’کراچی کی شرفا کمیٹی کا آخری شریف‘

طلعت صاحب دوسرے دوستوں سے بھی ذکر کرتے تھے کہ وہ ایک کتاب پر کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ایک مصنف دوست اکثر نصیحت کرتے ہیں کہ کتاب لکھو، اس سے پہلے کہ تم پر کتاب لکھی جائے۔ طلعت صاحب شرفا کی اس نسل کے آخری نمائندے تھے، جو سوچتے تھے کہ پہلے کچھ پڑھ تو لیں پھر لکھیں گے۔

بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ کر بچپن کی غلطیاں بھی کارنامے لگنے لگتی ہیں، معروف اداکار، صدا کار اور استاد طلعت حسین کی وفات پر ان کی زندگی اور فن کے بارے میں مضامین پڑھتے ہوئے اپنے اوائل جوانی کا کراچی یاد آ گیا۔

صحافت کا آغاز شوبزنس کی صحافت سے کیا تھا اور اس زمانے میں شوبزنس کا مطلب ٹی وی کے ڈرامے تھے یا سال میں ایک دو بار ہونے والے سٹیج ڈرامے۔ ڈراموں کے بارے میں اپنی عالمانہ رائے لکھنا اور پھر اداکاروں اور ہدایت کاروں سے انٹرویو کرنا۔

طالب علمی کے زمانے میں دوچار کتابیں پڑھ رکھی تھیں اور دنیا کے دو چار مصنفین کے نام سن رکھے تھے۔ اس زمانے میں دانشور ہونے کے لیے اتنا علم کافی تھا۔ ایڈیٹر کو آئیڈیا پیش کیا کہ شوبزنس کے لوگوں سے کتابوں کے بارے انٹرویو کا ایک سلسلہ شروع کیا جائے۔

انھوں نے ذہن پر زور دے کر کہا کہ طلعت حسین صاحب بہت کتابیں پڑھتے ہیں، اکثر اپنی لائبریری کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ پہلے ان کا انٹرویو کر لو۔

میری زندگی کا مقصد تو شوبزنس کا چیتا رپورٹر بننا تھا لیکن ٹی وی کم کم دیکھتا تھا اور مشہور اداکاروں سے بات کرتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔ ایک انٹرویو میں معین اختر سے اپنی کم علمی کے باعث ڈانٹ بھی کھا چکا تھا۔ میں نے پوچھ لیا تھا کہ آپ اپنے لباس پر بہت توجہ دیتے ہیں، سوٹ بھی بہت مہنگے پہنتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ اگر بادشاہوں جیسا لباس پہنو گے تو اپنے آپ کو بادشاہ محسوس کرو گے اور پھر میرے ململ کے شلوار قمیض کو دیکھتے ہوئے کہاکہ اگر بھکاریوں جیسے کپڑے پہنو گے تو اپنے آپ کو بھکاری محسوس کرو گے۔

میں نے ایڈیٹر سے پوچھا کہ طلعت صاحب کیسے آدمی ہیں؟ انھوں نے یقین دلایا کہ طلعت حسین ایک شریف آدمی ہیں۔ میری ہنسی چھوٹ گئی اور میں نے ایڈیٹر کو بتایا کہ شوبزنس کی دنیا سے باہر اصلی کراچی میں شریف کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔

کراچی پر اس وقت الطاف بھائی والی اصلی ایم کیو ایم کا غلبہ تھا۔ لڑکے سڑک پر آپ کی موٹر سائیکل روک کر چابی نکال لیتے تھے اور اس وقت تک واپس نہیں کرتے تھے جب تک آپ پہلے ’جیئے مہاجر‘ کا نعرہ اور پھر دل سے’جیئے مہاجر‘ کا نعرہ نہیں لگاتے تھے۔

ایم کیو ایم نے ویسے تو اپنا کمانڈ اینڈ کنٹرول کا نظام فوج کی طرز پر بنا رکھا تھا، جس میں سیکٹر کمانڈر اور یونٹ انچارج ہوتے تھے لیکن کراچی کا ہر بچہ جانتا تھا کہ بوری بند کون ہو گا اور کس کے گھٹنے پر ڈرل مشین چلے گی۔ اس کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں اور یہ فیصلے کرنے والوں کو کبھی مذاق سے اور کبھی خوف سے شرفا کمیٹی کہتے تھے اور یہ ہر یونٹ اور سیکٹر میں موجود تھی۔

ایڈیٹر نے تسلی دی کہ طلعت حسین صاحب اس طرح کے شریف نہیں بلکہ انتہائی بے ضرر انسان ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

طلعت حسین سے انٹرویو ان کے گھر میں بنی لائبریری میں ہوا۔ آغاز میں وہ ہی پرانا سوال کہ پسندیدہ مصنف کون ہے؟ انھوں نے پوچھا کون سی زبان میں؟

چونکہ اردو کی چار اور انگریزی میں چھ کتابیں پڑھ رکھی تھیں تو سٹپٹا کر پوچھا کہ آج کل کسے پڑھ رہے ہیں؟ انھوں نے شفقت سے بتایا کہ آج کل وہ فرانسیسی ناول نگار کو پڑھ رہے ہیں۔

تم نے کس کو پڑھا ہے؟ مجھے صرف البرٹ کامیو کا نام یاد تھا تو لے دیا۔ وہ بہت اچھا ہے لیکن آپ کو آندرے گائیڈ پڑھ لینا چاہیے۔ پھر اٹھے اور بک شیلف میں سے کتاب نکال کر دکھائی۔

پھر یہ انٹرویو ایک کلاس میں تبدیل ہو گیا۔ جس میں انھوں نے مجھے بتایا کہ مغرب کی ادبی تحریکوں، جدید افریقی ادب اور لاطینی امریکہ کے ادب کا فیشن کیوں چل پڑا ہے؟

پورے انٹرویو میں مجھے اپنی جہالت کا احساس نہیں ہونے دیا اور میں نے بھی کچھ دیر بعد اپنا ادب پرستی والا ڈھونگ ختم کر دیا اور جب بھی وہ کسی نئے مصنف کا نام لیتے یا کوئی ادبی اصطلاح استعمال کرتے تو میں ایک محنتی طالب علم کی طرح نوٹس لیتا جاتا۔

ڈیڑھ گھنٹے کے انٹرویو میں میری اتنی ادبی تعلیم ہو گئی جو پوری کالج کی پڑھائی کے دوران نہیں ہوئی تھی۔ شوبزنس کے لوگوں کے مطالعے کی عادتوں کے بارے میں انٹرویو کا سلسلہ ان ہی سے شروع ہوا اور ختم ہو گیا۔

انٹرویو کے دوران مجھے حیرت ہوئی کہ اتنا مشہور اداکار آخر اتنی کتابیں کیوں پڑھتا ہے۔ پوچھا کہ آپ خود بھی لکھتے ہیں؟ انھوں نے تھوڑی ہچکچاہٹ کے بعد کہا کہ ایک ناول پر کام شروع کیا ہے لیکن ابھی تحقیق کے مراحل میں ہے۔

مجھے نہیں پتا تھا کہ ناول لکھنے کے لیے بھی تحقیق کرنی پڑتی ہے۔ کس طرح کی تحقیق؟ انھوں نے کہا کہ ناول کا مرکزی کردار سرمد ہے تو میں اس دور میں مختلف مذاہب کی صوفی تحریکوں کے بارے میں پڑھ رہا ہوں۔ پھر میری حیرت بھانپتے ہوئے بتایا کہ صوفی صرف اسلام میں ہی نہیں بنے، مسیحی اور یہودی صوفی بھی ہوتے ہیں۔

طلعت صاحب دوسرے دوستوں سے بھی ذکر کرتے تھے کہ وہ ایک کتاب پر کام کر رہے ہیں۔ ہمارے ایک مصنف دوست اکثر نصیحت کرتے ہیں کہ کتاب لکھو، اس سے پہلے کہ تم پر کتاب لکھی جائے۔ طلعت صاحب شرفا کی اس نسل کے آخری نمائندے تھے، جو سوچتے تھے کہ پہلے کچھ پڑھ تو لیں پھر لکھیں گے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.