پلاسٹک کی وہ ’کینڈی‘ جس کے بغیر کوئی یوکرینی فوجی محاذ پر جانے کے لیے تیار نہیں

اگر آپ کسی بھی یوکرینی فوجی سے پوچھیں کہ محاذ پر جانے سے پہلے اسے کیا چاہیے تو یقیناً اس کا جواب ہو گا: کینڈی۔ لیکن کینڈی سے یہاں مراد کوئی ٹافی یا مٹھائی نہیں بلکہ یہ پلاسٹک کے ایک چھوٹے سے ڈبے کا نام ہے جو باآسانی ایک ہاتھ میں آجاتا ہے۔ اس میں ایک سکرین اور اینٹینا لگا ہوتا ہے۔
کینڈی ایک پلاسٹک کا ایک چھوٹا سا ڈبہ جس میں ایک سکرین اور اینٹینا لگا ہوتا ہے
BBC

اگر آپ کسی بھی یوکرینی فوجی سے پوچھیں کہ محاذ پر جانے سے پہلے اسے کیا چاہیے تو یقیناً اس کا جواب ہو گا ’کینڈی‘۔

لیکن کینڈی سے یہاں مراد کوئی ٹافی یا مٹھائی نہیں بلکہ یہ پلاسٹک کے ایک چھوٹے سے ڈبے کا نام ہے جو باآسانی ایک ہاتھ میں آجاتا ہے۔ اس میں ایک سکرین اور اینٹینا لگا ہوتا ہے۔

اس سادہ اور سستے سے آلے کا نام بے شک مضحکہ خیز لگتا ہے لیکن اس کی کارکردگی نے یوکرین کی فوج میں ہلچل مچا دی ہے اور یوکرینی سپاہی محاذ پر جانے سے پہلے ہر قیمت پر اسے خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہم بات کر رہے ہیں یوکرینی ڈرون ڈیٹیکٹر کی۔

بغیر پائلٹ کے چھوٹے جہازوں (یو اے ویز) کے لیے مختص خصوصی سوشل نیٹ ورکس پر آپ ہر روز سینکڑوں یوکریی سپاہیوں کی درخواستیں دیکھ سکتے ہیں جہاں وہ پوچھ رہے ہیں کہ ’کینڈی‘ کہاں سے خرید سکتے ہیں۔ یوکرینی زبان میں اس کا نام سکوروک (Tsukorok) ہے۔

روس کی جانب سے یوکرین کی سرزمین کے اندر جاسوس ڈرونز کا استعمال اس ڈیوائس کی اہمیت کو دن بدن مزید بڑھا رہا ہے۔ روس ڈرونز کو اہم اہداف جیسے ہوائی جہاز، فضائی دفاعی نظام اور انھیں بیلسٹک میزائلوں کی نشاندہی اور نشانہ بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

ایسے حالات میں یوکرین کی مسلح افواج کے سپاہیوں کے لیے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ان کے اوپر جو اڑ رہا کہیں وہ روسی ڈرون تو نہیں۔

ڈرون ڈیٹیکٹرز کا مقصد کیا ہے؟

اگلے مورچوں پر ایک آسان ڈرون ڈیٹیکٹر زندگی اور موت کے بیچ کا فرق ہے۔

یہ آلہ کسی بھی ڈرون کی موجودگی کی اطلاع دے سکتا ہے اور فوج کو اپنی پوزیشن تبدیل کرنے یا ڈرون کے نشانے پر موجود گاڑی میں بیٹھے افراد کو فوراً باہر نکلنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

نکولائی کولیسنک یوکرینی فوج کے بغیر پائلٹ کے نظام کی بٹالین کے کمانڈر ہیں۔ وہ خود بھی ایسی ہی ایک صورتحال شکار ہو چکے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنے عملے کے ہمراہ اگلے مورچوں سے سات کلومیٹر دور تھے جب گاڑی میں رکھی کینڈی نے سگنل دینا شروع کر دیا۔

کولیسنک کہتے ہیں کہ روسی لینسیٹ ڈرون کے گاڑی سے ٹکرانے سے محض چند سیکنڈ پہلے وہ اپنی کار سے باہر کودنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے فوراً بعد ایک اور ڈرون آکر ٹکرایا۔ ’اس حملے نے ہمیں تھوڑا ہلا کر رکھ دیا تھا مگراہم بات یہ ہے کہ ہم زندہ بچ گئے تھے۔‘

ان کے مطابق اس قسم کا آلہ ہر سپاہی کے پاس اور ہر گاڑی میں ہونا چاہیے کیونکہ یہ واقعی زندگیاں بچاتا ہے۔

فوجی ریڈیو ٹیکنالوجی کے شعبے کے ماہر اور مشیر سرگئی بیسکرسٹنوف کہتے ہیں کہ ’کینڈی‘ کوئی مثالی آلہ نہیں لیکن یوکرین کی فوج کے لیے یہ ایک سادہ اور سستا حل ہے۔

بی بی سی یوکرین سروس سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ فوج کو ڈرون ڈیٹیکٹر فراہم کرنے کا معاملہ کافی عرصے سے زیر التوا ہے اور روسی ڈرون اب تواتر سے یوکرین کی مسلح افواج کے تعاقب میں سرحد کے کافی اندر تک داخل ہونے لگے ہیں۔

’اگر ہمیں ’ونگ‘ (ہوائی جہاز کی طرز کا ڈرون) کافی دیر ہمارے اوپر منڈلاتا دکھے تو ہمیں حملے کی توقع کرنی چاہیے۔ اسی طرح روس نے پیٹریاٹ لانچر پر حملہ کیا، اور ٹھیک اسی طرح زاپوروزے کے ایک گاؤں میں ہیلی کاپٹروں اور 128ویں بریگیڈ کے سپاہیوں پر بھی حملہ کیا تھا۔‘

اگر ان سپاہیوں کے پاس ’کینڈی‘ کی طرز کے آلے ہوتے تو ان سانحات سے بچا جا سکتا تھا۔

بیسکرسٹنوف کے مطابق اگر کوئی جاسوس ڈرون دکھائی دے تو اس صورت میں کیا کرنا چاہیے، اس کے لیے ایک باقاعدہ فریمورک ہے۔

مثال کے طور پر، اگر اگلے مورچوں پر کسی پیدل سپاہی کو ڈرون دکھائی دے تو اسے فوراً حرکت بند کردینی چاہیے۔ اس کے برعکس فوجی سازوسامان لے جانے والی گاڑی کے ڈرائیور کو اپنی رفتار تیز کر دینی چاہیے تاکہ میزائل اسے نشانہ نہ بنا سکے۔

اس ہی طرح اگر آلہ لانسیٹ ڈرون کی موجود کا اشارہ کرتا ہے تو فوجیوں کو چاہیے کہ اپنی گاڑی چھوڑ کر بھاگ جائیں۔ اور اگر کوئی چھوٹا ڈرون دکھے تو سپاہی کو چاہیے کہ وہ یا تو چھپ جائے یا ڈرون کو مار گرانے کی کوشش کرے۔

بیسکرسٹنوف کا خیال ہے کہ پیچیدہ سپیکٹرم مانیٹر عام سپاہیوں کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ ان کو ’کینڈی‘ جیسے کسی سادہ آلے کی ضرورت ہے جو دشمن کے ڈرون کے قریب آنے پر بجنے لگے۔

’سپاہی ایک آسان آپشن چاہتے ہیں: اگر وہ بجتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کوئی خطرہ ہے، اگر نہیں بجتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔‘

اس آلے کا نام اتنا عجیب کیوں ہے؟

’کینڈی‘ کے موجد دمیتری سیلن ایک یوکرینی پروگرامر ہیں جو طویل عرصے سے لندن میں مقیم ہیں۔

جنگی سازوسامان کی دنیا میں ڈرون ڈیٹیکٹر ایک عام چیز سمجھی جاتی ہے۔ عام طور پر یہ ایک بڑا اور مہنگا سپیکٹرومیٹر ہوتا ہے جو فریکوئنسی کا تجزیہ کرکے ڈرون کی موجودگی کا پتا لگاتا ہے۔ تاہم ایک عام فوجی کے لیے اس کو جنگی حالات میں استعمال کرنا آسان کام نہیں ہے۔

دمیتری سیلن کہتے ہیں کہ ڈرون ڈیٹیکٹر سادہ اور سستے آلے کی صورت میں ہونا چاہیے جو ہر سپاہی اپنے ساتھ رکھ سکے اور باآسانی استعمال کر سکے۔ ’کینڈی‘ کا پہلا پروٹو ٹائپ 2022 میں بنایا گیا تھا۔

سیلن کہتے ہیں کہ انھوں نے بے ساختہ اس کا نام ’کینڈی‘ رکھ دیا۔ ’پہلے پروٹوٹائپ کے لیے میں کسی سادے سے ڈبے کی تلاش میں تھا۔ مجھے جو سب سے موزوں چیز دکھی وہ پلاسٹک کا چینی کا ڈبہ تھا۔‘

اسی چیز سے اس ڈیوائس کے نام نے جنم لیا۔

سیلن کا کہنا ہے کہ ڈیٹیکٹر بہت جلد ہی یوکرینی فوجیوں میں مقبول ہو گیا اور اس کے بڑے پیمانے پر آرڈر آنے لگے۔

’کینڈی‘ کی سب سے بڑی خوبی اس کا سادہ اور کم قیمت ہونا ہے۔ ابھی ڈرون ڈیٹیکٹر کی قیمت 2400 ریونیا ہے جو محض 60 ڈالر بنتی ہے۔

’کینڈی‘ کام کیسے کرتا ہے؟

’کینڈی‘ کا کام کرنے کا طریقہ کار بہت آسان ہے۔ ہر ڈرون اور آپریٹر کنسول کا ریڈیو کی لہروں کے ذریعے رابطہ ہوتا ہے۔ ریموٹ کنٹرول کے ذریعے ڈرون کو ہدایت ملتی ہے کہ اس نے کس سمت میں جانا ہے جب کہ وہ اپنے آپریٹر کو ویڈیو اور ٹیلی میٹری سگنلز کے ذریعے ڈرون کی حالت کے بارے میں معلومات فراہم کرتا ہے۔

دمیتری کے مطابق ویڈیو اور ٹیلی میٹری دونوں سٹریمز یا ان میں سے کم از کم ایک پکڑا جا سکتا ہے کیونکہ یہ سگنل تمام سمتوں میں خارج ہوتا ہے۔

’لہذا ہم وہی رسیور استعمال کرتے ہیں جو آپریٹر کے کنسول پر ہوتا ہے اور اگر ہم سگنل کے پیرامیٹرز کو صحیح طریقے سے منتخب کرتے ہیں تو ہم اسے باآسانی پکڑ سکتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ سگنل پیرامیٹرز صرف فریکوئنسی پر مشتمل نہیں ہوتے بلکہ ان میں تین مزید اشارے بھی شامل ہوتے ہیں ’ان پیرامیٹرز کی بنیاد پر ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ یہ کس قسم کا ڈرون ہے۔‘

یوکرینی فوج کے پاس موجود منفرد پیرامیٹرز کے معلومات کی بنیاد وہ پتہ لگانے میں کامیاب رہتے ہیں آنے والا روسی ڈرون اورلان، ایلرون، زالا اور سپر کیم جیسے جاسوس ڈرون ہیں۔ اس ڈیٹابیس کی بنیاد پر ڈیٹیکٹر لانسیٹ کامیکاز ڈرون اور چھوٹے چینی ماویکس کے درمیان بھی فرق کر پاتا ہے۔

سیلن اعتراف کرتے ہیں کہ انک ے ڈیٹیکٹر کو ایف پی وی ڈرونز کی شناخت کرنے میں مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔

’کینڈی‘ ان ڈرونز کا واضح طور پر پتا نہیں لگا پاتا۔ اس کے علاوہ، ایک اور مسئلہ جو درپیش ہے وہ یہ ہے کہ اب ایسے تمام فرسٹ پرسن ڈرونز لوئر فریکوئنسی پر منتقل ہو رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کو موجودگی کا پتا لگانے کے لیے ایک خاص اینٹینا کی ضرورت ہو گی۔

سیلن مزید کہتے ہیں کہ تجربہ کار ڈرون آپریٹرز اپنے ہدف کے قریب پہنچنے پر ٹیلی میٹری سگنل بند کر دیتے ہیں جس کی وجہ سے ڈیٹیکٹر اس کی موجودگی کا پتا نہیں لگا پاتا۔

تاہم سیلن کہتے ہیں کہ یوکرینی انجینئرز نے ان رکاوٹوں کے حل کے لیے کام شروع کر دیا ہے۔

دیمتری سیلن اعتراف کرتے ہیں کہ ان کی ایجاد مثالی نہیں ہے۔

لیکن کیا ان کو واقعی لگتا ہے کہ ان کی ایجاد ہر سپاہی کی جیب میں ہونا چاہیے؟

وہ کہتے ہیں ’ہر کسی کو پاکٹ سائز کا آل ان ون ڈیٹیکٹر چاہیے۔‘

’آپ گھوڑے اور کار کی مثال استعمال کر سکتے ہیں۔ ابھی ’کینڈی‘ ایک ’گھوڑا‘ ہے لیکن سب کے لیے بہتر ہے کہ یہ ایک ’گاڑی‘ میں بدل جائے۔‘

’کینڈی‘ کو ’گاڑی‘ بنانے کے لیے مزید دو اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے اس کے بعد یہ کسی بھی چیلنج کا جواب دینے کے قابل ہو گا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.