پی ٹی آئی کی خیبر پختونخوا حکومت وفاق سے پہلے صوبائی بجٹ پیش کر کے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟

خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت وفاق سے پہلے صوبائی بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے اور ایسے میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ یہ بجٹ کتنا قابل عمل ہو گا اور پی ٹی آئی حکومت وفاق سے پہلے بجٹ پیش کر کے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟
پاکستان
Getty Images

خیبرپختونخوا حکومت آج 1600 ارب سے زائد کا سالانہ بجٹ 25 -2024 کی پیش کرنے جا رہی ہے جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10سے 15 فیصد اضافے کی سفارش سمیت صوبے میں پراپرٹی ٹیکس شرح میں کمی اور تمباکو پر صوبائی ٹیکس لگانے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔

خیبرپختونخوا اسمبلی کی ویب سائٹ پر سالانہ بجٹ 2024-25 کے حوالے سے اسمبلی اجلاس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے جس کے مطابق اسمبلی کا خصوصی اجلاس آج سہ پہر تین بجے طلب کیا گیا ہے۔ اس سے قبل صوبائی محکمہ خزانہ نے بجٹ تجاویز اور سفارشات کی سمری وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو بھیج دی تھیں اور آج صوبائی کابینہ اجلاس سے پہلے بجٹ تجاویز کی منظوری دے گی۔

اہم بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت وفاق سے پہلے صوبائی بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے۔

عام طور پر پاکستان کی تاریخ میں وفاقی حکومت کے بجٹ پیش کیے جانے کے بعد ہی صوبائی حکومتیں اپنے اپنے بجٹ پیش کرتی رہی ہیں جس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ وفاق مختلف شعبوں سے حاصل ہونے والے ٹیکس اور محصولات سے صوبوں کو ان کے مقررہ حصے کا ایک مالی پیکج دیتا ہے۔

آئینی طور پر کسی صوبے کی جانب سے وفاق سے پہلے بجٹ پیش کرنے میں کوئی رکاوٹ یا قدغن نہیں ہے مگر ایک ایسے وقت میں جب نئے قرض پروگرام کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور اس سلسلے میں کئی اصلاحات، ٹیکس کے نظام اور شرح میں تبدیلی اور دیگر مالیاتی عوامل زیر غور ہیں، صوبائی حکومت کی جانب سے وفاق سے پہلے بجٹ پیش کرنے کے اعلان نے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔

پی ٹی آئی حکومت وفاق سے پہلے بجٹ پیش کر کے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟ ایک اور سوال یہ بھی ہے کہ یہ بجٹ کتنا قابل عمل ہو گا اور کے پی حکومت کس بنیاد پر بجٹ تیار کر کے پیش کر رہی ہے؟

بجٹ
Getty Images

’وفاق کو اعتماد میں لیے بنا بجٹ پیش کرنا مناسب نہیں، بجٹ کی ساکھ پر سوال رہے گا‘

سابق وزیر مملکت برائے خزانہ اور مسلم لیگ ن کی سابق رکن اسمبلی عائشہ غوث پاشا نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آئینی طور پر وفاق سے پہلے صوبے کے بجٹ کو پیش کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے البتہ اس کے قابل عمل ہونے پر سوال ضرور رہے گا کیونکہ ایک صوبہ اپنے جو اخراجات پورے کرتا ہے اس کا 70 سے 80 فیصد دارو مدار وفاق سے ملنے والے فنڈز پر ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی صوبے کے بجٹ میں جاری اخراجات یا ترقیاتی اخراجات کا تخمینہ بھی وفاق سے ملنے والی رقم کے بعد ہی لگایا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’جب وفاق یہ اعلان کرتی ہے کہ وہ اگلے مالی سال کے لیے کتنے وسائل استعمال کر رہی ہے اور کس صوبے کو کتنا حصہ ملے گا جس کی بنیاد پر صوبے اپنے اپنے بجٹ پیش کرتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ مناسب نہیں ہے کہ کوئی صوبہ پوری طرح وفاقی حکومت کو اعتماد میں لیے بنا بجٹ بنائے اور پیش کرے کیونکہ اس سے بجٹ کی ساکھ پر سوال ہوتا ہے کہ کیا یہ قابل عمل ہو گا یا نہیں، صوبائی حکومت کی جانب سے اعلان کردہ ٹیکس اور محصولات اکٹھے کرنے کے تخمینہ درحقیقت پورے ہوں یا نہیں۔ بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے وعدے اور سبسڈیز دی جا سکیں گی یا نہیں۔‘

اس سوال پر کہ کے پی حکومت نے وفاق سے قبل اپنا بجٹ کن بنیادوں پر تیار کیا ہو گا؟ ان کا کہنا تھا کہ ’یا تو صوبائی حکومت کو غیررسمی طور پر وفاق سے کوئی مالی ضمانتیں مل گئیں ہیں، جو میں نہیں سمجھتی اس وقت میں ممکن ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک ایسے وقت میں جب وفاقی حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ہونے جا رہا ہے تو یقیناً وفاق نے عالمی مالیاتی ادارے کو کچھ وعدے اور ضمانتیں دی ہوں گی۔ چند معاملات پر حکومت کی آئی ایم ایف کے ساتھ انڈرسٹیڈنگ ہو گئی ہو گی کیونکہ توقعات یہ ہیں کہ وفاقی حکومت کے بجٹ میں جو چیزیں طے ہوں گی ان کی بنیاد پر ہم نئے آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ بنیں گے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کے خدو خال ابھی واضح رہے ہیں تو ایسے میں ’صوبائی حکومت کی جانب سے بجٹ پیش کرنے کا اعلان غیر منطقی ہے۔‘

budget
Getty Images

’ہم نے ملک میں بجٹ کو مذاق بنا رکھا ہے‘

عائشہ غوث پاشا کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پاکستان میں بجٹ تیار کرنے کے عمل کو مذاق بنا رکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’حکومتوں کو بجٹ بناتے وقت اور پیش کرتے وقت یہ علم ہوتا ہے کہ اس میں سے بہت سے باتیں پوری ہونے والی نہیں ہیں۔‘

’یہ طریقہ کار پاکستان میں بجٹ کی ساکھ کو متاثر کرتا ہے جو درست نہیں ہے۔‘

سابق وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ ’کے پی حکومت کے ریونیو کا تقریباً 80 فیصد اسے وفاق سے ملتا ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’کے پی نے وفاق سے قبل بجٹ پیش کرنے کے لیے تیاری کرتے ہوئے شاید آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کو مدنظر رکھ کر حاصل ہونے والے ممکنہ ٹیکس ریونیو کو ذہن میں رکھ کر بجٹ تیار کیا ہو۔‘

کے پی حکومت کا کیا کہنا ہے؟

budget
Getty Images

خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نےبی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ صوبائی حکومت تقریباً 1600 ارب روپےسے زائد کا صوبائی بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے۔

وفاق سے پہلے صوبائی بجٹ پیش کرنے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’وفاق میں جن لوگوں کی حکومت ہے وہ نہ پہلے واضح تھے، نہ ہیں اور نہ ہی آئندہ ہوں گے اس لیے صوبائی حکومت ان کی طرف دیکھنے کی بجائے بجٹ پہلے پیش کر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت سے پہلے بجٹ پیش کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ صوبے کی عوام کے لیے ہمارے پاس جو ترقیاتی و عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے ہیں اور دیگر اقدامات ہیں، ان کے لیے اخراجات نہ صرف جلد از جلد مختص ہوں بلکہ جاری کیے جا سکیں۔‘

ترجمان کے پی حکومت بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ ’ہماری کوشش ہے کہ صوبائی اسمبلی جلد بجٹ پاس کر کے ہمیں ان منصوبوں کی اجازت دے تاکہ ہم رقم خرچ کر سکیں۔‘

’وفاق سے تو جھگڑا ہی فنڈز کا ہے‘

وفاق کی جانب سے ملنے والے فنڈز پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا تو وفاق سے جھگڑا ہی فنڈز کا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر گلے شکووں کی بات کریں گے تو بہت طویل فہرست ہے، اگر ہم صرف بجلی کی مد میں صوبے کو ملنے والی رقم کی بات کریں تو 1510 ارب روپے تو صرف اس مد میں وفاق کے ذمے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم وفاق کی مشکلات سے بخوبی آگاہ ہیں اور ان سے ہم اس رقم کی یکمشت ادائیگی کا مطالبہ بھی نہیں کر رہے لیکن اگر ہم اقساط کی بات بھی کریں تو وفاق ہمیں نہ ادائیگی کر رہا ہے نہ اس بارے میں بات کر رہا ہے۔‘

بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ اسی طرح قبائلی اضلاع (سابقہ فاٹا) کو ضم کرنے اور وہاں ترقیاتی کاموں کی مد میں وفاقی حکومت کی جانب سے یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ وہ صوبے سے ایک مالی پیکج دے گی۔ ’یہ وہ ہی فنڈز ہیں جو سابقہ فاٹا کے دور میں ملتے تھے لیکن وفاقی حکومت اب وہ بھی کے پی حکومت کو نہیں مل رہا۔‘

ترجمان صوبائی حکومت کا کہنا تھا کہ ’صوبے کو مالی مسائل کا سامنا ہی وفاقی حکومت کی وجہ سے ہے اور ہمیں اس حکومت سے کسی بیل آؤٹ پیکج کی توقع بھی نہیں ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دو ماہ سے زیادہ ہو گئے ہیں ہمارے صوبے میں ہماری مرضی سے چیف سیکرٹری کی تعیناتی بھی نہیں ہونے دی جا رہی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’وفاق کی جانب سے کے پی کے لیے تعصب پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس سی آئی ایف) کے آئندہ اجلاس میں بھی وزیر اعلیٰ کے پی کے کو مدعو نہیں کیا گیا ہے۔‘

بجٹ سے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے ایک عملی بجٹ پیش کرنے جا رہے ہیں۔‘

وفاق کی جانب سے ملنے والے مالی پیکج کی عدم موجودگی میں بجٹ کے تخمینے اور تیاری کے متعلق بات کرتے ہوئے ترجمان کے پی کے حکومت کا کہنا تھا صوبائی حکومت نے تمام حالات کو مدنظر رکھ کر ہی بجٹ تیار کیا ہے اور اخراجات کا تخمینہ لگا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کی تکینکی تفصیلات صوبائی مشیر خزانہ مزمل اسلم جانتے ہیں تاہم ماضی میں وفاق سے جو کچھ ملتا رہا ہے ان کو مدنظر رکھ کر نئے مالی سال کے بجٹ کو تیار کیا گیا ہے۔‘

بی بی سی نے اس بارے میں مزید جاننے کے لیے صوبائی وزیر خزانہ آفتاب عالم اور صوبائی مشیر خزانہ مزمل اسلم کے متعدد بار رابطے کی کوشش کی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

علی امین گنڈاپور
Getty Images

پی ٹی آئی حکومت کیا حاصل کرنا چاہتی ہے؟

سیاسی تجزیہ کار سلیم بخاری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کے پی کے اسمبلی میں گذشتہ چند ماہ کے دوران بہت کچھ ایسا ہوا ہے جو ماضی میں نہیں تھا۔ ’وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کو اپنے دفتر کے تقاضوں کا علم نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے ان بیورو کریٹس پر بھی ترس آ رہا ہے جنھوں نے وفاق سے پہلے بجٹ تیار کیا ہے کیونکہ جنھیں یہ ادراک ہی نہیں کہ ان کے خزانے میں کتنے پیسے ہوں گے تو کیا اور کیسا بجٹ تیار کریں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر صوبائی حکومت کے اس اقدام کو سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ ایک سیاسی حماقت ہے جس کا نہ صرف مذاق بھی اڑے گا بلکہ اس بجٹ کو کوئی مانے گا بھی نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’صوبائی حکومت کو جب تک یہ ہی علم نہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ نئے معاہدے کے لیے کیا پالیسی فیصلے لیے جائیں گے اور اس کے نتیجے میں صوبے پر کیا معاشی دباؤ آئے گا تو وہ کیسے ایک عملی بجٹ بنا سکتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ فیصلہ صوبائی حکومت کو فائدے سے زیادہ نقصان دے گا کیونکہ وہ مرکز سے علحیدہ ہو کر ایک اکائی کے طور پر کام نہیں کر سکتے لہذا اس کا نقصان حکومت کو نہیں خود پی ٹی آئی اور اس کی صوبائی حکومت کو ہو گا۔‘

’یہ پولیٹکل سٹنٹ نہیں، پولیٹکل حقیقت ہے‘

اس بارے میں بات کرتے ہوئے ترجمان خیبرپختونخوا حکومت بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ یہ کوئی ’پولیٹکل سٹنٹ نہیں بلکہ ایک پولیٹکل حقیقت ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہم کوئی کرتب نہیں کرنے جا رہے بلکہ اپنے صوبے کی عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ بجٹ کے بعد تنقید کرنے والوں کے تجزیہ بھی ماضی کی طرح بدل جائیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اپنے بجٹ میں وفاق سے آئین کے تحت ملنے والے حصے کو شامل کیا ہے اور ہم عوام کو دینے والے مالیاتی پیکج کو تکمیل تک پہنچائیں گے۔‘

خصوصی سرمایہ کاری کونسل کے اجلاس میں وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کو مدعو نہ کرنے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اس کی صرف سیاسی وجوہات ہیں اور وفاقی حکومت کی جانب سے کے پی حکومت کے لیے ایک متعصبانہ رویہ اپنایا گیا ہے اور یہ فیصلہ اس کی عکاسی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس اجلاس میں خیبرپختونخوا کی ترقی نہیں بلکہ استحصال کے فیصلے ہوں گے اور ہم اس اجلاس میں ہونے والے کسی ایسے فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گے جو ہماری نمائندگی کے بغیر کیا جائے۔ ہم کسی ڈکٹیشن کو نہیں مانیں گے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.