سائفر مقدمے میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ’بریت‘ لیکن اس کا مطلب کیا ہے؟

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سوموار کے دن سائفر کے مقدمے میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے ان کی سزاؤں کو کالعدم قرار دیا تو یہ 27 مارچ 2022 کو عمران خان کی جانب سے اسلام آباد میں ایک جلسے کے دوران ’سائفر‘ لہرائے جانے سے شروع ہونے والی کہانی میں ایک اور اہم موڑ تھا۔تاہم اس فیصلے کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اب کیا ہو گا؟

اسلام آباد ہائیکورٹ نے سوموار کے دن سائفر کے مقدمے میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی کی اپیلیں منظور کرتے ہوئے ان کی سزاؤں کو کالعدم قرار دیا تو یہ 27 مارچ 2022 کو عمران خان کی جانب سے اسلام آباد میں ایک جلسے کے دوران ’سائفر‘ لہرائے جانے سے شروع ہونے والی کہانی میں ایک اور اہم موڑ تھا۔

عدالت کی جانب سے سوموار کے دن مختصر فیصلہ سنایا گیا جبکہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اس سال جنوری میں سائفر مقدمے میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دس دس سال قید کی سزا سنائی تھی۔

سوموار کے دن اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی ڈویژن بینچ نے جب ان اپیلوں پر فیصلہ سنایا تو اس موقع پر عمران خان کی دونوں بہنوں کے علاوہ شاہ محمود قریشی کی اہلیہ، ان کی بیٹیاں اور پی ٹی آئی کے متعدد رہنما بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

تاہم اس فیصلے کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اب کیا ہو گا؟

کیا عمران خان اور شاہ محمود قریشی رہا ہو سکیں گے؟

سابق وزیراعظم عمران خان کو عدت کے دوران نکاح کے مقدمے میں سات سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے جبکہ پنجاب پولیس نے 9 مئی کے ایک مقدمے میں سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی گرفتاری ڈال رکھی ہے۔ پولیس نے متعلقہ عدالت سے شاہ محمود قریشی کا تین روزہ جسمانی ریمانڈ بھی حاصل کیا تھا تاہم عدالت نے ملزم کو لاہور لے کر جانے کی پولیس کی استدعا مسترد کر دی تھی۔

عدت کے دوران نکاح کا مقدمہ ایڈیشنل سیشن جج شاہ رخ ارجمند کی طرف سے کسی دوسری عدالت میں منتقل کرنے سے متعلق دائر درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے یہ مقدمہ ایڈیشنل سیشن جج محمد افضل مجوکا کی عدالت میں بھیج دیا ہے اور قانونی ماہرین کے مطابق مذکورہ جج از سر نو اس مقدمے کی سماعت کریں گے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ کے مقدمے میں پی ٹی آئی کے بانی عمران خان اور بشری بی بی کی ضمانتیں منظور کر رکھی ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے توشہ خانہ سے تحائف حاصل کرنے کے باوجود انھیں اپنے اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے پر درج کیے گئے مقدمے میں بھی ایڈیشنل سیشن جج کی طرف سے دی گئی تین سال کی سزاکے فیصلے کو بھی اسلام آباد ہائیکورٹ معطل کر چکی ہے۔

اسی فیصلے کے بعد عمران خان کوگذشتہ برس 5 اگست کو لاہور سے گرفتار کر کے اٹک جیل منتقل کیا گیا تھا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف 180 سے زائد مقدمات درج ہیں۔ تاہم اسلام آباد میں درج ہونے والے 10 مقدمات میں متعلقہ عدالتیں سابق وزیر اعظم کو بری کر چکی ہیں جبکہ توڑ پھوڑ کے ایک مقدمے میں اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران خان کو 28 جون کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دے رکھا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے اپیلوں کو منظور کرنے کے باوجود عمران خان اور شاہ محمود قریشی جیل سے رہا نہیں ہو سکیں گے۔

پاکستان
AFP

سائفر کا مقدمہ کیا تھا؟

سابق وزیراعظم عمران خان کو حزب اختلاف کی جانب سے پیش کردہ تحریک عدمِ اعتماد کے ذریعے 10 اپریل 2022 کو وزارتِ اعظمیٰ کے منصب سے ہٹایا گیا تھا۔

اس سے تقریباً دو ہفتوں قبل 27 مارچ کو عمران خان نے اسلام آباد میں پاکستان تحریکِ انصاف کے ایک جلسے کے دوران حامیوں کے سامنے ایک کاغذ لہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ وہ ’سائفر‘ ہے جس میں درج ہے کہ انھیں اقتدار سے نکالنے کے لیے کس طرح امریکہ میں سازش کی گئی۔

جلسے کے بعد عمران خان نے ایک اور تقریر میں دعویٰ کیا کہ اُس وقت کے امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو نے امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر اسد مجید خان سے کہا کہ ’اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو وہ پاکستان کو معاف کر دیں گے۔‘

عمران خان کا اصرار تھا کہ ڈونلڈ لو اس امریکی سازش کا حصہ ہیں جس کا مقصد اُن کی حکومت کو ہٹانا تھا۔ تاہم امریکی دفتر خارجہ نے ان تمام الزامات کی تردید کی تھی۔

عمران خان ماضی میں متعدد مرتبہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کو اس ’سازش‘ کا مرکزی کردار قرار دے چکے ہیں۔

پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور 9 کے تحت ایک مقدمہ درج کیا جس کے بعد آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت تحقیقات کا حکم سابق وزیراعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے 19 جولائی 2023 کو دیا تھا اور 29 اگست 2023 کو سائفر کیس میں عمران خان کی گرفتاری ڈال دی گئی۔

اس کیس میں عمران خان پر بنیادی الزام یہ تھا کہ انھوں نے سیاسی فائدے کے لیے ایک حساس سفارتی دستاویز کا استعمال کیا۔

اس وقت کی حکومت کا کہنا تھا کہ سائفر کو سیکرٹ ایکٹ کے تحت پبلک نہیں کیا جا سکتا ہے مگر عمران خان نے اس سائفر کو منٹس اور تجزیے میں تبدیل کیا اور اس کے ساتھ ’کھلواڑ‘ کیا۔

بعد ازاں ایک انٹرویو کے دوران عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ ان کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی ’غائب‘ ہو چکی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی قانونی ٹیم کا اس حوالے سے موقف ہے کہ سائفر کی حفاظت کی ذمہ داری ان کے آفس کے عملے کی تھی نہ کہ خود عمران خان کی۔

خصوصی عدالت نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر سائفر کیس میں فرد جرم 13 دسمبر 2023 کو عائد کی تھی جس کے بعد سے اس کیس پر سماعت لگ بھگ روزانہ کی بنیاد پر جاری تھی۔

اس مقدمے میں استغاثہ کی جانب سے مجموعی طور پر 25 گواہان کو عدالت کے روبرو پیش کیا گیا جن میں عمران خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید بھی شامل تھے۔

یہ ’سائفر‘ ہوتا کیا ہے؟

کسی عام سفارتی مراسلے یا خط کے برعکس سائفر کوڈ کی زبان میں لکھا جاتا ہے۔ سائفر کو کوڈ زبان میں لکھنا اور اِن کوڈز کو ڈی کوڈ کرنا کسی عام انسان نہیں بلکہ متعلقہ شعبے کے ماہرین کا کام ہوتا ہے۔

اس مقصد کے لیے پاکستان کے دفترخارجہ میں گریڈ 16 کے 100 سے زائد اہلکار موجود ہیں، جنھیں ’سائفر اسسٹنٹ‘ کہا جاتا ہے۔

یہ سائفر اسسٹنٹ پاکستان کے بیرون ملک سفارتخانوں میں بھی تعینات ہوتے ہیں۔

اب سائفر کے معاملے کو سمجھنے کے لیے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کے دفتر واشنگٹن کا رُخ کرتے ہیں۔ اُن کی امریکی سفارتکار ڈونلڈ لو سے واشنگٹن میں ایک کھانے پر غیر رسمی ملاقات ہوئی تھی۔

اس ملاقات میں امریکی عہدیدار نے پاکستان سے متعلق اہم امور پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اسد مجید نے یہ سمجھا کہ یہ گفتگو انتہائی اہمیت کی حامل ہے لہٰذا اس سے متعلق دفتر خارجہ کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔

امریکہ میں پاکستانی سفیر نے سفارتخانے میں تعینات سائفر اسسٹنٹ کے ذریعے اس ملاقات کے بارے میں اپنے پیغام کو کوڈ لینگوئنج میں بدلا اور اسے ’مخصوص ذریعے‘ سے اسلام آباد میں خارجہ سیکریٹری کے نام ارسال کر دیا۔

یہ مخصوص ذریعہ کوئی مشین فیکس، ٹیلی گرام، صوتی پیغام یا کچھ اور بھی ہو سکتا ہے اور اس کا دارومدار کسی بھی ملک کے زیر استعمال اس ٹیکنالوجی پر ہوتا ہے جو وہ اس سلسلے میں استعمال کرتے ہیں۔ یوں یہ سائفر پیغام اسلام آباد پہنچ گیا۔

یہاں یہ سائفر جیسے ہی موصول ہوا تو پھر دفترخارجہ نے اپنے سائفر اسسٹنٹ کی مدد طلب کی اور پھر اسے ڈی کوڈ کر لیا گیا۔ اس سائفر کو ڈی کوڈ کروانے کے بعد دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار اس نتیجے پر پہنچے کہ اس سائفر کو ہر صورت چار اہم شخصیات کو بھیجنا لازمی ہے۔

یہ سائفر وزیراعظم، صدر مملکت، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو بھیجا گیا۔

دفتر خارجہ کے حکام کے مطابق سائفر کی یہ تمام کاپیاں اصلی تصور کی جاتی ہیں اور ایک مہینے کے اندر سائفر کو واپس دفتر خارجہ بھیجنا ہوتا ہے۔ یہ کام اس وجہ سے بھی احسن انداز میں ہو جاتا ہے کہ وزیر اعظم کے دفتر میں بھی دفتر خارجہ کے اہم دو سے تین افسران تعینات ہوتے ہیں جو اس ’کمیونیکیشن‘ کو یقینی بناتے ہیں۔

دفتر خارجہ کو آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور صدر مملکت کو بھیجی گئی کاپیاں تو دفتر خارجہ کو موصول ہو گئیں مگر وزیراعظم کو بھیجا گیا سائفر دفترخارجہ کو موصول نہیں ہوا، جس سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا کہ کہیں اس کا کوڈ کمپرومائز تو نہیں ہو گیا ہے یا کہیں یہ سائفر کسی دوسرے ملک کے ہاتھ تو نہیں لگ جائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ حکومتی حلقوں میں بھی اس حوالے سے تفتیش پائی گئی تھی۔

خیال رہے کہ بیرون ملک مِشنوں سے موصول ہونے والے سائفرز عام طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک غیر گردشی اور دوسرے عمومی طور پر وہ ہوتے ہیں جنھیں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔

غیر گردشی سائفرز کو مخصوص ایڈریسز (مخصوص افراد) کے لیے نشان زد کیا جاتا ہے اور بھیجنے والا سفیر فیصلہ کرتا ہے کہ یہ کسے وصول ہونا چاہیے۔ البتہ سیکریٹری خارجہ، ادارے کا سربراہ ہونے کی وجہ سے یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ ایسی ڈپلومیٹک کیبل یا سائفر کس کس کو بھیجا جا سکتا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.