سحرش خان سدوزئی جن کا ’فریضہ‘ گھریلو ملازمین کے ان پڑھ بچوں کی زندگیاں بدل رہا ہے

سحرش کے کھولے گئے اس سکول، جسے انھوں نے ’فریضہ‘ کا نام دیا ہے، میں بچوں کو چوتھی جماعت تک مفت تعلیم دی جاتی ہے اور اس کے علاوہ مفت کتابیں اور کاپیاں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔
ْْٰBBC
BBC
سحرش خان سدوزئی

آج سے تقریباً آٹھ سال قبل رضیہ اور ان کے شوہر نے روزگار کی غرض سے گاؤں چھوڑ کر راولپنڈی جیسے بڑِے شہر کا رخ کیا اور جلد ہی انھیں پوش سوسائیٹوں کے گھروں میں کام بھی مل گیا۔

کام تو مل گیا لیکن ان کو ہر وقت یہی فکر رہتی کہ ’بچے پیچھے اکیلے ہیں، کچھ کر نہ لیں۔‘

رضیہ اسی وجہ سے کام پر پوری توجہ نہیں دے پاتی تھیں۔ جس گھر میں وہ کام کرتی تھیں، وہاں بچوں کو تیار ہو کر سکول جاتے دیکھ کر دعا کرتیں کہ کاش ان کے بچوں کے سکول داخلے کا بھی کوئی بندوبست ہو جائے۔

رضیہ اور ان کے شوہر کے مالی حالات ایسے نہ تھے کہ وہ اولاد کا پیٹ پالنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم کے خرچے بھی اٹھا پاتے۔

لیکن پھر ایک دن پھر ایک دن ایک خاتون ان کے دروازے پر پہنچیں اور انھیں بتایا کہ اس علاقے میں ایک سکول کھولا گیا ہے جہاں ان کے بچے مفت تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔

پہلے تو رضیہ اور ان کے شوہر کو لگا کہ ’یہ کوئی بچوں کو پکڑنے والا گروہ ہے جو شاید ان کے گردے نکالنا چاہتا ہے۔‘

جب اگلے دن انھوں نے خود سکول دیکھا تو ان کی تسلی ہوئی اور انھوں نے چاروں بچوں کو اس میں داخل کروا دیا۔

ْْٰBBC
BBC
آج جب رضیہ گاؤں جاتی ہیں اور ان کے بچے انگریزی میں باتیں کرتے ہیں تو ان کے رشتہ دار حیرت سے پوچھتے ہیں کہ ’آپ کے بچے یقینا کسی مہنگے سکول میں پڑھ رہے ہوں گے‘

رضیہ بتاتی ہیں کہ جیسے ان کی ساری پریشانیاں ختم ہو گئیں۔ جن گھروں میں وہ کام کرتی تھیں وہاں ’صاحب لوگوںکے بچوں کو دیکھ کر جو حسرتیں جنم لیتی تھیں، وہ سب پوری ہو گئیں۔‘

ان کے چاروں بچے بھی ایک بہترین سکول میں مفت تعلیم پانے لگے اور کتابوں، کاپیوں یا یونیفارم پر ان کا آج تک ایک روپیہ خرچ نہیں ہوا۔

آج جب رضیہ گاؤں جاتی ہیں اور ان کے بچے انگریزی میں باتیں کرتے ہیں تو ان کے رشتہ دار حیرت سے پوچھتے ہیں کہ ’آپ کے بچے یقینا کسی مہنگے سکول میں پڑھ رہے ہوں گے، آپ یہ کیسے افورڈ کر رہے ہیں؟‘

زکوٰۃ کے پیسوں سے ملازمہ کے بچوں کو نجی سکول میں داخل کروایا

ْْٰBBC
BBC
33 سالہ سحرش ایک سرکاری کالج میں پولیٹیکل سائنس کی استانی ہیں اور سوشل ورک ان کا شوق ہے۔

رضیہ کے گھر آنے والی وہ خاتون سحرش خان سدوزئی تھیں۔

33 سالہ سحرش ایک سرکاری کالج میں پولیٹیکل سائنس کی استانی ہیں۔ سنہ 2016 میں جب وہ امریکہ سے تعلیم حاصل کرکے پاکستان آئیں تو ایک روز گھر میں کام کرنے والی ملازمہ کے تین بچوں کو کھیلتے دیکھ کر انھوں نے پوچھا کہ ان کے بچے سکول کیوں نہیں جاتے؟

وہ بتاتی ہیں کہ ’اس خاتون کی مالی حیثیت اچھی نہیں تھی اور تعلیم اس کی ترجیحات میں بھی شامل نہیں تھی نہ اسے تعلیم کی اہمیت کا اندازہ تھا۔‘

انھی دنوں سحرش کی والدہ نے ان سے پوچھا کہ اس مرتبہ زکوٰۃ کس کو دی جائے؟

سحرش نے کہا ’امی ہم لوگوں کو زکوٰۃ ہاتھ میں کیوں پکڑا رہے ہیں؟ اس سے کسی ضرورت مند کے بچوں کو تعلیم کیوں نہیں دیتے؟‘

سحرش نے زکوٰۃ کے پیسوں سے گھر میں کام کرنے والی ملازمہ کے ان تینوں بچوں کو ایک پرائیوٹ سکول میں داخل کروایا اور ان کی تعلیم کی ذمہ داری اٹھائی۔

بہت جلد انھیں مشکلات کا اندازہ ہوا۔ ان بچوں کے پاس روزانہ سکول پہن کر جانے کے لیے صاف ستھرے یونیفارم اور چمکتے جوتوں سے لے کر پینسل، کاپیوں اور ریزر، لنچ تک کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔

’استانیوں کو بچوں کے حلیوں پر اعتراض تھا‘

ْْٰBBC
BBC
پرائیوٹ سکول میں چھوٹے بچوں کو پینسل چوری کرنے پر مار بھی پڑی جس کے بعد وہ سکول سے کترانے لگے۔

سحرش نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’پرائیوٹ سکول کی استانیوں اور انتظامیہ کو ان بچوں کے گندے، بگڑے حلیوں میں سکول آنے اور آئے روز دوسرے بچوں کی پنسل لینے پر اعتراضات تھے۔۔۔ ایک دو مرتبہ دو چھوٹے بچوں کو مار بھی پڑی جس کے بعد وہ سکول سے کترانے لگے۔‘

سحرش جب استانیوں کے رویے کی شکایت کرنے سکول گئیں تو پرنسپل نے ان سے کہا ’اگر آپ کو ہمارے طریقہ کار سے زیادہ مسئلہ ہے تو اپنا سکول کیوں نہیں کھول لیتیں۔‘

تب انھیں احساس ہوا کہ اگر وہ ان بچوں کو پڑھانا چاہتی ہیں تو انھیں خود کچھ کرنا پڑے گا۔

سحرش نے اپنی والدہ کے ساتھ مل کر ان بچوں کو اپنے گھر کے برآمدے میں پڑھانا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ بچوں کی تعداد بڑھتی گئی تو وہ ایک جاننے والی استانی کے گیراج میں منقل ہو گئیں۔

سحرش کی دوستوں نے بھی اس کام میں ان کا ساتھ دینا شروع کیا اور ان بچوں کی تعداد تین سے 17 اور پھر 40 تک پہنچ گئی۔۔۔ تب انھوں نے ایک فلیٹ کرائے پر لیا اور اس کے چار کمروں سے بچوں کو تعلیم دینا شروع کی جن کی تعداد بڑھ کر 150 ہو چکی تھی۔

فلیٹ کرائے پر لینے کے باوجود سحرش مطمئن نہیں تھیں کیونکہ جیسی معیاری تعلیم وہ بچوں کو دینا چاہتی تھیں وہ فلیٹ کے چار کمروں سے ممکن نہیں تھی۔

آج وہ ایک ایسی بلڈنگ کرایے پر حاصل کر چکی ہیں جہاں 14 کلاس روم موجود ہیں۔

’بس ہم چاہتے ہیں وہ سکول آ جائیں کسی بھی حلیے میں‘

ْْٰBBC
BBC
ان بچوں میں سے اکثریت کے ’ب‘ فارم بھی نہیں بنے ہوتے لہذا والدین انھیں سرکاری سکولوں میں بھی داخل نہیں کروا سکتے۔

واضح رہے کہ یہ سکول راولپنڈی کے ایک ایسے پسماندہ علاقے میں واقع ہے جس کے چاروں طرف پوش سوسائٹیاں آباد ہیں۔ اس علاقے کے زیادہ تر مکین ایسی خواتین اور خاندان ہیں جو جنوبی پنجاب اور خیبر پختونخوا سے روزی روٹی کی تلاش میں جڑواں شہروں کا رخ کرتے ہیں۔

خواتین آس پاس کی سوسائٹیوں کے گھروں میں گھریلو کام کاج میں ہاتھ بٹاتی ہیں جبکہ مرد عموماً ان کوٹھیوں میں کوئی چھوٹی موٹی نوکری یا مزدوری کرتے ہیں۔ بڑی عمر کی لڑکیاں ماؤں کے ساتھ کوٹھیوں کے کام میں مدد کرنے پر مجبور ہوتیں اور لڑکے کسی تندرو یا درزی یا ورکشاپ پر لگا دیے جاتے۔

ایسے بچوں میں سے اکثریت کے ’ب‘ فارم بھی نہیں بنے ہوتے لہٰذا والدین چاہیں بھی تو انھیں سرکاری سکولوں میں داخل نہیں کروا سکتے۔

یاد رہے پاکستان میں سکول نہ جانے والوں بچوں کی تعداد ڈھائی کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔

ْْٰBBC
BBC
یہ سکول راولپنڈی کے ایک ایسے پسماندہ علاقے میں واقع ہے جس کے چاروں طرف پوش سوسائٹیاں آباد ہیں۔

سحرش کے کھولے گئے اس سکول، جسے انھوں نے ’فریضہ‘ کا نام دیا ہے، میں بچوں کو چوتھی جماعت تک مفت تعلیم دی جاتی ہے اور اس کے علاوہ مفت کتابیں اور کاپیاں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اس سکول میں ’بچوں سے ایسی کوئی توقع نہیں کی جاتی کہ وہ کوئی خاص یونیفار م پہن کر سکول آئیں، بس ہم چاہتے ہیں وہ کسی بھی حلیے میں سکول آ جائیں۔‘

تاہم سحرش کے مطابق ’ان کی بچوں کی مائیں جن گھروں میں کام کرتے ہیں، وہاں سے اگر انھیں بچوں کے پرانے یونیفارم وغیرہ ملیں تو بچوں کو وہ پہن کر سکول آنے کی اجازت ہے۔‘

فریضہ سکول میں چوتھی جماعت تک بچوں کی مضبوط بنیاد بنا کر اس کے بعد انھیں سرکاری سکول میں داخل کروایا جاتا ہے۔

’بہت اچھا لگتا ہے میں بھی دوسرے بچوں کی طرح سکول جاتی ہوں‘

ْْٰBBC
BBC
آمنہ کو پڑھائی کا بہت شوق تھا مگر ان کے والدین کی اتنی حیثیت نہیں تھی کہ چار بچوں کا پیٹ پالنے کے ساتھ ساتھ انھیں کسی سکول میں بھی داخل کروا سکیں۔

اس سکول میں ہم آمنہ ارشاد سے ملے جنھوں نے اس سکول میں چوتھی جماعت تک تعلیم حاصل کی جس کے بعد سحرش نے انھیں سرکاری سکول میں داخل کروایا اور آج وہ آٹھویں جماعت کی طالبہ ہیں۔

آمنہ کے علاوہ ان کے پانچ بہن بھائی بھی اسی سکول سے پڑھے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب ان کے والدین نے روزی روٹی کمانے کے لیے اس شہر کا رخ کیا اور دونوں صبح اٹھ کر کام پر چلے جاتے تو پیچھے وہ گھر کا کام کاج کرتیں یا بہن بھائیوں کو سنبھالتیں۔

آمنہ کو پڑھائی کا بہت شوق تھا مگر ان کے والدین کی اتنی حیثیت نہیں تھی کہ چار بچوں کا پیٹ پالنے کے ساتھ ساتھ انھیں کسی سکول میں بھی داخل کروا سکیں۔

پھر سحرش ان کے گھر گئیں، آمنہ کی والدہ رضیہ نے شوہر کے ساتھ آ کر سکول دیکھا، ان کی تسلی ہوئی اور انھوں نے آمنہ سمیت دیگر بچوں کو سکول میں داخل کرا دیا۔

آمنہ بتاتی ہیں کہ انھیں بہت اچھا لگتا ہے کہ وہ بھی دوسرے بچوں کی طرح سکول جا رہی ہیں اور تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہیںاور وہ سب سیکھنے کے قابل ہیں جو دوسری سکولوں کے بچے سیکھتے ہیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ان کے والد چاہتے ہیں کہ وہ بڑی ہو کر انجینیر بنیں مگر ان کی خواہش ہے کہ وہ لوگوں کے انٹریوز لینے والی اینکر بنیں۔

’والدین کہتے تھے کہیں یہ گردے بیچنے والا گروہ تو نہیں‘

ْْٰBBC
BBC
سحرش کی محنت کی بدولت اب ان بچوں کے ماں باپ تعلیم کی اہمیت جان چکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے بچے پڑھ لکھ کر ڈاکٹر اور انجینئیربنیں۔

اس سفر میں آنے والی مشکلات کے متعلق سحرش بناتی ہیں کہ فلیٹ لینے کے بعد انھیں احساس ہوا کہ باقی بچے جو سکول نہیں آ رہے، ’ان کے ماں باپ سے بات کرکے انھیں میں کسی طرح سکول میں لانا چاہیے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ شروع شروع میں جب وہ لوگوں کے گھروں میں جاتی تھیں ’تو ماں باپ شک کرتے تھے کہ ان ماں بیٹی کا ایجنڈا کیا ہے، ان کا کیا مفاد جڑا ہوا ہے ہمارے بچوں کی تعلیم سے، انھیں لگتا تھا کہ کہیں یہ گردے بیچنے والا گروہ تو نہیں ہے۔‘

سحرش بتاتی ہیں کہ بھروسہ حاصل کرنے کے لیے انھیں بہت کام کرنا پڑا مگر آٹھ سال بعد اب وہ اس کمیونٹی میں جانی پہچانی شخصیت ہیں اور لوگ ان کی بہت عزت کرتے ہیں۔

سحرش کی محنت کی بدولت اب ان بچوں کے ماں باپ تعلیم کی اہمیت جان چکے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کے بچے پڑھ لکھ کر ڈاکٹر، انجینئیر اور بڑے افسر بنیں۔

سکول کے لیے مالی امداد کہاں سے حاصل ہوتی ہے؟

سحرش کے سکول میں 220 بچے مفت تعلیم پا رہے ہیں، سکول کی عمارت جس میں 14 کلاس رومز ، ایک ہال اور انتظامیہ کے دو کمرے ہیں، کو انھوں نے کرائے پر حاصل کر رکھا ہے۔ سکول میں 15 اساتذہ، انتظامیہ کے دو افراد کے علاوہ ایک مددگار خاتون اور سکیورٹی گارڈ بھی ہیں۔

اس سکول میں کسی بھی اچھے سکول جیسی تمام سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہے۔

تو عملے کی تنخواہوں اور سکول کو چلانے کے لیے پیسے کہاں سے آتے ہیں؟ سحرش بتاتی ہیں کہ انھوں نے یہ سکول اپنے گھر کی زکاتہ سے شروع کیا تھا، آہستہ آہستہ ان کے دوست احباب اور دوستوں کے دوست اس میں شامل ہوتے گئے۔ وہ کہتی ہیں ’اس سکول کے پیچھے کوئی بڑی ڈونر ایجنسی نہیں ہے، عام لوگ ہیں جنھیں لگتا ہے کہ ہم اچھا کام کر رہے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ جڑ رہے ہیں۔‘

سحرش کے مطابق یہ سکول اب تک لوگوں کی دی گئی سالانہ یا ماہوار زکوٰۃ کی بنیاد پر ہی چل رہا ہے۔

’ان بچوں کے بچپن کی کوئی حسرت ایسی نہ ہو جو پوری نہ ہو سکے‘

bbc
BBC
سحرش کہتی ہیں ’آٹھ سال بعد مجھے احساس ہوا ہے کہ آپ صرف بچوں کو تعلیم دے کر اپنا فرض پورا نہیں کر سکتے، جب تک ماں باپ کوسمجھ نہیں آئے گی کہ ان کے بچے سکول میں کیا کر رہے ہیں، تب تک تبدیلی ممکن نہیں ہے‘

یہ سکول سحرش کا ’پیشن پراجیکٹ‘ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں کالج میں پڑھانے کے بعد یہاں آتی ہوں تو بچوں سے مل کر مجھے لگتا ہے کہ زندگی کا مقصد پورا ہو گیا ہے۔‘

مستقبل میں ان کی خواہش ہے کہ سرکاری سکول میں داخلے سے قبل وہ اس سکول میں لڑکیوں کو آٹھویں جماعت جبکہ لڑکوں کو پانچویں تک تعلیم دے سکیں اور ان کے لیے ایک کمپیوٹر لیبارٹری بنوا کر انھیں کمپیوٹر کی بنیادی تعلیم دیں۔

وہ چاہتی ہیں کہ ’ان بچوں کے بچپن کی کوئی حسرت ایسی نہ ہو جو پوری نہ ہو سکے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’آٹھ سال بعد مجھے احساس ہوا ہے کہ آپ صرف بچوں کو تعلیم دے کر اپنا فرض پورا نہیں کر سکتے، جب تک ماں باپ کوسمجھ نہیں آئے گی کہ ان کے بچے سکول میں کیا کر رہے ہیں، تب تک معاشرے میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.