’مگر ٹرافی کے لیے صرف اچھا سکواڈ کافی نہیں‘

اب کی بار اگر پاکستان پر کوئی ایسا کڑا مرحلہ آ گیا تو سوال یہی ہو گا کہ سرپرائز فیکٹر کون ثابت ہو سکے گا۔ اس بیٹنگ آرڈر میں کئی ایسے باصلاحیت نوجوان ہیں جو اپنے بل بوتے پر میچ جیت سکتے ہیں مگر عین موقع پر ابھرنے کے لیے کپتان اور مینیجمنٹ کی وہ تائید بھی لازمی ہے جو کسی بھی کھلاڑی کا حوصلہ بڑھا سکے۔
babar
Getty Images

انگلینڈ کے خلاف پہلا ٹی ٹونٹی میچ بارش میں بہہ جانے کی وجہ سے پاکستان کو اپنے سکواڈ کا اعلان کرنے میں کچھ دیر تو ہوئی مگر پھر بھی آئی سی سی کی طے کردہ ڈیڈ لائن سے ایک دن پہلے پی سی بی اپنے پندرہ رکنی سکواڈ کا فیصلہ کرنے میں کامیاب رہا۔

بابر اعظم سے جب پوچھا گیا کہ انھوں نے پاکستان کی قیادت چھوڑنے کے بعد پھر سے واپس کیوں لی تو ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے وہ ورلڈ کپ کے سیمی فائنل اور فائنل کھیل چکے تھے اور اس بار وہ اپنی قیادت میں ٹیم کو ورلڈ ٹرافی جتوانا چاہتے ہیں۔

سو، جس پندرہ رکنی ورلڈ کپ سکواڈ کا اعلان پی سی بی نے کیا ہے، وہ یقیناً ورلڈ کپ جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ اس میں نہ صرف تمام ضروری گوشے پُر کئے گئے ہیں بلکہ یہ تجربے اور صلاحیت سے بھی بھرپور ہے۔

پاکستان کو پانچ پیسرز کی خدمات میسر ہیں۔ شاہین آفریدی، نسیم شاہ اور حارث رؤف حالیہ سالوں میں اپنی حیثیت واضح کر چکے ہیں۔ اب محمد عامر کی شکل میں پاکستان کو ایک ایسا تجربہ کار کھلاڑی بھی میسر ہے جو اس سے پہلے ورلڈ ٹی ٹونٹی 2009 اور چیمپئینز ٹرافی 2017 کی فاتح پاکستانی ٹیموں کا ایک اہم رکن رہا ہے۔

عباس آفریدی کی شکل میں پاکستان کو ایک ایسا نوجوان پیسر بھی دستیاب ہے جو اپنے چچا عمر گل کی طرح ورائٹی اور پیس کے بدلاؤ میں وہ مہارت رکھتے ہیں جو ٹی ٹونٹی کرکٹ کے انٹرنیشنل لیول پر کسی اچھے پیسر کا اثاثہ ہو سکتی ہیں۔

گو، کہنے کو اس سکواڈ میں محض ایک باقاعدہ سپنر ابرار احمد شامل کئے گئے ہیں مگر آل راؤنڈرز کی شکل میں عماد وسیم اور شاداب خان کا تجربہ بھی شامل کیا گیا ہے۔ اور افتخار احمد و صائم ایوب کی پارٹ ٹائم سپن کی بدولت بابر اعظم کو اب چار سپنرز بھی دستیاب ہیں۔

پاکستان کا مرکزی بیٹنگ یونٹ لگ بھگ وہی ہے جو پچھلے ٹی ٹونٹی ورلڈ ایونٹ میں اس کی نمائندگی کر رہا تھا۔ مگر اس بار محمد حارث کو شامل نہیں کیا گیا جو پچھلی بار پاکستان کی دم توڑتی ورلڈ کپ کمپین کے ایکس فیکٹر ثابت ہوئے تھے۔

عثمان خان نے پی سی بی کی یقین دہانی پر جو اماراتی کرکٹ بورڈ سے اپنا معاہدہ منسوخ کیا تھا، بارآور رہا کہ اب وہ ورلڈ کپ میں پاکستان کی نمائندگی کا خواب پورا کرنے کے قریب ہیں۔ اگرچہ فرنچائز کرکٹ سے انٹرنیشنل لیول تک پیش رفت کسی بھی کھلاڑی کے لیے آسان نہیں ہوتی اور عثمان خان کے لیے بھی یہ ٹرانزیشن ایک چیلنج رہی ہے مگر وہ امید رکھیں گے کہ ورلڈ کپ میں دوسری ٹیموں کے لیے چیلنج بن کر دکھائیں۔

shaheen
Getty Images

دشواری مگر صرف یہ ہے کہ پاکستان نے پیس سے بھاری سکواڈ جن کنڈیشنز کے لیے منتخب کیا ہے، یہ ویسی کنڈیشنز نہیں ہیں جو پچھلے ورلڈ کپ پر آسٹریلیا میں تھیں۔ یہاں گروپ سٹیج کے کافی میچز امریکی سر زمین پر بھی کھیلے جائیں گے اور یہ کنڈیشنز دیگر ٹیموں کی طرح پاکستان کے لیے بھی اجنبی ہوں گی۔

پچھلے ورلڈ کپ میں یہ واضح تھا کہ جو ٹیمیں پیس بولنگ میں برتری رکھتی ہیں، ان کے جیتنے کے امکانات بھی زیادہ تھے مگر امریکی کنڈیشنز کے بارے ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہاں پیسرز کو زیادہ مدد ملے گی یا سپنرز فیصلہ کن ثابت ہوں گے۔

بنگلہ دیش اور امریکہ کی حالیہ سیریز کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ ورلڈ کپ بیٹنگ میں شاید بڑے مجموعے پیدا نہیں کرے گا اور بولرز کی زندگی ویسی مشکل نہیں ہو گی جیسی حالیہ آئی پی ایل سیزن میں رہی ہے۔

عموماً جب پچز ایسی ہوں تو نہ صرف سپنرز کے لیے مددگار ہوا کرتی ہیں بلکہ ڈیتھ اوورز میں جب گیند ہلکی سی پرانی ہو تو پیسرز کو کچھ نہ کچھ ریورس سوئنگ بھی مل جاتی ہے۔ اگر یہاں بھی معاملہ ایسا رہا تو پاکستان کے امکانات بڑھ سکتے ہیں کہ پاکستانی پیسرز بہرحال ریورس سوئنگ میں مہارت رکھتے ہیں۔

لیکن سکواڈ کی قوت سے قطع نظر پاکستان کے امکانات کا سارا انحصار بہترین حتمی الیون کی تشکیل اور بابر اعظم کی سٹریٹیجی پر ہو گا کہ وہ پریشر میچز میں لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال کے دوران اپنے چھوٹے چھوٹے فیصلوں میں کس قدر پختگی دکھا پاتے ہیں۔

پچھلے ورلڈ کپ میں جب پاکستان کی کمپین اتنی ڈھیلی پڑ گئی تھی کہ سیمی فائنل تک رسائی کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا تو وہاں محمد حارث پاکستان کا سرپرائز فیکٹر بن کر ابھرے تھے اور ٹورنامنٹ سے باہر ہونے کے خطرے سے دوچار ٹیم یوں دھاڑ کر واپس آئی تھی کہ فائنل تک پہنچ گئی۔

اب کی بار اگر پاکستان پر کوئی ایسا کڑا مرحلہ آ گیا تو سوال یہی ہو گا کہ سرپرائز فیکٹر کون ثابت ہو سکے گا۔ اس بیٹنگ آرڈر میں کئی ایسے باصلاحیت نوجوان ہیں جو اپنے بل بوتے پر میچ جیت سکتے ہیں مگر عین موقع پر ابھرنے کے لیے کپتان اور مینیجمنٹ کی وہ تائید بھی لازمی ہے جو کسی بھی کھلاڑی کا حوصلہ بڑھا سکے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.