عید سے پہلے مویشی منڈیوں میں کیش کی بجائے موبائل فون سے ادائیگی، مگر کیسے؟

image

مویشی منڈی میں اگر جانور کی خریداری کے لیے جانا ہو تو آپ کو پہلے کیش رقم کا انتظام کرنا ہوتا ہے اور پھر اسے سنبھالنے کی فکر رہتی ہے۔ تاہم اب سٹیٹ بینک نے مویشی منڈیوں میں جانوروں کی خریداری کے عمل کو آن لائن ادائیگی کے ذریعے ممکن بنا دیا ہے۔ 

اس حوالے سے پاکستان کے مرکزی بینک نے جانوروں کی خرید و فروخت کرنے والے افراد کو ڈیجیٹل بینکنگ کی سہولت متعارف کراتے ہوئے ’راست سروس‘ کے ذریعے جانوروں کی خریدو فروخت کی ادائیگی کا نظام لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس سے خریدار اور بیورپاری دونوں کو سہولت ملے گی۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان نے مختلف نجی بینکوں کو مویشی منڈیوں میں جا کر آگاہی کیمپ لگانے کی بھی ہدایت کر دی ہے۔ کیمپس میں شہریوں کو ڈیجیٹل بینکنگ کے فوائد اور بالخصوص مویشی منڈیوں میں جانوروں کی خریداری کے دوران آن لائن ادائیگیوں پر معلومات فراہم کی جائیں گی۔

کیو آر کوڈ کے رقم کی ترسیل

ترجمان سٹیٹ بنک کے مطابق جانور کی خریداری کرنے والے شہری اپنی مرضی کا جانور پسند کرنے کے بعد کیش رقم دینے کے بجائے اپنے بینک کی آن لائن ایپلیکشن کے ذریعے رقم بیوپاری کو بھیج سکیں گے۔

کیو آر کوڈ کو موبائل فون سے سکین کریں گے، رقم کا اندراج کرنے کے بعد بھیجنے والے کے اکاؤنٹ کی تفصیلات کی تصدیق ہوگی اور چند ہی سیکنڈز میں رقم بیوپاری کو منتقل ہو جائے، جس کی تصدیقی کا میسج بھیجنے اور وصول کرنے والے دونوں شہریوں کو موصول ہوجائے گا۔ 

اردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے مزید بتایا کہ بنیادی طور پر اس اقدام کا مقصد ڈیجیٹل اکانومی کا فروغ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ عمومی طور پر جب شہری مویشی منڈیوں کا رخ کرتے ہیں تو اِس سے قبل وہ بھاری رقم کیش میں جمع کرتے ہیں۔ لیکن اب اُنہیں اس جھنجھنٹ میں پڑنے کی ضرورت نہیں اور وہ جانور خریدتے وقت آن لائن ادائیگیاں کر سکتے ہیں۔

کیو آر کوڈ بنانے کا طریقہ

’شہری اپنی موبائل بینکنگ ایپ میں لاگ ان کر کے اپنے بینک اکاؤنٹ کا کیو آر کوڈ حاصل کر سکتے ہیں۔ ایپ میں موجود کیو آر کوڈ خریدار کو بھیج کر رقم آن لائن حاصل کی جا سکتی ہے۔ علاوہ ازیں موشی منڈیوں میں موجود بیوپاری کیو آر کوڈ کا پرنٹ بھی باہر آویزاں کر سکتے ہیں جس کو سکین کر کے شہری با آسانی آن لائن ادائگیاں کر سکیں گے۔‘

کیو آر کوڈ آن لائن شیئر بھی کیا جا سکتا ہے: ترجمان

انٹرنیٹ بینکنگ ایپ میں موجود کیو آر کوڈ نہ صرف منڈی آنے والے خریداروں کو دیا جا سکتا ہے بلکہ آن لائن ادائیگیوں کے لیے اسے واٹس ایپ یا بذریعہ ای میل بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ جس کو سکین کر کے شہری آن لائن رقم بھیج سکتے ہیں۔

اسی طرح اگر بیوپاریوں نے خود آگے کہیں رقم بھیجنی ہے تو وہ یہی طریقہ اپناتے ہوئے مطلوبہ ادائیگی کر سکتے ہیں۔

ابتدائی طور پر 15 شہروں میں 50 کے قریب مویشی منڈیوں میں ڈیجیٹیل کرنسی کے استعمال پر کام کیا جائے گا (فوٹو: اے ایف پی)’ابتدائی طور پر ملک کے 15 شہروں میں قائم 50 مویشی منڈیوں میں یہ سہولت میسر ہو گی‘

سٹیٹ بینک کے مطابق مویشی منڈیوں میں جانوروں کی خریداری کے لیے ابتدائی طور پر ملک کے 15 شہروں میں قائم 50 مویشی منڈیوں میں سسٹم متعارف کروایا جائے گا۔ ان شہریوں میں قائم کی گئی 50 کے قریب مویشی منڈیوں میں رقوم کی ادئیگیوں کو ڈیجیٹیل کیا جائے گا۔

اس بارے میں پاکستان کے مرکزی بینک کے ترجمان نے بتایا ہے کہ یہ ایک ایسی سہولت ہے جس کا کہیں بھی اور کسی مقصد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

 تاہم ابتدائی طور پر 15 شہروں میں قائم کی گئیں 50 کے قریب مویشی منڈیوں میں ڈیجیٹیل کرنسی کے استعمال اور اس کے فروغ پر کام کیا جائے گا۔

مویشی منڈیوں میں ڈیجیٹل کرنسی کے فروغ کے لیے آگاہی مہم بھی شروع کریں گے: سٹیٹ بینک

سٹیٹ بینک کے ترجمان نے اُردو نیوز کو مزید بتایا ہے کہ پاکستان میں ڈیجیٹل اکانومی کے فروغ کے لیے مرکزی بینک آگاہی مہم بھی شروع کر رہا ہے۔ ملک کے مخلتف شہروں میں قائم کی جانے والے مویشی منڈیوں میں آنے والے شہریوں اور وہاں موجود بیوپاریوں کو آن لائن ادائیگیوں کے طریقہ کار یعنی کیو آر کوڈ کے ذریعے رقم کی منتقلی پر آگاہی فراہم کی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ آئندہ عرصہ کے دوران ڈیجیٹل کرنسی کے استعمال کو مزید پھیلایا جائے گا تاکہ شہریوں کو جدید سہولیات کا زیادہ سے زیادہ تجربہ حاصل ہو سکے۔

اس حوالے سے سٹیٹ بینک آف پاکستان نے مختلف نجی بینکوں کو مویشی منڈیوں میں جا کر آگاہی کیمپ لگانے کی بھی ہدایت کر دی ہے۔ کیمپس میں شہریوں کو ڈیجیٹل بینکنگ کے فوائد اور بالخصوص مویشی منڈیوں میں جانوروں کی خریداری کے دوران آن لائن ادائیگیوں پر معلومات فراہم کی جائیں گی۔

اقبال قریشی نے کہا کہ ’ہم کیسے آن لائن جانور بیچیں گے ہمارا تو بینک میں اکاونٹ نہیں ہے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)کیا جانوروں کے بیوپاری اس سروس کا استعمال کر پائیں گے؟

کراچی مویشی منڈی میں کام کرنے محمد جاوید ملک نے اردو نیوز کے نامہ نگار زین علی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بیوپاریوں کے لیے یہ عمل آسان نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر کی مویشی منڈیوں میں جانور فروخت کرنے آئے افراد کی بڑی تعداد موبائل فون کے استعمال اور خاص کر ڈیجیٹل بینکنگ سے آشنا نہیں ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ لوگوں کے لیے مویشی منڈی میں فون کا استعمال ہی مشکل ہوتا ہے، ایسے میں آن لائن بینکنگ کیا کسی کو سمجھ آئے گی۔ یہ رقم کی ادائیگی کے لیے ایک محفوظ اور موثر ذریعہ ضرور ہے لیکن اس کا پاکستان کی مویشی منڈیوں کامیاب ہونا آسان نہیں ہوگا۔ 

کراچی لیاقت آباد میں جانور فروخت کرنے والے اقبال قریشی کا کہنا ہے کہ ’جانور کے پیسے آن لائن لینے کے بارے میں ابھی تک صرف سن ہی رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلے سال بھی سنا تھا کہ جانور کے پیسے بینک میں آئیں گے۔ لیکن ہم کیسے آن لائن جانور بیچیں گے ہمارا تو بینک میں اکاونٹ نہیں ہے۔‘ 

انہوں نے کہا کہ ’ہم تو سالوں سے یہاں جانور کی خرید و فروخت کا کام کرتے ہیں۔ لوگ آتے ہیں، جانور پسند کرتے ہیں اور پیسے دے کر جانور لے جاتے ہیں۔‘ 

’کیا ایسا ہوگا کہ کوئی جانور لے جائے گا اور پیسے نہیں دے گا؟ ہم تو نہیں کریں گے ایسا کام ،ہمیں تو ہفتے کے ہفتے منڈی والوں کو پیسے دینے پڑتے ہیں۔ سالوں سے یہ سلسلہ ہے، مال گاڑی سے اترتا ہے گنتی ہوتی ہے، اور بھاو کے حساب سے پیسے لگ جاتے ہیں۔‘

اب دیکھنا یہ ہوگا کہ انتظامیہ کس حد تک بیوپاریوں کو اس جانب راغب کرنے میں کامیاب ہوتی ہے (فوٹو: اے ایف پی)عدنان کیٹل فارم کے مالک زبیر مجاہد کا کہنا ہے کہ اگر سٹیٹ بینک مویشی منڈیوں میں آن لائن بینکنگ کی سہولت فراہم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ ایک انقلابی اقدام ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک میں امن وامان کی صورتحال سب کے سامنے ہے، خاص کر کراچی شہر میں لوٹ مار کی وارداتوں میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔ ایسے میں اگر جانور کی خرید و فروخت میں اگر کیش کا سسٹم کم ہوجائے گا تو اس سے سب کو فائدہ ہوگا۔ بیوپاری بھی پیسے سمبھالنے کے چکر سے باہر نکلے گا اور خریدار بھی بنا کسی خوف کے منڈی میں جانور کی باآسانی خریداری کرسکے گا۔ 

انہوں نے کہا کہ اب جدید دور ہے، سب کے پاس سمارٹ فون ہے، ایک اکاونٹ کا سسٹم بحال ہونا ہے، اگر اس میں آسانی ہوجائے گی تو یہ منصوبہ کامیاب ہوجائے گا۔  

مرکزی بینک کی جانب سے ڈیجیٹل بینکنگ کے فروغ کی کوششیں تو بہت کی جارہی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ انتظامیہ کس حد تک بیوپاریوں کو اس جانب راغب کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.