حواس صرف پانچ ہیں یا اس سے زیادہ۔۔۔ ہم اس بارے میں کسی نتیجے پر کیوں نہیں پہنچ سکے؟

حواس خمسہ کے علاوہ جو دیگر حواس کی یہاں بات کی گئی ہے اس کا استعمال ہم روز ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ جیسے کہ رنگوں کو پہچاننے کی قابلیت رکھنا، کسی شہہ کی خواہش رکھنا یا اپنے زمین پر بیٹھتے یا کھڑے ہوتے وقت اپنے جسم کا توازن برقرار رکھنا۔
florist
Getty Images

کتنی عجیب بات ہے کہ صدیوں قبل سوچے گئے قدیم خیالات آج بھی ہمارے دماغوں میں اٹکے ہوئے ہیں لیکن اتنا وقت گزرنے کے باوجود بھی ہمارے ذہن ان خیالات پر سوال نہیں اٹھاتے۔

اس کی ایک مثال یہ ہے کہ 2300 برس قبل ارسطو نے دنیا کو یہ بتایا تھا کہ ہمیں صرف پانچ حواس (حواسِ خمسہ) ملے ہیں اور ارسطو کے یہ خیالات آج بھی سکولوں میں بچوں کو پڑھائے جاتے ہیں۔

لیکن سائنس میں آنے والی جدت کے سبب اب ہمارے پاس یہ موقع موجود ہے کہ ہم ان پیچیدہ معاملات کو سمجھنے کے لیے دوبارہ تحقیق کریں۔ آج سائنسدان کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس پانچ سے زیادہ حواس موجود ہیں۔

اس حوالے سے برطانوی سائنسدان جیکی ہگنز نے ایک کتاب بھی لکھی ہے جس کا نام what animals reveal' about our senses' ہے۔

جیکی نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے زوولوجی میں تعلیم حاصل کی ہے اور وہاں وہ معروف بائیولوجسٹ اور لکھاری رچرڈ ڈاکنز کی شاگردہ تھیں۔ اس کے بعد انھوں نے بطور لکھاری اور ڈائریکٹر کئی ڈاکیومینٹریاں بنائیں جو کہ بی بی سی، نیشنل جیوگرافک اور ڈسکوری سمیت متعدد چینلز پر نشر ہوئیں۔

سنہ 2021 میں اپنی ایک انگریزی کتاب میں جیکی نے کہا تھا کہ انسانوں کے پاس دراصل 12 حواس ہیں۔ ان کی کتاب کے مطابق یہ 12 حواس ہمیں دیکھنے، سننے، سونگھنے، چکھنے، چھونے، رنگوں کو پہچاننے، دکھ اور سکھ محسوس کرنے، خواہش کو جنم دینے، توازن برقرار رکھنے، کسی کو مخاطب کرنے اور اپنے جسم کو محسوس کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

حواس خمسہ کے علاوہ جو دیگر حواس کی یہاں بات کی گئی ہے اس کا استعمال ہم روز ہی کر رہے ہوتے ہیں۔ جیسے کہ رنگوں کو پہچاننے کی قابلیت رکھنا، کسی شے کی خواہش رکھنا یا اپنے زمین پر بیٹھتے یا کھڑے ہوتے وقت اپنے جسم کا توازن برقرار رکھنا۔

تاہم دیگر ماہرین کا جیکی ک طرف سے بیان کیے گئے حواس پر اتفاق نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم 30 سے زیادہ حواس رکھتے ہیں۔

جیکی نے بی بی سی برازیل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’میں یہ خیال آگے بڑھانا چاہتی تھی کہ ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جہاں ہمیں بہت سی علامات نظر آتی ہیں، لیکن ہم صرف وہیں چیزیں سمجھ سکتے ہیں جنھِیں سمجھنے کی صلاحیت ہمارے حواس رکھتے ہیں۔‘

آپ نے حواسوں کے بارے میں کتاب لکھنے کا فیصلہ کیوں کیا؟

اس سوال کے بہت سے جوابات ہیں۔ اس کتاب کے شروع میں لیونارڈو ڈا ونچی کا ایک قول ہے جو کہ مجھے انتہائی دلچسپ لگتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کچھ ایسی چیزیں بھی دیکھ لیتے ہیں جو ہم دیکھ نہیں سکتے، ہم سُنے بغیر بھی چیزیں سُن لیتے ہیں، ہم کچھ چھوئے بغیر بھی کچھ چیزوں کو محسوس کر لیتے ہیں۔

لیونارڈو کے یہ خیالات ان کے دماغ میں بس گئے تھے۔

ان خیالات میں کچھ ایسا ہے جو کہ آپ کو مزید سوچنے پر مجبور کرتا ہے جیسے کہ آپ کا جسم کیسے اپنا توازن برقرار رکھتا ہے وہ بھی اس وقت جب آپ بیٹھ رہے ہوتے ہیں۔

میرے استاد رچرڈ ڈاکنز اور لیونارڈو کی کہی جانے والی باتوں نے مجھے آئیڈیا دیا کہ ہم دنیا پر توجہ دیے بنا بھی اسے دیکھ سکتے ہیں۔ اور میں ان تمام سوالات کے جوابات حاصل کرنا چاہتی ہوں۔

اپنے کریئر کے دوران میں نے ہمیشہ ان حواسوں پر توجہ دینے کی کوشش کی۔ میں ایک ڈاکیومینٹری پروڈیوسر تھی، جسے تمام چیزیں دیکھنے کا شوق تھا۔ جب میں جنگلی حیات پر فلمیں بنا رہی ہوتی تھی تو ہمیشہ متجسّس رہتی تھی کہ ان جانوروں کی دنیا کیسی ہو گی؟

ایک مرتبہ ہم آکسفورڈ سائنٹفک فلمز کے لیے کام کر رہے تھے جہاں ہمیں نیشنل جیوگرافک کے لیے ایک ڈاکیومینٹری بنانی تھی اور اسی دوران ہمیں ایک شہد کی مکھی کے ڈنک کی ویڈیو بنانی تھی۔ ہمیں اس شہد کی مکھی کی تصویر انتہائی قریب سے لینی تھی اور اس سلسلے میں میں نے ان مکھیوں کا ایک فارم بنا لیا، یہ سمجھنے کے لیے کہ آخر یہ مکھیاں دنیا کو کس طرح دیکھتی ہیں۔

حس
Getty Images

رچرڈ ڈاکنز کی شاگردہ ہونا کیسا لگتا ہے؟

یہ میرے لیے ایک اعزاز کی بات تھی۔ میں نے آکسفورڈ بُک سٹور میں نے ان کا انٹرویو کرنا تھا۔

اس انٹرویو سے قبل میری ان سے بات چیت بھی ہوئی۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ ہر برس تین سے چار طلبہ کا انتخاب کرتے ہیں تاکہ انھیں جانوروں کے برتاؤ میں آنے والی تبدیلی کے حوالے سے تعلیم دے سکوں۔

میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ایسا کتنے برس سے کر رہے ہیں؟ رچرڈ ڈاکنز نے مجھے بتایا کہ وہ ایسا 30 برس سے کر رہے ہیں۔

اس بات سے مجھے اندازہ ہوا کہ میں کتنی خوش نصیب ہوں کہ میں اس چھوٹے سے گروپ کا حصہ ہوں جو رچرڈ ڈاکنز کے قریب رہے ہیں۔ ان میں سے اکثریت ایسی ہے جو کہ زوولوجی کی دنیا میں بلند مقام رکھتی ہے۔

آپ نے اپنی کتاب میں کیوں لکھا کہ ہمارے پاس پانچ سے زیادہ حواس ہیں؟

حواسِ خمسہ کے حوالے سے جو خیالات موجود ہیں وہ 350 قبلِ مسیح میں سوچے گئے تھے اور ہم سب اتفاق کرتے ہیں کہ یہ دلچسپ معاملے ہے اور اسے سمجھنا بھی آسان ہے۔

لیکن یہاں یہ سوال ہے کہ حواسِ خمسہ کی موجودگی کا خیال ہمارے لیے اتنی کشش کیوں رکھتا ہے؟ میرے بچے ہیں اور مجھے یاد ہے کہ جب وہ چھوٹے تھے تو ان کے پاس ’مسٹر پوٹاٹو‘ نامی ایک کھلونا تھا، جس کے منہ پر وہ آنکھیں، ناک اور کان چسپاں کیا کرتے تھے۔

اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حواسِ خمسہ کو سمجھنا ایک آسان کام ہے اور اس سے زیادہ ہم سوچتے ہی نہیں۔

حواسِ خمسہ کی حقیقت کیا ہے؟

ہمیں یہ بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہیے کہ حواسِ خمسہ سے منسلک خیالات غیر حقیقی ہیں۔ ماہرین اتفاق کرتے ہیں کہ ہمارے حواس صرف ہمارے جسمانی اعضا سے ہی منسلک نہیں۔

آپ نے اپنی کتاب میں 12 حواسوں کی فہرست کیسے مرتب کی؟

مجھے یہ سب کرنے میں بہت مزہ آیا۔ جب آپ ایک ڈاکومینٹری بنا رہے ہوتے ہیں یا کوئی کتاب لکھ رہے ہوتے ہیں تو آپ تمام معلومات اور خیالات کو اکٹھا کر کے ایک کہانی بنانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔

دنیا میں کچھ چیزوں پر کہیں بھی اتفاق نہیں پایا جاتا اور اسی بات نے مجھے ہمت دی کہ میں ایک کتاب مرتب کروں۔ شروع میں میرے پاس صرف ایک رپورٹ تھی جو ایک جریدے نے چھاپی تھی۔

اس جریدے میں حواسوں کی تعداد 10 بتائی گئی تھی، لیکن دیگر سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ان کی کُل تعداد 33 بنتی ہے۔

میری کتاب میں اس موضوع سے متعلق تمام چیزوں کو میرے ذاتی تجربات کی بنیاد پر نئی تعریفیں دی گئی ہیں۔

مثال کے طور پر ارسطو نے ہمارے حواس کو پانچ گروپس میں تقسیم کیا تھا۔ لیکن اگر آپ صرف بینائی کی بات کریں تو ہماری آنکھیں دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ جس سے ہم دنیا دیکھتے ہیں اور دوسرا وہ جو ہمیں مناظر کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

آپ کی تحقیق کے دوران کون سے حواس آپ کو زیادہ دلچسپ لگے؟

تمام ہی چیزیں دلچسپ ہیں، میں نے پہلے ہی بتایا تھا کہ میں چیزوں کو محسوس کرنے والی حِس سے زیادہ قریب ہوں۔ یہ سمجھنا کہ یہ حِس کام کیسے کرتی ہے انتہائی دلچسپ ہے اور یہی جدید سائنس کی سب سے بڑی بنیاد ہے۔

سائنسدان ابھی بھی یہی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جب ہم کسی کو چھوتے ہیں تو اس کے سبب ہم میں دیگر احساسات کیسے جنم لیتے ہیں۔ اس کے لیے علاوہ میری کتاب کورونا وائرس کے سبب لگنے والے لاک ڈاون کے دوران چھپی تھی۔

یہ وہ وقت تھا جب لوگ دوسرے کو یا چیزوں کو چھو کر بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.