چند سال قبل انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیرمیں جب بھی الیکشن ہوتے تھے تو بیشتر پولنگ مراکز پر اِکا دُکا ووٹر ہی نظر آتے تھے لیکن مئی کے دوران کشمیر کے سرینگر، بارہمولہ، اننت ناگ اور راجوری خطے کی تین پارلیمانی نشستوں کے لیے ہونے والے انتخابات میں ووٹنگ شرح کے چالیس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔
![indian kashmir](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/5949/live/bcba4850-1b16-11ef-b544-2b3b2e355c72.jpg)
انڈین الیکشن کے دوران انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں تین پارلیمانی سیٹوں کے لیے ووٹنگ میں عوام کی تاریخی شمولیت اور ہائی ووٹر ٹرن آؤٹ نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
چند سال قبل انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیرمیں جب بھی الیکشن ہوتے تھے تو بیشتر پولنگ مراکز پر اِکا دُکا ووٹر ہی نظر آتے تھے لیکن مئی کے دوران کشمیر کے سرینگر، بارہمولہ، اننت ناگ اور راجوری خطے کی تین پارلیمانی نشستوں کے لیے ہونے والے انتخابات میں ووٹنگ شرح کے چالیس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔
ماضی میں مسلح شورش، علیحدگی پسندوں کی بائیکاٹ مہم اور آئے روز ہلاکتوں کے بیچ ہونے والے انتخابات میں عام لوگ الیکشن کو بہت کم اہمیت دیتے تھے لیکن اس بار کے انتخابات 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد ہونے والی پہلی سیاسی سرگرمی تھی۔
الیکشن کمیشن آف انڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق سرینگر کی سیٹ پر 40 فیصد، بارہمولہ کی سیٹ پر 60 فیصد اور اننت ناگ کی سیٹ پر بھی 53 فیصد سے زیادہ ووٹنگ شرح ریکارڈ کی گئی۔
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر سے متعلق پاکستان ماضی کے مقابلے میں بہت کم دلچسپی لے رہا ہے جبکہ لائن آف کنٹرول پر بھی چار سال سے سیزفائر کامیاب ہے۔ انڈین سپریم کورٹ نے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے مودی حکومت کے فیصلے کی توثیق کر دی ہے اور علیحدگی پسندوں کی بڑی تعداد جیلوں میں ہے اور جو جیلوں میں نہیں ہیں اُن کی بڑی تعداد نے اس بار ووٹ بھی دیا ہے۔
لیکن اس سب کے باوجود یہاں کی دو بڑی سیاسی جماعتیں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی پولنگ میں بھاری عوامی شرکت کو ’جمہوری احتجاج‘ کا نام دے رہی ہے۔
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں مختلف پارٹیوں کی الیکشن مہم کے دوران ’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘، ’جیل کا بدلہ ووٹ سے‘ جیسے نعروں کی گونج تھی۔
اس بار نیا یہ ہوا ہے کہ کالعدم قرار دی جانے والی جماعت اسلامی کے رہنماوٴں نے عوام کو ووٹ ڈالنے کی ترغیب دی ہے۔
سنیچر کو اننت ناگ میں الیکشن کے دوران جماعت اسلامی کے ضلعی صدر محمد یوسف وانی نے ووٹ ڈالنے کے بعد کہا کہ ’ہماری لیڈرشپ نے فیصلہ کیا ہے کہ اس بار ووٹ ڈالنا ہے اور ہم نے سبھی اراکین کو ڈائریکشن پاس کی ہے۔‘ جماعت اسلامی حریت کانفرنس کی اکائی رہ چکی ہے اور تین دہائیوں سے الیکشن بائیکاٹ کی کال دیتی آئی ہے۔
تاہم اس بیانیہ کے برعکس مودی حکومت اور بی جے پی اسے پاکستان کی حمایت کرنے والی قوتوں کی شکست سے تعبیر کر رہے ہیں۔
کشمیرمیں مختلف پارٹیوں کی الیکشن کے مہم کے دوران ’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘، ’جیل کا بدلہ ووٹ سے‘ جیسے نعروں کی گونج تھیمحبوبہ مفتی اور عمرعبداللہ کے لیے بقا کی جنگ
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے پارلیمانی الیکشن میں دو سابق وزرائے اعلیٰ نیشنل کانفرنس کے عمرعبداللہ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یا پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی کے سیاسی کریئرز داوٴ پر لگے ہیں۔
دونوں حالانکہ کشمیر میں وزیراعلیٰ کی کُرسی کے دعوے دار تھے لیکن انھوں نے عوامی رجحان کو دیکھ کر پارلیمنٹ کی راہ لے لی۔
سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ آرٹیکل 370 کے بظاہر پُرامن خاتمے کے بعد دونوں اپنے سیاسی بیانیہ کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سماجی اور سیاسی امور کے تجزیہ نگار محمد رفیق شاہ کہتے ہیں کہ ’یہ کہنا آسان ہے کہ دلی میں آرٹیکل 370 کو لے کر جو فیصلہ ہوا اُس پر عوام نے کوئی ردعمل نہیں دکھایا لیکن یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ عوام اس فیصلے سے خوش ہیں۔‘
ان کے مطابق ’یہ وہآخری تنکا ہے جس کے سہارے پی ڈی پی اور این سی اپنی سیاسی ساکھ بچانا چاہتے ہیں، اور دوسری طرف عوام نے الیکشن کو ایک قانونی اور محفوظ طریقہ سمجھ کر اپنی ناراضگی درج کروائی۔‘
تاہم سوال یہ ہے کہ کیا عوام کی بھاری شرکت سے واقعی کشمیری پارٹیوں کو کوئی نظریاتی سہارا ملا ہے؟
’دِلی اور کشمیر کے لیے ’وِن وِن‘ صورت حال‘
کشمیر میں ووٹ ڈالنے والوں کی اکثریت مقامی مسائل کے لیے ووٹ دیتی ہے، لیکن اجتماعی بیانیہ تاریخ کے ہر دور میں غالب بیانیے کی تائید بنتا رہا ہےلائنآف کنٹرول کے قریب راجوری کے نوشہرہ علاقے میں اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد جموں کشمیر کے لیے بی جے پی کے صدر رویندر رینا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کشمیر میں ریکارڈ توڑ ووٹنگ ہو رہی ہے۔ ہمارا تو اُمیدوار نہیں تھا لیکن ہم نے گاؤں، گاوٴں جا کر لوگوں سے کہا ہے کہ وہ ایسے ووٹ کے جمہوری حق کا استعمال کریں اور ایسے نمائندے کا انتخاب کریں جو وطن دوست ہو، اُن کی بھلائی چاہتا ہو اور کل کو نریندر مودی کے کندھے سے کندھا ملا کر اپنے علاقے اور اپنے ملک کی ترقی کے لیے کام کرنے کا اہل ہو۔‘
واضح رہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے انتخابی اکھاڑے میں اس بار عمر عبد اللہ اور محبوبہ مفتی کے علاوہ پیپلز کانفرنس کے سجاد غنی لون اور ’اپنی پارٹی‘ کے الطاف بخاری بھی میدان میں تھے۔
سجاد خود بارہمولہ سیٹ پر عمرعبداللہ کے خلاف لڑے ہیں جبکہ الطاف بخاری نے اننت ناگ سیٹ پر اُمیدوار کھڑا کیا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ پیپلز کانفرنس اور اپنی پارٹی کو بی جے پی کی درپردہ حمایت حاصل ہے۔
![انڈیا کے زیر انتظام کشمیرمیں انتخابات](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/6d24/live/cac42d30-1b07-11ef-b613-c54c34a1da08.jpg)
راجوری کے رہنے والے معروف صحافی اور تجزیہ نگار ظفرچوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ اس بار کی ریکارڈ پولنگ نئی دلی اور کشمیر کی علاقائی پارٹیوں دونوں کے لیے ’وِن وِن سچوئیشن‘ ہے۔
’بی جے پی یا مرکزی حکومت ہمیشہ یہاں کے الیکشن کو نیشنل سکیورٹی کے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے مودی حکومت کے لیے بھاری پولنگ اس سے زیادہ اہم ہے کہ کون الیکشن جیتے گا۔ لیکن مقامی پارٹیوں کے لیے بھاری پولنگ نے لیول پلے اِنگ فیلڈ مہیا کیا ہے۔ ‘
اُن کا کہنا ہے کہ ماضی میں بائیکاٹ کا فائدہ براہ راست نیشنل کانفرنس کو ہوتا تھا، کیونکہ زمینی سطح پر صرف اسی جماعت کے ووٹر جگہ تھے۔
’سنہ 1989 میں تو ایک پارلیمانی سیٹ این سی نے بلامقابلہ جیت لی تھی اور بارہمولہ کی سیٹ صرف پانچ فیصد ووٹنگ سے جیتی تھی جبکہ اننت ناگ میں 20فی صد سے بھی کم ووٹنگ ہوئی تھی۔‘
ظفر چوہدری کے مطابق کشمیر کے ہر پولنگ بوتھ پر اب این سی کے ساتھ ساتھ پی ڈی پی کا بھی ووٹ ہے اس لیے اب کی بار بھاری پولنگ کا فائدہ کل ملا کر سبھی کشمیری پارٹیوں کو ہو گا۔‘
قابل ذکر بات یہ ہے کہ کشمیر میں ووٹ ڈالنے والوں کی اکثریت مقامی مسائل کے لیے ووٹ دیتی ہے لیکن اجتماعی بیانیہ تاریخ کے ہر دور میں غالب بیانیے کی تائید بنتا رہا ہے۔ ماضی میں وہ بائیکاٹ کی تائید میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف احتجاج کی خاطر بنتا تھا اور اس بار بظاہر وہ آرٹیکل 370 کے حق میں ہے۔