طلعت حسین کی وفات: ’سر بس ایک سیلفی‘

طلعت صاحب تو آزاد ہو گئے مگر ہمیں یادوں کی بٹی رسی میں جکڑ گئے۔ ان کی اس حرکت کو زیادتی کہنا چاہیے یا نہیں؟ پڑھیے وسعت اللہ خان کی خصوصی تحریر۔

طلعت صاحب جیسوں سے کسی بھی تھیٹر، ٹی وی اور فلم ناظر یا ریڈیائی صوت پسند کا زیادہ سے زیادہ رشتہ کیا ہو سکتا ہے؟ ایک پرستار کا۔

اگر وہ غیرمتوقع طور پر اچانک سامنے آ جائیں تو زیادہ سے زیادہ کتنی دیر بات ہو سکتی ہے؟ پانچ منٹ؟ چھ منٹ؟ ان میں سے دو منٹ تو اسی ذہنی ہکلاہٹ میں گزر جاتے ہیں کہ کروں بھی تو کیا بات کروں؟ باقی منٹ ایک ہی بات طرح طرح سے جتانے کی کوشش ہوتی ہے۔

سر میں آپ کا بہت بڑا فین ہوں۔ آپ نے فلاں سیریل، فلاں سٹیج پلے اور فلاں ریڈیو تمثیل اور فلاں فلم میں جو کردار نبھایا سر کیا بات ہے آپ کی۔ سر آٹو گراف مل جائیں گے؟ سر برا نہ مانیں تو بس ایک سیلفی۔۔۔

مگر مجھ پر خدا کا کرم ہے کہ ایسی کوئی واردات نہیں بیتی۔ سنہ 1993 کے جولائی کے مہینے کی کسی سہہ پہر کو صرف اتنا ہوا کہ طلعت صاحب شاید بطور مہمان انٹرویو کے سلسلے میں لندن میں بی بی سی کے سابقہ ہیڈکوارٹر بُش ہاؤس کے پانچویں فلور پر اردو سروس میں نمودار ہوئے۔ سب سے ملے۔ چائے پینے کی خواہش ظاہر نہ کرتے تو میں انھیں بیسمنٹ کی کنٹین میں بھی نہ لے جا پاتا۔

گفتگو سے لگا کہ شاید بہت دن بعد لندن آئے ہیں۔ پوچھنے لگے میاں تمہاری شفٹ کب ختم ہو گی؟ مجھے آکسفورڈ سرکس جا کے خریداری کرنی ہے۔ وقت ہو تو تم بھی چلو۔

آکسفورڈ سٹریٹ پر ہم نے تین چار مشہور ڈیپارٹمنٹل سٹورز کے تقریباً تمام فلور چھان مارے۔ انھیں کچھ بھی پسند نہیں آ رہا تھا۔ لگ بھگ سوا تین گھنٹے بعد پہلی بار میری شکل پر پونے بارہ بھانپتے ہوئے پوچھا میاں تم بور تو نہیں ہو رہے ہو؟ ظاہر ہے کوئی بھی آدمی اس سوال کا مہمان کو سوائے اس کے کیا جواب دے گا کہ نہیں سر آپ کے ساتھ وقت گزارنا تو باعثِ سعادت ہے۔

خدا خدا کر کے طلعت صاحب نے ایک سٹور سے ایک شرٹ، چھ انڈروئیرز کا سیٹ، ایک سٹور سے ایک ٹراؤزر اور ایک دکان سے لائٹر خریدا اور یوں شاپنگ مکمل ہو گئی۔

چلو اب تمھیں اس ریسٹورنٹ میں کچھ کھلاتا ہوں جہاں میں تب بیٹھتا تھا جب لمڈا (لندن اکیڈمی آف میوزک اینڈ ڈرامیٹک آرٹ) میں پڑھتا تھا۔

وہ مجھے پکاڈلی چوک کے قریب ایک گلی میں قائم پرانے سے کیفے میں لے گئے جہاں زیادہ تر لوگ روایتی برٹش ناشتے، سینڈوچ، کروساں، پنینی، چائے کافی وغیرہ کی آڑ میں گھنٹوں بیٹھ سکتے ہیں۔ تو یہ تھی طلعت صاحب سے پہلی ملاقات۔ جو بس ٹھیک تھی۔

سنہ 1998 میں جب کراچی واپسی ہوئی تو طلعت صاحب سے مسلسل ملنا رہا۔ تب کچھ اور گوشے کھلتے چلے گئے۔ مثلاً یہی کہ انھیں مداحوں کی بھیڑ میں گھرے رہنے کے بجائے کسی معقول سے متوسط ریستوران میں بیٹھ کے اکادکا لوگوں سے گفتگو کرنا زیادہ اچھا لگتا تھا۔

کبھی کبھی تو یوں لگتا کہ ’یکطرفہ مکالمے‘ کی صنف کے بانی بھی وہی ہیں۔ مرچ مسالہ، غیبت اور گالی ان کے ڈی این اے میں شاید تھے ہی نہیں۔

وہ ایک روایتی پڑھے لکھے مڈل کلاسی ہونے کی مجبوری میں آس پاس کے ماحولسے مطمئن نہیں تھے۔ اکثر کسی واقعہ یا خبر پر خود ہی کھولتے، کبھی کبھی چہرہ لال کر لیتے اور پھر ٹھنڈے پڑ جاتے۔

اگرچہ شو بزنس میں انھیں مسلسل اور بے پناہ پذیرائی اور تکریم ملی۔ مگر اپنی ’برادری‘ کے برعکس ’میں نے یہ کیا میں نے وہ تیر مارا، مجھ پر فلاں اور میں فلاں پر عاشق ہو گیا‘ کے مرض میں مبتلا نہیں تھے۔

ان کے بے شمار کام پر بات چھیڑی بھی جاتی تو موضوع بدل دیتے اور پھر اس کتاب پر گفتگو شروع کر دیتے جو انھوں نے کل ہی ختم کی ہے۔ حتیٰ کہ اپنے ایوارڈز کا تذکرہبھی اچھا نہیں لگتا تھا ’بس میاں انھیں کچھ پسند آ گیا ہو گا تو اس قابل سمجھ لیا۔‘ بات ختم۔

البتہ عالمی سینما پر گفتگو میں ان کے لبوں پر برانڈو، لارنس اولیئور، جیک لیمن، سڈنی پوئٹر، ہنری فونڈا، آڈرے ہیبرن، اینتھنی ہاپکنز اور رابرٹ ڈی نیرو کا نام آ جاتا تھا۔ دلیپ کمار کے مداح تھے مگر امتیابھ بچن کے بارے میں ان کے تحفظات تھے۔ بہت ہی اصرار پر کہتے کہ ’بات یہ ہے کہ کچھ لوگ کبھی کبھی کیمرے کو پسند آ جاتے ہیں۔‘

خال خال اپنی والدہ (شائستہ بیگم) کا تذکرہ کیا کرتے جن کا شمار ریڈیو پاکستان کے ابتدائی برسوں کی منجھی ہوئی صداکاراؤں میں ہوتا تھا۔ غالباً پڑھنت اور آواز کا استعمال طلعت صاحب کو لاشعوری طور پر والدہ کے ورثے میں ملا۔ مطالعے اور اچھی فلم بینی کا شوق والد کی طرف سے ملا۔

فکری شیرازہ بندی ریڈیو کے دنوں میں شاید قمر جمیل، ضمیر علی بدایونی اور سلیم احمد اور اپنے استاد پروفیسر حسن عسکری کی محافل اور گفتگو سے ہوئی ہو گی اور مکالمہ آرائی کا ڈھنگ بھی انہی کنہی میں سےاترا ہو گا۔

چونکہ طلعت صاحب کی پسند ناپسند کھلی تھی، لہٰذا لابنگ، سازش یا تگڑم بازیان کے بس کی بات ہی نہیں تھی۔ شاید کبھی مارے خودداری کسی سے کام مانگنے کی ہمت بھی نہ ہوئی ہو گی۔ کام تو ان کے پاس خود چل کے آتا تھا۔

آدمی خوش شکل و خوش گفتار تھے۔ مگر نہ انھوں نے کبھی شیخی ماری کہ شو بزنس میں رہتے ہوئے کسی سے معاملہ چلا یا نہیں چلا اور نہ ہی کسی اور کے منھ سے ان کے بارے میں ایسا ویسا تذکرہ سنا۔

ان کی زندگی میں کوئی فالتو کی رنگینی نہ دریافت کر کے بے ساختہ یہ محاورہ یاد آتا تھا کہ ’اے بیوٹی فل نن از اے ٹریجک ویسٹ۔‘

طلعت صاحب نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) میں ضیا محی الدین کی بنیادی تاسیسی ٹیم میں شامل تھے۔ وہ اداکاری پڑھاتے تھے۔ آدھا برس مجھے بھی پڑھایا۔ پورا سمسٹر ابسن کا کھیل ’اے ڈولز ہاؤس‘ سمجھانے میں لگا دیا۔

ایک جگہ تلوے ٹکا کے لیکچر دینے کے بجائے ٹہل ٹہل کے پڑھاتے تھے۔ پڑھاتے کیا تھے گفتگو میں انگیج کرنے کی کوشش کرتے۔ جو طالبعلم کچھ ٹپس لے لے اس کا بھی بھلا، جو نہ سمجھ سکے اس کا بھی بھلا۔

طلعت صاحب شوقیہ گلوکار تھے۔ مگر فرمائش کے بجائے موڈ کے تابع تھے۔ ہارمونیئم پر بھی انگلیاں چلا لیتے تھے۔ مصوری میں بھی ایک دور میں طبع آزمائی کی۔ پڑھتے رہنے کے سبب کچھ لکھنا بھی چاہتے تھے۔

پچھلے کئی برس سے بتاتے رہتے تھے کہ میں نے ایک ناول تقریباً لکھ لیا ہے۔ بس آج کل میں مکمل ہونے والا ہے۔ جانے اس ناول کا اب کیا ہو گا۔

طلعت صاحب تو آزاد ہو گئے مگر ہمیں یادوں کی بٹی رسی میں جکڑگئے۔ ان کی اس حرکت کو زیادتی کہنا چاہیے یا نہیں؟


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.