لیلا نام کی کیا تُک ہے؟ یہ تو دھرم کا اپمان ہے۔

دلی اور الہ آباد ہائی کورٹس نے سٹے آرڈرز جاری کر دیے۔ چنانچہ فلم کا نام بدل کر ’گولیوں کی راس لیلا رام لیلا‘ رکھنا پڑا۔ تب جاکے نمائش کی اجازت ملی اور سنہ 2013 میں سب سے زیادہ کمائی (دو سو کروڑ) کرنے والی پانچویں ہندی فلم بن گئی۔

سنہ 2015 میں مراٹھا حکمران پیشوا باجی راؤ اور مستانی کی کہانی پر پھر بقول شخصے ’بوال مچ گیا‘۔ باجی راؤ کے ورثا نے تاریخ توڑنے مروڑنے اور تخلیقی آزادی کے پردے میں مبالغہ آرائی سے کام لینے کے الزام میں ممبئی ہائی کورٹ میں پیٹیشن ڈال دی مگر عدالت نے اسے مسترد کر دیا۔ میاں بھنسالی اس فلم کے ذریعے سو کروڑ کلب کے بہترین ڈائریکٹر کا نیشنل فلم ایوارڈ جیب میں ڈال کے آگے بڑھ گئے۔

سب جدید مؤرخ جانتے ہیں کہ پدماوتی نام کی راجپوت رانی ایک افسانوی کردار ہے جسے ملک محمد جائسی نے سولہویں صدی میں رانی پدماوت کے نام سے تخلیق کیا۔ مگر کچھ راجپوتوں نے اس بے غیرتی کا قلع قمع کرنے کے لیے تلواریں نکال لیں۔

راجستھان میں شوٹنگ کے دوران سنجے لیلا بھنسالی اور ان کے فلمی یونٹ کی راجپوت کرنی سینا کے سورماؤں نے جم کے پٹائی کی۔ دو بار سیٹ کو آگ بھی لگی اور کہانی کی ہیروئن دپیکا پادوکون کے سر کی قیمت بھی لگ گئی۔ پدماوت ریلیز ہوئی تو سنہ 2018 کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی ہندی فلم بن گئی۔

جب حسین زیدی نے ’مافیا کوئین آف بمبئی‘ کتاب لکھی تو واہ واہ ہوئی۔ لیکن بھنسالی نے اس کتاب سے متاثر ہو کر سنہ 2022 میں گنگو بھائی کاٹھیاواڑی ریلیز کی تب بھی کچھ پڑھے لکھوں نے اعتراض کیا کہ یہ وہ کماٹھی پورہ ( بمبئی کا ریڈ لائٹ ایریا) تو نہیں دکھایا گیا جو کتاب میں ہے۔ پھر بھی یہ فلم گیارہ فلم فئیر ایوارڈلے مری۔

نیٹ فلیکس کی ’ہیرا منڈی‘ پر بیسیوں اعتراضات ہو رہے ہیں۔ پہلی بار میرے بہت سے لاہوری دوستوں کو اپنی ہیرامنڈی کا تشخص ’مسخ ‘ ہونے کا قلق بھی ہے۔ ہر طرح کی دوربین و خودردبین نکل آئی ہے۔ کچھ تبصرے تو اتنے دردناک ہیں گویا بھنسالی نے سٹیٹ بینک آف پاکستان سے دو ارب روپے کا قرضہ لے کے اس ’غیر مستند‘ فلم پر ضائع کر دیا ہو۔

یہ بھی پڑھیے

کچھ پیارے دوست ٹکسالی گیٹ، ٹبی گلی، شورش کاشمیری کی ’اس بازار میں‘، فوزیہ سعید کی ٹیبو: ریڈ لائیٹ ایریا داستان اور اقبال حسین کی مصور کردہ موٹی بھدی مظلوم کردارنیوں کی ٹیلی سکوپ سے نیٹ فلکس کی ہیرامنڈی دیکھ رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ’ہیرا منڈی ہوندی سی ساڈے ویہلے‘ کے نوستالجیا گذیدہکچھ ’افسردیے‘ بالا خانوں سے جھانکتی عورتوں کی پرانی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر کے ذریعے نیٹ فلیکس کی توجہاپنے تئیں ’ہمارے اصلی ورثے‘ پر مبذول کرا رہے ہیں۔ مگر جس مارکیٹ کے لیے بھنسالی نے ایک ہی فلم کو آٹھ ٹوٹوں میں تقسیم کر کے پیش کیا۔ اس مارکیٹکے لوگ ’جو ہے جہاں ہے‘ کی بنیاد پر ’انجوائز‘ لے رہے ہیں۔

ہیرا
Getty Images

قصور ہمارا بھی نہیں۔ ہمیں تاریخ افسانہ بنا کر اور افسانہ تاریخ کی پوشاک میں اتنی مقدار میں پلایا جا چکا ہے کہاصل اور نقل کو الگ الگ دیکھنا محال ہو گیا ہے۔ چنانچہ ہم کسی بھی تخلیق کا چسکا لینے سے قاصر ہوتے جا رہے ہیں۔

آج بھی بہت سے بچوں کے لیے یہ صدمے والی خبر ہے کہ سکندر اعظم مسلمان نہیں تھا۔

جس انارکلی، شہزادہ سلیم اور مہابلی کو ہم اور آپ جانتے ہیں وہ امتیاز علی تاجکے ذہن کی پیداوار ہے۔ اکبر اور شہزادہ سلیم فارسی بان تھے۔ اتنی مسجع مقفع اُردو سنتے تو تاج صاحب کے ساتھ ساتھکے آصف اور دلیپ کمار کو بھی ہاتھی کے پاؤں تلے رکھ دیتے۔ مگر ہم سنجے لیلا بھنسالی کو ایسی رعایت دینے کو ہرگز تیار نہیں اور یہ کھوجنے پر بھی تیار نہیں کہ پنجاب سول سیکرٹیریٹ کے علاقے میں موجود انار کلی کے مقبرے میں دراصل کون استراحت فرما ہے۔

اگرچہ حقیقی ہیرا منڈی میں آج آپ کو کھنڈریت و ویرانی کاٹے گی۔ عام دوکانیں، گودام، دستکاریوں کے چھوٹے چھوٹے کام گھر اور ایک آدھ طبلہ سارنگی ٹھیک کرنے والا کاریگر ملے گا۔ بادشاہی مسجد کی سمت کھلنے والے کثیر المنزلہ کھوٹھوں میں چند ریسٹورنٹ کھل گئے ہیں جو خوب بزنس کر رہے ہیں۔

اگر وہاں آج بھی کوئی ایک آدھ پھول و گجرہ فروش، تازہ نوٹوں کی گڈیاں بیچنے والا، نائیکہ، غزل اور ٹھمری کا کوئی معروف گائیک و گائیکہ، ڈھولچی، چرب زبان دلال، میوزیشن، نجیب الطرفین کنجر، اصلی نسلی مراثی اور کلاسیکل بھکاری ملے تو سنجے لیلا بھنسالی کو بھی آگاہ کر دیجیے گا۔

ہم نے خود اپنے ہاتھوں، تاریخ کے روشن دان، زمینی حقائق اور حقیقی کردار مسخ کر دیے۔ اس کے بعد تاریخ غلط پیش کی جا رہی ہے یا درست اور کون کس کہانی سے کیا کھلواڑ کر رہا ہے؟کیا فرق پڑتا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.